2 نومبر کو کیا ہو گا؟


\"edit\"اسلام آباد اس وقت سیاسی اور قانونی معاملات کے حوالے سے رونما ہونے والے واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دارالحکومت بند کرنے کی دھمکی کا اثر صرف سرکاری بیانات ، وزیروں کی سرگرمیوں ، تحریک انصاف کی تیاریوں اور پرتجسس صحافیوں کی پیشین گوئیوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی 2 نومبر کے سحر سے نکلنے میں ناکام رہی ہے۔ پاناما لیکس کے حوالے سے عمران خان اور متعدد سیاسی جماعتوں کی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے زیر قیادت تین رکنی بینچ نے کل ہی وزیراعظم نواز شریف سمیت ان کے تین بچوں ، وزیر خزانہ اور متعد سرکاری اداروں کو دو ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ البتہ ایک روز بعد ہی اسے اندازہ ہوا کہ یہ دو ہفتے یکم نومبر کو پورے ہوں گے اور مقدمہ کی آئندہ سماعت 2 نومبر کو ہوگی۔ عمران خان نے اسی روز اسلام آباد بند کرانے اور حکومت گرانے کےلئے تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد عدالت عظمیٰ نے غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت ایک روز پہلے کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور نواز شریف سمیت تمام لوگوں کو یکم نومبر کی بجائے 30 اکتوبر تک جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے جمعرات کو مقدمہ کی سماعت کے دوران اسلام آباد بند کروانے کی اپیل کے خلاف کوئی حکم جاری کرنے سے گریز کیا تھا کیونکہ یہ سیاسی اور انتظامی معاملہ ہے لیکن آج اپنے ہی حکم پر نظرثانی کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ عدالت سیاسی نزاکتوں سے بے خبر نہیں ہے۔

ہوسکتا ہے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی یا بینچ میں شامل دیگر فاضل ججوں نے 2 نومبر کے احتجاج سے قطع نظر اسی احتجاج سے متعلق مقدمہ کی سماعت محض ایک روز پہلے کرنے کا فیصلہ خالص عدالتی انتظامی مجبوریوں کی وجہ سے کیا ہو۔ لیکن 24 گھنٹے کے اندر فیصلہ میں تبدیلی بہرحال معنی خیز ہے۔ اس سے عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں کی سیاسی معاملات میں دلچسپی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یوں بھی چیف جسٹس حال ہی میں ایک تبصرہ میں ملکی جمہوریت کو بادشاہت قرار دے کر موجودہ حکمرانوں کے بارے میں اپنی ’ناپسندیدگی‘ کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس صورت میں تو انصاف کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو پاناما لیکس کے بارے میں مقدمہ کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے اپنے کسی رفیق کار کو یہ ذمہ داری سونپنی چاہئے۔ منصف کی کرسی پر بیٹھنے والے کسی شخص کی دو ٹوک رائے کا اظہار سامنے آنے کے بعد اس کے بارے میں بہرطور یہ گمان رہے گا کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکے گا۔ یا وہ خود اپنی حقیقی رائے کے برعکس فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگا۔ لیکن پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سیاست اور عدل کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کی روایت موجود ہے۔ اس تناظر میں چیف جسٹس ’جمہوریت دشمن‘ رائے رکھنے یا موجودہ حکمرانوں کے بارے میں ناپسندیدگی کے باوجود پورے حوصلے اور وقار سے عدالتی امور سرانجام دے سکتے ہیں۔

2 نومبر کواسلام آباد بند کرنے والے احتجاج کی وجہ بننے والے مقدمہ کی سماعت یکم نومبرکرنا اس لحاظ سے بھی معنی خیز ہے کہ عدالت کے سامنے عمران خان کی یہ درخواستیں بھی موجود ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو کام کرنے سے روکا جائے۔ کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ یکم نومبر کی سماعت میں عدالتی بینچ ان درخواستوں پر فیصلہ کرتے ہوئے ملک کے منتخب وزیراعظم کو کام کرنے سے روک دے۔ اس حوالے سے بھی ماضی میں قائم کی گئی روایت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی اور ان کے رفقا کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں عدالت عظمیٰ جون 2012 میں یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے ایک معاملہ میں قومی اسمبلی کی نشست اور وزارت عظمیٰ سے محروم کر چکی ہے۔ اگر تاریخ خود کو دہراتی ہے اور اگر افتخار چوہدری کے ’ تصور عدل‘ کا احیا ممکن ہے تو یکم نومبر نواز شریف کےلئے بھی سیاست سے طویل رخصت کا پیغام لا سکتا ہے۔ اس قسم کا فیصلہ البتہ نہایت متنازعہ اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہو گا۔ یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیتے ہوئے بھی یہی مشکل درپیش تھی۔ عدالت کوئی ایسا متوازن راستہ تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی جس میں عدل کے تقاضے بھی پورے ہو سکتے اور عدالت جمہوری عمل میں مداخلت سے بھی گریزکرسکتی۔

ملک کے جمہوری نظام میں مداخلت خواہ فوج کی طرف سے ہو یا انصاف فراہم کرنے کے نام پر عدالت اس کا اہتمام کرے ۔۔۔۔۔۔ اس ملک میں جمہوریت کے فروغ کا خواب دیکھنے والے اس طریقہ کار کو قبول نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ سے یہی امید کی جا سکتی ہے کہ یکم نومبر کا انتخاب کرتے ہوئے منتخب حکومت کے خلاف کارروائی کا ارادہ ظاہر نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ فیصلہ بھی جمعرات کو دو ہفتے کی مدت مقرر کرتے ہوئے 2 نومبر سے بے خبری کی طرح، انجانے میں ہی کیا گیا ہے۔ یوں تو عدالت نے اگر 2 نومبر کی کشیدگی سے عدالتی کارروائی کر محفوظ رکھنے کےلئے پاناما لیکس کے مقدمہ کی سماعت ایک روز پہلے کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو زیادہ بہتر ہوتا کہ سماعت کی تاریخ کو ہفتہ عشرہ کےلئے آگے بڑھا دیا جاتا۔ قانون اور عدالتی طریقہ کار کو جاننے والے اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایسے پیچیدہ معاملات کے فیصلے فوری طور پر نہیں ہو سکتے۔ ان میں بہرحال طویل مدت درکار ہوتی ہے تاکہ فریقین اپنا معاملہ مناسب طریقے سے عدالت کے سامنے پیش کر سکیں۔ البتہ سپریم کورٹ الزامات کی سنگینی اور معاملہ کی حساسیت کی وجہ سے اس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اس طرح چند ہفتوں یا مہینوں میں اس متنازعہ معاملہ پر عدالت کی رائے سامنے آ سکے گی اور قوم کی پریشانی اور ملک میں سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو سکے گا۔ فی الحال سپریم کورٹ نے اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ اس لئے صورتحال کی وضاحت کےلئے یکم نومبر کا انتظار ضروری ہو گا۔

دوسری طرف عمران خان پر 2 نومبر کا احتجاج موخر کرنے کےلئے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے ستمبر کے آخر میں رائے ونڈ میں ’اسلام آباد بند کرو ریلی‘ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں سپریم کورٹ سمیت کسی بھی فورم سے بدعنوان حکمرانوں کے خلاف انصاف نہیں مل سکا ہے۔ اس لئے وہ مجبور ہو کر ’عوام کی عدالت‘ میں آئے ہیں اور اب عوام ہی کی خواہش پر اسلام آباد بند کرکے حکومت کو کام سے روک دیں گے تاکہ ملک ایک کرپٹ حکمران سے نجات حاصل کر سکے۔ اگرچہ اس وقت بھی ان کے پاس اس بات کا جواب نہیں تھا اور نہ وہ ابھی تک یہ بتا سکے ہیں کہ اگر نواز شریف حکومت سے علیحدہ ہو گئے تو نظام کیوں کر تبدیل ہو جائے گا۔ تاہم اب سپریم کورٹ نے ان کی درخواست پر پاناما پیپرز میں ملوث سب لوگوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ اس طرح ان کی اس شکایت کا مداوا تو ہو گیا ہے کہ کوئی ادارہ یا عدالت ان کی دہائی نہیں سنتا۔

سپریم کورٹ اس ملک میں انصاف کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ معاملہ جب اس کے زیر غور ہو تو اسی شکایت پر دارالحکومت کو بند کرنا ، شہریوں کی زندگی اجیرن کرنا اور سیاسی احتجاج کرنا ۔۔۔۔۔۔ صرف حکومت کو زچ کرنے کی حکمت عملی ہی نہیں ہوگی بلکہ یہ عدالت عظمیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار بھی ہوگا۔ عمران خان اگر 2 نومبر کو احتجاج کرنے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہیں تو ان کے ناقدین کی اس رائے کو غور سے سنا جائے گا کہ عمران خان کا مقصد نہ تو کرپشن کے خلاف تحریک ہے اور نہ ہی وہ انصاف حاصل کرنے کے لئے بے چین ہیں بلکہ وہ کسی بھی معاملہ کو بنیاد بنا کر ایک ایسے جمہوری نظام میں اپنے اقتدار کےلئے راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں جو انہیں براہ راست وزیراعظم منتخب کرنے میں ’ناکام‘ ہو چکا ہے۔ قول و فعل کا یہ تضاد عمران خان کےلئے پہلے بھی مشکلات کا سبب بنا ہوا ہے۔ اب انہوں نے عدالتی کارروائی کے متوازی سیاسی احتجاج کے ذریعے ’انصاف‘ حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی تو ان پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ یہ رویہ چاروں جانب سے مشکلات میں گھرے ملک کےلئے نیا بحران پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایک اہم سیاسی لیڈر کے طور پر عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک کرنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریک انصاف اور عمران خان اگر 2 نومبر کا احتجاج ملتوی یا منسوخ کرنے کا اعلان کریں تو اس سے انہیں سیاسی ہزیمت یا شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اس سے ان کی ذات پر لگے ہوئے الزامات دور ہو سکیں گے۔ اور وہ موثر انداز میں یہ واضح کر سکیں گے کہ ان کی جہدوجہد ملک کے نظام ، جمہوریت یا عدالتوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ بدعنوانی اور اقربا پروری کی علت کو ختم کروانے کےلئے احتجاج اور جلسے جلوسوں کا طریقہ اختیار کرتے رہے ہیں۔ اب سپریم کورٹ ان کی درخواست پر غور کر رہی ہے۔ اس طرح وہ یہ عذر بھی نہیں تراش سکتے کہ حکومت مناسب ٹی او آرز TORs بنانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ عدالت یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ کس طرح اس معاملہ سے نمٹتی ہے۔ اگر پاناما پیپرز کے انکشافات سے ملکی قوانین کی خلاف ورزی ثابت ہوتی ہے اور اگر ان میں ایسے دستاویزی شواہد موجود ہیں جن سے نواز شریف کی مالی بدعنوانی اور سرکاری حیثیت کے غلط استعمال کے الزامات واضح ہوتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ عدالت عظمیٰ اس حوالے سے احکامات جاری کرنے سے گریز کرے۔ البتہ اگر عمران خان عدالتی کارروائی کے باوصف احتجاج کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو یہی کہا جا سکے گا کہ نواز شریف کے خلاف ان کا مقدمہ کمزور ہے اور وہ صرف سیاسی رقابت کی وجہ سے انہیں تختہ مشق بناتے ہیں۔ اس لئے عمران خان کےلئے بہتر ہو گا کہ وہ احتجاج اور دھرنے کا ارادہ ترک کرکے ساری توجہ سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے پر صرف کریں۔ تاکہ وہ اپنا مافی الضمیر واضح طور سے عدالت کو بتا سکیں اور جن ثبوتوں کی بنیاد پر وہ لاکھوں کے مجمع کو قائل کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ان کے ذریعے عدالت کے ججوں کو بھی اپنی بات ماننے پر آمادہ کر سکیں۔

عدالت اور عمران خان کے علاوہ حکومت بھی 2 نومبر کے سحر میں گرفتار ہے۔ سامنے آنے والی خبروں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت ابھی تک کوئی واضح حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام ہے۔ اگرچہ وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ اسلام آباد کو بند نہیں ہونے دیا جائے گا لیکن پولیس فورس استعمال کرنے اور کنٹینروں کے ذریعے راستے روکنے کے سوا کیا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں تصادم کا اندیشہ ہے۔ ایسی کسی بھی حالت میں عمران خان کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا اور حکومت کو پچھتانا پڑے گا۔ اگرچہ سیاسی جماعتوں سے رابطے کرکے دارالحکومت بند کرنے کے خلاف سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔ 2014 کی طرح تو شاید پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کوئی مشترکہ قرارداد منظور نہ کرے لیکن پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی تحریک انصاف کے احتجاج کی مخالفت کر چکی ہیں۔ اس لئے انتظامی طور سے حکومت کو صرف تحریک انصاف کی سیاسی قوت کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔ اس بارے میں فیصلہ پارلیمنٹ میں نہیں ہو سکتا بلکہ حکومت کی انتظامی صلاحیت اسلام آباد کی سڑکوں پر یہ طے کرے گی کہ وہ ناخوشگوار صورت حال کا سامنا کرسکتی ہے کہ نہیں۔ اس روز یہ دیکھا جائے گا کہ سیاسی حکومت مظاہرین سے پرامن طریقے سے کس طرح اور کیوں کر نمٹ سکتی ہے۔

فی الوقت حکومت کے نمائندے، عمران خان کی کردارکشی کرنے اور ان پر نت نئے الزامات عائد کرکے اپنا دل ٹھنڈا کرنے اور صورتحال کو موافق بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان پر جہادی تنظیموں سے ساز باز کرکے 2 نومبر کے مظاہرہ میں تعاون حاصل کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ ایسے الزامات عمران خان کی پوزیشن تو کمزور نہیں کریں گے لیکن حکومت کی بدحواسی کا پول ضرور کھول رہے ہیں۔ ملک و قوم کی خیر چاہنے والوں کی خواہش کے مطابق اگر 2 نومبر کا احتجاج ملتوی نہ ہوا تو اس روز حکومت اور تحریک انصاف کے صبر و ضبط کا امتحان ہو گا۔ اس مڈبھیڑ میں اسلام آباد کے علاوہ ملک بھر کے عوام کسی ’انہونی‘ سے محفوظ رہنے کی دعا کر رہے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments