ما بعد الجدیدیت کے مارے ہوئے پاکستانی نوجوان


یہ گذشتہ صدی کے ساٹھ اور ستر والی دہائی کی بات ہے، جب یورپ کے معاشرے میں ایسے گروہ پیدا ہوئے جنہیں زندگی بے مقصد لگی، انہیں اپنے عالیشان سماج کی ظاہری شکل سے گھن آنے لگی، وہ قانون کی سختیوں سے تائب ہوکر ”ہرے راما ہرے کرشنا“ اور اوم شانتی اوم ٹائپ کے نعرے لگا کر ”آوارگی“ کی وہ مثال قائم کرگئے کہ یورپ کیا پوری دنیا اچانک ایک نئے قسم کے سیاحوں سے بھرنے لگی۔ وہ چرس پیتے، آفیم اور ٹھرے مارکہ شراب میں سارا وقت دھت رہتے۔ بڑے بڑے بال رکھے اور ان پر ریشمی ربن باندھ کر جھومتے ناچتے، نگر نگر گھومتے رہتے۔

بھارتی رجنیش اوشو بھی ٹھیک اسی وقت پوری دنیا میں تہلکہ مچانے نروار ہوا، جس کے اکثر معتقدین یہی ہپیز ہی تھے۔ ڈسکو کلچر بھی ٹھیک اسی عہد میں رونما ہوا۔ مکمل بے فکری سی زندگی، جس میں ان کے بارے میں کیا کیا کہا جا رہا تھا ان سے ان کی کوئی غرض نہیں تھی اور وہ یوں پوری دنیا میں گھومتے رہتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسی عہد میں ایڈز جیسی خطرناک بیماری سامنے آئی جس نے پھر لاکھوں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

ہپیوں سے کوئی بھی پوچھتا کہ کہاں سے آئے ہیں تو وہ کہتے یہ پوری دھرتی سب کی ہے۔ زندگی کا مقصد کیا ہے تو جواب دیتے مزے کرو!

درحقیقت وہ ایک ہی مہا بیماری کے شکار تھے، یعنی ”بے مقصدیت“ اور وہ بے مقصدیت کیا تھی؟ اس سوال کا جواب پیریسن نے کمال کا دیا تھا کہ یہ ”بیبی بومرز جنریشن“ میں پیدا ہونے والے ہپیز کے پاس کیا سچ ہے یا کیا جھوٹ، اب یہ حقیقت اپنی معانی کھو بیٹھی تھی، کیونکہ انہیں اپنی شناخت ملی ہی نہیں تھی۔ وہ (identity crises) میں آگئے تھے۔

خیر سرد جنگ کا خاتمہ کیا ہوا پوری دنیا کی ماڈرنزم میں ایک اور رویہ آگیا جسے ہم سب پوسٹ ماڈرنزم کا نام دیتے ہیں، کچھ لوگ تو اسے ”مابعد الحقیقت“ (Post truth) بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اب ہمارے پاس سب کچھ مارکیٹ کی دین ہے۔ سب کچھ بس دولت ہے۔ اور اس دولت کو کمانے کے لیے دنیا کے مہا مہا آدرش، ازم، نظریات سب کے سب صرف چہرے پر ماسک کی طرح ہیں!

اور اب ہم وطنِ عزیز میں دیکھتے ہیں کہ اب یورپ والے ہپیز، لا ابالے نوجوانوں کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

آپ غور کریں تو یہ وہ پیڑھی ہے جس کے سامنے اب اچھے سے اچھے برے ہونے لگے ہیں تو برے سے برے بہت اچھے! سچ تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوا ہے۔ انہوں نے نصاب میں کرنل قذافی کی تعریفیں پڑھی تھی اور انہوں نے ہی اس معمر کو ذلیل ہوکر قتل ہوتے دیکھا۔ نصاب میں جو تاریخ اس نسل کو پڑھنے کے لیے دی گئی تھی وہ ہی تاریخ اس نسل نے انٹرنیٹ کی مدد جانی کہ ”یہ تو سب جھوٹ تھا! “

انہیں احمد شاہ ابدالی، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، بابر تیمور وغیرہ سب کے سب بڑے بڑے ہیروز بنا کر دیے گئے تھے، لیکن جدید رابطوں والی معلوماتی دنیا نے ان کے ذہنوں میں شکوک پیدا کردیے۔ ہر طرف لوٹ مار دیکھ کر ان لوگوں نے سمجھا کہ جو ہاتھ سامنے ہے درحقیقت وہ ہی لٹیرا ہے، جبکہ وہ ہاتھ انہیں نظر ہی نہیں آیا جس ہاتھ میں ڈوریاں تھیں، اور یہ نوجوان کٹھ پتلیوں کے تماشے میں کھو گئے۔ اور یوں اچانک پھٹ پڑے۔

اب انہیں زندگی بے مقصد لگی ہے، سب جھوٹ محسوس ہوا ہے، اور وہ یوں اس سرابی ایڈونچر میں ہیروز بننے چلے آگئے ہیں۔

اور وہ سراب، کچھ بھی نہیں ہے، سوائے ہرے راما ہرے کرشنا کے نئے ورژین کے! آپ ان سے پوچھیں کہ زندگی کیا ہے؟ آپ کا شجرہ کیا ہے، آپ کی تہذیب کیا ہے، ثقافت کیا ہے؟ آپ کی مادری زبان کیا ہے اس کی حجت کیا ہے اور آپ چاہتے کیا ہیں؟

تو آپ پائیں گے کہ ان کا شاندار ماضی 1947 سے شروع ہوا، ان کی ثقافت بس کرکٹ ہے، اور وہ پوری دنیا میں امن لانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور سب سے بڑی بات۔ کل کا کیا ہوگا۔ کچھ بھی نہیں، بس مزے کرو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments