کیا ہیرالڈ سید طفیل الرحمن شہید کی تصویر بھی اپنے سرورق پر لگائے گا؟


بارہ دسمبر کی شام کو اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اہتمامم جاری سٹوڈ نٹس ایکسپو کے آخری ٍروز احباب ڈنر کے موقع پر نائب جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کی تقریر کے دوران قوم پرست تنظیموں کے اتحادانٹرنیشنل اسلامک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اسلحہ و ڈنڈا بردار کارکنوں نے حملہ کرکے اسلامی جمعیت طلبہ کے امیدوار رکن سید طفیل الرحمن کو شہید کیا۔ جبکہ حملہ کے نتیجے میں پندرہ کے قریب کارکنان جمعیت کوجس میں سے دو کو گولیوں سے چھلنی جبکہ دیگر کو آہنی ڈنڈوں سے زخمی کیا گیا۔

یہ تو واقعہ کی ایک چھوٹی سی تفصیل تھی۔ اس کے بعد یونیورسٹی میں بھگدڑ مچ گئی۔ جیسے ہی میڈیا پر یہ بات آگئی تو لبرل اور قوم پرست حضرات نے بغیر تحقیق کے اپنی توپوں کا رخ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب کرلیا اور سوشل میڈیا پر جمعیت کو دہشت گرد جیسے القابات سے پکارنا شروع کردیا۔ ذیل کی تصاویر قوم پرست اور لبرل رہنماؤں کی جمعیت کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی گئی مہم ہے جس میں مظلوم اسلامی جمعیت طلبہ کو ظالم دکھانے کی کوششیں شروع کی گئی۔

معروف قوم پرست رہنماء مختار یوسفزئی کے ٹائم لائن سے

ایک خود ساختہ دانشور نے بغیر تحقیق کے فیس بک پر پوسٹ کردی جس میں دنیا کی تمام برائیوں کو جمعیت سے جوڑا گیا لیکن کارکنان جمعیت کے مدللل جوابات اور سچ سامنے آنے پر اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کردی لیکن مجال ہے کہ جمعیت کے کارکن کے قتل کی مذمت کی ہو۔

اسی طرح ٹویٹر پر جمعیت مخالف ٹرینڈ چلائے گئے اور جمعیت پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کردیا۔

کہتے ہیں کہ کھٹن وقت میں لوگوں کی اصلیت سامنے آتی ہے اور ایسا کچھ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں جمعیت کے ساتھی طفیل الرحمن کی شہادت اور جمعیت کے دیگر ساتھیوں پر حملہ کے بعد ہوا کہ قوم پرستوں کی اصلیت آشکارا ہوگئی۔ ذیل میں یونیورسٹی کیمپس پشاور کے قوم پرست طلبہ تنظیموں سے وابستہ افراد کے سوشل میڈیا پر بیانات کے سکرین شاٹس ہے۔

اب آتے ہیں ہم آپ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھاتے ہیں۔ 14 نومبر 2019 کی شام کو ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور میں انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے درمیان تصادم کے نتیجے میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن ایگریکلچر یونیورسٹی کے جنرل سیکرٹری اچک خان اچکزئی شیدید زخمی ہوئے۔ واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پختوں سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن جو کہ خیبر سٹوڈنٹس یونین سے بھی وابستہ تھے کو زبانی تکرار کے بعد عدم تشدد کے فلسفہ کو پاؤں تلے روندتے ہوئے خوب مارا جس کے جواب میں انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے بدلہ لینے کی غرض سے پختون ایس ایف کے کارکنوں پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں اچک خان اچکزئی شدید زخمی ہوگئے۔

جیسے ہی یہ واقعہ پیش آیا تو اسلامی جمعیت طلبہ کے منتظمین اپنا محفل مشاعرہ چھوڑ کر حیات آباد میڈیکل ہسپتال پہنچے اور اچک خان اچکزئی کی خیریت دریافت کی۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ خیبر میڈیکل کالج کے ہاؤس جاب افسر ہر گھنٹہ ان کے وارڈ کا چکر لگاتے رہے۔ اگلی صبح جامعہ زراعت اور جامعہ پشاور میں اچک خان اچکزئی کی صحت یابی کے لئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔ افسوس صد افسوس ان قوم پرستوں نے اپنے رویے سے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سانحہ میں پختونوں کا بھی سر شرم سے جھکا دیا۔ پختون ولی اور روایات کواپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ پختونوں کی شان تو ایسی کبھی نہ تھی

اس حوالے سے فیس بک پر ایک لکھاری وسیم گل نے کچھ اس طرح تجزیہ کیا ہے۔

1۔ ”تعلیمی اداروں میں کوئی جھگڑا یا توڑ پھوڑ ہو اور ذمہ داروں کا پتہ نہ چل رہا ہو تو میڈیا کے مطابق قطعی ذمہ دار جمیعت ہوتی ہے

2۔ اگر جمیعت اور دوسری تنظیموں کے درمیان جھگڑا ہو تو میڈیا کے نزدیک قطعی ذمہ دار جمیعت ہوتی ہے

3۔ اگر تعلیمی ادارے میں جمیعت کا وجود ہی نہ ہو بلکہ کسی علاقائیت پرست یا لسانی تنظیم نے تشدد، قتل و غارت، توڑ پھوڑ کی ہو تو میڈیا کے نزدیک وہ ”ایک طلبہ تنظیم“ ہوتی ہے

4۔ اگر کوئی دوسری تنظیم جمیعت پر حملہ آور ہو تو میڈیا کے مطابق وہ ”دو طلبہ تنظیموں“ کے درمیان تصادم ہوتا ہے

5۔ اگر جمیعت بک فئیر، امداد طلبہ، انٹری ٹیسٹ کی تیاری، سی ایس ایس کی تیاری، ایجوکیشن ایکسپوز، دینی و قومی ایشوز پر آواز اٹھانا وغیرہ سرگرمیاں کرے تو وہ ”کوئی خبر“ نہیں ہوتی

6۔ جس کے منہ میں جو آئے جمیعت پر بہتان و الزام لگا دے تو وہ وحی کی طرح مستند ہوتی ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر جمیعت موجود و سابق وابستگان سے تعلق و لین دین میں حاصل شدہ بہترین و خوشگوار تجربات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

ایسے روئیے رکھنے والے اور ان کو سپورٹ کرنے والے حضرات و خواتین اپنے آپ کو عدل کا استعارہ اور سچائی کا معیار سمجھتے ہیں ”

پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن جامعہ پشاور کے صدر جمشید وزیر کے فیس بک ٹائم لائن سے ایک سکرین شاٹ

اب تذکرہ کرتے ہیں، آزادی اور فریڈم آف سپیچ کی علمبردار قومی و بین الاقوامی میڈیا کی۔ جیسے ہی یہ سانحہ پیش آیا تو اس کو تصادم کا نام دیا گیا لیکن جب معاملہ بڑھ گیا تو اس پر خاموشی اختیار کرلی گئی۔ جمعیت کے خلاف اپنی روایاتی پھرتی دکھانے والے اآزاد صحافت کے علمبردار میڈیا و صحافی حملہ آور فریق اور متاثرہ فریق کا نام لینے سے بھی کترانے لگے کیونکہ حملہ آور فریق ان کے نظریاتی حلیف قوم پرست جبکہ متاثرہ فریق اسلامی جمعیت طلبہ تھی۔

تحریک اسلامی کے کارکن سید طفیل الرحمن ہاشمی کے قتل کا موازنہ اب مشال خان کے قتل سے کرتے ہیں۔ سید طفیل الرحمن ہاشمی اور مشال خان دونوں کو ایک ہی طریقے یعنی ایک ہجوم نے اسلحہ، ڈنڈوں اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کیا لیکن عبدلوالی خان یونیورسٹی میں طالب علم کے قتل پر گھنٹوں پروگرام کرنے والے آزادی رائے کے داعی بی بی سی، وائس آف امریکہ اسلام انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں طالب علم کے بہیمانہ قتل و ظلم و بربریت پر خاموش ہے، وجہ صاف ہے کہ قاتلوں کا تعلق ان کے لبرل و سیکولر اور قوم پرست کیمپ جبکہ مقتول کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے ہے۔

وائس آف امریکہ اور بی بی سی تو دور کی بات ہے قریب ہی اپنے ملک کے آزادی صحافت کے سرخیل ڈان اخبار کا تذکرہ پیش کرتا ہوں۔ آپ 13 دسمبر کا ڈان اخبار اٹھا کر پڑھ لیجیے جو بھی ایڈیشن اسلام آباد، پشاور، کراچی ہوں، اس میں اس واقعہ کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے جیسے بازار میں گاڑی کے ایکسڈنٹ کے نتیجے میں ایک بندہ جان کی بازی ہار گیا ہو۔ خبر میں حملہ آور فریق کا نام ہے اور نہ ہی متاثرہثرہ فریق کا۔ پھر اگلے روز کا ڈان اخبار بھی پڑھ لیں جس میں واقعہ کی تفصیلات کہ پولیس نے کیا کارروائی کی ہے اور آخر میں رضا ربانی سے اس رپورٹ میں اس قتل کے طلبہ یونین پر اثرات کے بارے میں کمنٹ لئے ہیں۔

پختون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن جامعہ پشاور کے رہنما نیازبین ملنگ کی ٹائم لائین سے

اس بار بھی حملہ آور کا اور نہ ہی متاثرہ فریق کا ذکر ہے۔ اس سے جڑا ہوا ایک اورواقعہ ہے کہ 13 دسمبر کو ناظم اعلی کی کال پر اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ خیبر پختونخوا میں نمایاں مظاہرے پشاور پریس کلب کے سامنے اور جامعہ پشاور میں ہوئیں لیکن جمعیت کے یہ ملک گیر مظاہرے ڈان اخبار کی تیز و طرار نظر میں نہ آ سکیں۔ اب کوئی یہ دلیل پیش کرے گا کہ ڈان کو کسی نے خبر نہیں دی ہوئی ہوگی۔ تو اس حوالے سے میں بتانا چاہتا ہوں کہ پریس کلب کے سامنے مظاہروں کی خبر پریس کلب کے جانب سے منسلک تمام صحافیوں کو ارسال کی جاتی ہے جب اردو کے اخباروں میں خبر چھپی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ خبر ڈان کو بھی ملی ہوگی۔

تذکرہ کرتے ہیں جامعہ پشاور کی جہاں پر اسلامی جمعیت طلبہ نے بایکیک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور مظاہرے کے بعد ڈان پشاور کے مختلف صحافیوں کو ای میل اور واٹس ایپ پر خبر بھیجی اور واپسی پر ڈان کی طرف سے موصول ہونے کا میل بھی آیا لیکن پھر بھی خبر چھپ نہ سکی۔ اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں جمعیت سے کوئی خطا سرزد ہوجاتی ہے تو ان کی پھرتیاں قابل دید ہوتی ہے۔

اسلامی جمعیت طلبہ تعلیمی اداروں میں برداشت اور مباحثہ و مکالمہ کے کلچر پر یقین رکھتی ہے اور اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں جس پروگرام کو نشانہ بنایا گیا اس سے ایک روز پہلے تمام مخالف نظریات والوں کو اپنے سٹیج پر بٹھایا تھا جس کی ستائش مخالفین نے بھی کی تھی۔

پس ثابت ہوا کہ اول آزادی صحافت کے علمبرداروں کا مقصد آزاد صحافت نہیں بلکہ اپنے ایجنڈوں کا فروغ ہے۔ دوم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بائیں بازو کی مردہ سیاست کبھی بھی تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس کونسلز کے ذریعے زندہ نہ ہوسسکے گی۔ سوم ان آزادی صحافت والوں سے یہ سوال ہمیشہ رہے گا کہ ایک طالب علم کے بہیمانہ قتل کو اس لئے نظر انداز کیا گیا کہ اس طالب علم کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ ثانیآ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس موقع پر جس صبر، برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا اس کو بھی قصدا نظر انداز کیا گیا ورنہ قتل میں ملوث کچھ کرداروں کو جمعیت کے کارکنان نے موقع پر ہی گرفتا ر کیا تھا لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی بجائے قاتلوں کو قانون کے حوالے کیا۔

(برادر عزیز طاہر اللہ، آپ کی تحریر کسی قطع و برید کے بغیر شائع کی گئی ہے۔ ایک تصحیح درکار تھی لیکن اس بنا پر گریز کیا گیا کہ کسی بدگمانی کا شائبہ نہ ہو۔ آپ سے عرض کرنا تھی کہ گزشتہ جولائی سے ماہنامہ ہیرالڈ کی اشاعت منقطع ہو چکی ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments