سنگین غداری مقدمے پر اٹھنے والے سوالات اور ان کے جوابات!


ایک فیصلہ جو پچھلے کافی عرصے سے لٹکا ہوا تھا وہ آ چکا ہے اور اپنے ساتھ وہ طوفان لایا ہے۔ جو ہر شخص کو نظر آ رہا تھا۔ خصوصی عدالت نے ریٹائرڈ جنرل اور آمر پرویز مشرف کو سنگین غداری کا مرتکب پاتے ہوئے سزائے موت سنا دی۔ اور اس کے بعد جو درد و غصے کا طوفان اٹھا وہ سامنے ہے۔

آج کی اس قدر تقسیم ہوئی دنیا میں سچ ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ اکثریت تو ویسے ہی سچ سے یوں ہی بیزار ہے۔ اس اکثریت کو وہ چاہیے جو ان کے بیانئے کے مطابق چاہیے۔ خواہ وہ کتنی ہی لغو اور بے معنی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم تیسری دنیا میں رہنے والوں کو کیا کہنا۔ دنیا کی مہذیب مشہور ہوئی ریاستوں میں بھی عین یہ ہی حالات ہیں۔ اس کے باوجود ایک چھوٹی سی کوشش کی جا سکتی ہے جس میں کوئی مضاہکہ بھی نہیں۔

2013 ء کے آخر سے شروع ہوا سنگین غداری کا یہ مقدمہ خدا خدا کر کے اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔ اس کی تاریخ پر جانا فلحال غیر موزوں ہے۔ اس بلاگ کا مقصد ان دلائل کو تولنا ہے جو اس فیصلے کے خلاف یا حق میں ہیں۔

ایک افواہ وباء کی طرح پھیلی ہوئی ہے کہ جب اسحاق ڈار، حسین نواز اور حسن نواز پر غیرموجودگی میں مقدمہ نہیں چل سکتا تو مشرف کی غیرموجودگی میں مقدمہ کیسے چل سکتا ہے؟ یہ غلط فہمی قانون نہ جاننے کی وجہ سے ہے۔ کرمنل لاء کی کارروائی میں سب سے پہلے ملزم پر فردِ جرم عائد کی جاتی ہے۔ جس میں ملزم کو اس پر لگے الزامات پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ آیا وہ ان الزامات کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔

ضروری ہے کہ فردِ جرم عائد ہوتے وقت ملزم کمرہ عدالت میں بذاتِ خود موجود ہو۔ وگرنہ کیس آگے نہیں چل سکتا۔ یہ ہی معاملہ حسن نواز، حسین نواز اور اسحاق ڈار کا ہے۔ تینوں کے خلاف ریفرنس تو دائر ہیں مگر وہ ریفرنس دائر ہونے سے قبل ہی پاکستان سے مفرور ہو گئے تھے اور ان پر فردِ جرم عائد نہ کی جا سکی۔ جس وجہ سے ان کے خلاف مقدمات آگے نہیں بڑھ سکے۔ جبکہ جنرل پرویز مشرف پر مارچ 2014 ء میں ان کی موجودگی میں فردِ جرم عائد کی گئی اور انہوں نے ان الزامات سے انکار کر دیا اور یوں یہ کیس آگے چلا۔ اس کے بعد ان کی کمر میں شدید درد ہوا اور وہ بیرونِ ملک پرواز کر گئے۔ بعد ازاں ایک شادی پر کمردرد کی حالت میں لڈی ڈالتے ہوئے بھی پائے گئے۔

ایک سوال محبِ وطن مشہور ہوئے لوگوں کی جانب سے یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ مشرف کو سنے بغیر اور اس کی غیر موجودگی میں یہ سزا کیسے سنائی جا سکتی ہے؟ دنیا کے کئی ممالک میں ملزمان کی غیرموجودگی میں ٹرائل انجام پاتے ہیں لیکن بین الاقوامی طور پر اس کے کچھ معیار طے ہیں جن کے ہوتے ہوئے ملزم کا اس کی غیرموجودگی میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ اول شرط یہ کہ ملزم کو اپنے خلاف مقدمے کا علم ہو اور اس کو کارروائی کی تمام معلومات پہنچتی رہی ہوں۔

یہ شرط اس مقدمے میں مکمل طور پر پوری ہوئی۔ مشرف کو ان کے خلاف مقدمے کا علم تھا اور کارروائی بذریعہ وکیل یقیناً ان تک پہنچتی رہی ہو گی۔ ملزم کو وکیل کا حق حاصل ہو گا۔ جو کہ اس مقدمے میں پرویز مشرف کو شروع سے لے کر آخر تک حاصل رہا۔ یقیناً سب نے پھانسی کا فیصلہ آنے کے بعد مشرف کے وکیل کو عدالت کے باہر آگ بگولا ہوتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ اور اگر ملزم کو غیرموجودگی میں چلنے والے مقدمے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہو۔ جو کہ بہرحال مشرف کو حاصل ہے اور ان کے وکیل سپریم کورٹ میں ایک اپیل کر بھی چکے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی اٹھایا جاتا رہا کہ جنرل مشرف کو ان کی مرضی کا وکیل رکھنے کی اجاز ت نہیں دی گئی۔ یہ بات اسپیشل کورٹ کے اس فیصلے کی طرف نشاندہی کرتا ہے جس میں عدالت نے بیرسٹر سلمان صفدر کو مشرف کی وکالت سے روک دیا تھا۔ اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف سنگین غداری مقدمے میں اشتہاری اور مفرور تھے۔ ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کرے اور جب بھی کوئی قانونی عدالت اس کو کسی بھی معاملے میں طلب کرے تو وہ حاضر ہو۔

لیکن اگر وہ اپنا یہ فرض پورا نہ کرے تو اس کے حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ پھر یہ عدالت کا استحقاق ہوتا ہے کہ اس اشتہاری کے کون سے حقوق اسے دیتی ہے اور کون سے برقرار رکھتی ہے۔ جنرل مشرف کے کیس میں اسپیشل کورٹ نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو بنیاد بنایا جس میں سپریم کورٹ نے طے کیا کہ ایک اشتہاری کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے پیش ہو سکے جب تک کہ وہ عدالت کے سامنے سرنڈر نہ کرے

ایک شکایت یہ بھی کی جاتی رہی ہے کہ مشرف کو بیان دینے کا موقع نہیں دیا گیا جو کہ سراسر غلط ہے۔ اس 6 سال کے عرصے میں اسپیشل کورٹ نے بار بار جنرل مشرف کویہ موقع دیا کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔ لیکن مشرف نہیں لوٹے۔ ایک وقت میں عدالت نے یہاں تک ڈھیل دے دی کی ایک جوڈیشل کمیشن بنا دیتے ہیں جو دبئی جائے اور مشرف کا بیان ریکارڈ کر لے۔ لیکن مشرف نہ مانے۔ پھر یہ آفر بھی دی گئی کہ جنرل مشرف ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔

لیکن جنرل مشرف نے اس دفعہ بھی بیان دینے سے انکار کر دیا۔ اور پورے ٹرائل میں کئی دفعہ اسپیشل کورٹ میں ان کے وکیل عدالت کو یاد دہانی کرواتے رہے کہ مشرف اب آئے۔ اب آئے۔ لیکن وہ کبھی نہ آئے۔ اس کے باوجود چار سال تک اسپیشل کورٹ نے اس کیس کی رفتار انتہائی دھیمی رکھی اور مشرف کو ان گنت مواقع دیے۔ لیکن اسی سال کے آغاز میں جسٹس کھوسہ نے اپنے فیصلے میں وہ ساری تاریخ تفصیلاً لکھی اور کہا کہ چار سال کا عرصہ ایک بہت لمبا عرصہ ہے۔ اب بھی اگر یہ مقدمہ آگے نہیں چلتا تو یہ ایسے ملزم کو نوازنا ہو گا جو اشتہاری بھی ہے اور مفرور بھی اور ان کی غیرموجودگی میں مقدمہ تیزی سے چلانے کا حکم دیا۔

ایک دہائی یہ بھی دی جاتی رہی کہ صرف مشرف کا ہی احتساب کیوں؟ اس کے سہولت کاروں کا احتساب کیوں نہیں جنہوں نے غیرآئینی کاموں میں اس کا ساتھ دیا۔ یہاں وہ اکثر آرٹیکل 6 کے سبسیکشن کا ذکر کرتے ہیں جو آئین پامال کرنے والے کے سہولت کاروں سے متعلق ہے۔ یہاں یہ بات اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے کہ 18 ویں ترمیم میں 2010 ء میں ڈالا گیا۔ جبکہ آئین کا آرٹیکل 12 یہ کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس جرم کی پاداش میں سزا نہیں دی جا سکتی جو اس نے تب کیا ہو جب وہ فعل جرم ہی نہ ہو۔

مثال کے طور پر، ایک شخص نے ایک سال پہلے قتل کیا۔ لیکن اس وقت قتل جرم نہیں تھا۔ پھر ایک سال بعد نیا قانون بنایا جائے کے قتل جرم ہے۔ تو اب اس شخص جس نے ایک سال پہلے قتل کیا ہے اس کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ انگریزی اصطلاح میں اس کو ریٹروسپیکٹو پنشمنٹ کہا جاتا ہے۔ مشرف پر 2007 ء میں آئین غیرآئینی طور پر معطل کرنے اور غیر آئینی طور پر آئین میں ترامیم کرنے کا الزام ہے۔ جب کہ سہولت کاروں کی شق 2010 ء میں ڈالی گئی۔ تو آئین کے مطابق ان سہولت کاروں کا ٹرائل کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کے باوجود ایک اپیل کے فیصلے میں واضح طور پر لکھا کہ سہولت کاروں کا ٹرائل کرنا مقصود ہو تو حکومت درخواست بھیج دے۔ عدالت درخواستوں کا میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی۔

ایک عرض یہ بھی رہی کہ سنگین غداری کی آئینی تعریف میں آئین معطل کرنے کی تعریف 2010 ء میں شامل کی گئی۔ تو مشرف نے آئین 2007 ء میں معطل کیا تھا۔ کیا یہاں آرٹیکل 12 لاگو نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں دو دلائل ہیں۔ پہلا یہ کہ مشرف پر صرف آئین معطل کرنے کا ہی الزام نہیں تھا بلکہ ان پر آئین پر غیر آئینی ترامیم کرنے کا بھی الزام ہے۔ دوسرا یہ کہ سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں لکھ چکی کہ آئین کو معطل کرنا بھی آئین کو سب ورٹ کرنے کے برابر ہے۔ یہ دونوں الزام سنگین غداری کی اسی تعریف میں آتے ہیں جو کہ 1973 ء کے آئین میں تب ہی سے تھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).