توہین عدالت کی مرتکب بیوروکریسی


کسی بھی ملک کو چلانے کے لیے ایک مضبوط اور ایماندار بیوروکریسی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اگر بیوروکریسی مستعد ہوگی اور اپنے کام سے مخلص ہو گی تو حکومت کی نیک نامی ہوتی ہے اور عوام مطمئن رہتے ہیں۔ بیوروکریسی کی مثال کسی بھی بلڈنگ میں سٹیل فریم کی مانند ہوتی ہے جتنا سٹیل فریم مضبوط ہو گا بلڈنگ اتنی ہی مضبوط ہو گی۔ بد قسمتی سے بلوچستان میں بیوروکریسی کا سٹیل فریم انتہائی کمزور اور ذنگ آلودہ ہو چکا ہے جس سے بہتر گورننس کے علاوہ ہر توقع کی جا سکتی ہے۔

جہاں لوگوں کی فلاح اور انصاف کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ بیوروکریسی میں اس تنزلی کی بے شمار وجوہات ہیں لیکن ان میں سب سے عیاں اور برہنہ وجہ سیاسی سرپرستی ہے۔ بد قسمتی سے جہاں بیوروکریسی کی بے لگام طاقت اور سیاسی سرپرستی آپس میں گٹھ جوڑ کر لیں تو سمجھ لیں ک قدرت وہاں کے لوگوں سے ناراض ہو گئی ہے اور عام لوگوں کی قسمت میں نا انصافی اور کرپشن لکھ دی گئی ہے۔ کچھ یہی حال آج کل بلوچستان کا ہے۔ جہاں حکومت کے ہر محکمے میں نا انصافی کرپشن اور نا اہلی کی ان گنت کہانیاں زبان زد عام ہیں اور لوگ مجبور ہو کر عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے بلکہ توڑنے پر مجبور ہیں۔

اب عدالتوں میں بھی اگر بار بار عدالتی حکم عدولی کے باجود توہین عدالت کی نوٹسز جاری کرنا معیوب اور ناپسندیدہ عمل ٹھہر جائے تو لوگ آخر کہاں جائیں کہاں اپنی شکایت اور فریاد کس سنائیں؟ اب صرف محکمہ تعلیم کو ہی لے لیں جہاں نچلے سٹاف کی بھرتی کے لیے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز صاحبان کو اختیار اس لیے دیے گئے کہ وہ شفاف طریقے سے ان خالی پوسٹوں کو پر کریں گے۔ لیکن صرف تین اضلاع نصیر آباد، کیچ اور کوئٹہ میں جس طرح کی بھرتیاں کی گئی ہیں اس نے خود بھرتی ہونے والوں اور بھرتی کرنے والوں دونوں کو ضرور شرمایا ہو گا جس کا وہ اظہار بے شک نہ کریں۔

ضلع کیچ میں تو اس بھرتیوں کے خلاف عوام میں کتنا ہی غم و غصہ کیوں نہ ہو لیکن دور ہونے اور ایک با اثر وزیر کی اس بھرتیوں میں منشا شامل ہونے کی وجہ سے ان کی آواز اب تک سنی نہیں گئی۔ اور رپورٹ بھی سی ایم ائی ٹی نے اچھی بنا دی حالانکہ وزیراعلی بلوچستان اپنے آپ کو بڑے باخبر وزیراعلی کہتے ہیں جو چھوٹی سی چھوٹی بات کو بھی اپنی ٹوئٹ کی زینت بناتے ہیں شاید وہ اس دفعہ کسی مصلحت کا شکار ہوگئے ہوں گے۔ ویسے اسلام میں انصاف کے معاملے میں کسی مصلحت کے تحت خاموشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

لیکن کوئٹہ میں حکومت کو بادل ناخواستہ سی ایم آئی ٹی سے انکوائری کرانی پڑی۔ اور ڈپٹی کمشنر نے جو نا انصافیاں اپنی بے لگام  طاقت کے نشے میں بدمست ہو کر کیں ان کو آشکار کیا۔ لیکن سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ کے باوجود معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی۔ جب میڈیا نے تواتر کے ساتھ اس نا انصافی اور کرپشن پر آواز اٹھائی تو ڈپٹی کمشنر موصوف کو ٹرانسفر کرکے ایڈیشنل سیکرٹری ڈویلپمنٹ ہیلتھ کی اہم ترین پوسٹ پر لگا دیا گیا۔ جس پر جناب تادم تحریر براجمان ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ ہماری ایماندار حکومت ان کی انصافیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور دوسری جانب بہت سے ایماندار افسر ز بغیر وجہ کے مہینوں سے او ایس ڈی ہیں۔ اب سنا ہے کہ چونکہ ڈپٹی کمشنر وفاقی حکومت کے ملازم ہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی کے لیے اسلام آباد ایک عدد خط تحریر کیا گیا ہے۔ اور خود کچھ نہیں کرنا نہ معطل کرنا ہے نہ او ایس ڈی۔ اب ظاہر ہے جب تک اسلام آباد ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا موصوف یہاں پوسٹینگ سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اور اگر صاحب بہادر نے اسلام آباد میں کسی چھوٹے اہلکار کے ذریعے بلوچستان حکومت کا خط ردی کی ٹوکری نظر کرا دیا تو لطف اندوز ہونے کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے۔

اگر بلوچستان حکومت کی نیت ٹھیک ہوتی اور اپنے لوگوں کو فوری انصاف مہیا کرنا ہوتا تو اس کیس کو انٹی کرپشن یا نیب کو بھیجا جاتا۔ لیکن یہ نہیں ہوا۔ بلوچستان کی بدقسمتی تو دیکھیں کہ یہاں پر قانون نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ اب کچھ دن قبل بلوچستان ہائی کورٹ نے ایک تحریری فیصلہ دیا، جس میں حکومت بلوچستان کو حکم دیا گیا کہ وہ نان کیڈر اور جونئر افسر ان کو عہدوں سے فوری طور پر فارغ کردیں۔ چیف سکریڑی بلوچستان خود عدالت میں پیش ہوئے، اور عدالت کو بتایا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ تمام کیڈر پوسٹوں پر موجود نان کیڈر لوگوں کو نکال دیں گے اور جونیئر سینئر کا قصہ دفن کر دیا جائے گا۔

لیکن یہ ایک جیتا جاگتا خواب بن گیا ہے۔ عدالتی احکامات کے بعد بھی بلوچستان حکومت نے چیف سیکریٹری کے دستخطوں سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں ایم ڈی واسا کی کیڈر پوسٹ پر ایک نان کیڈر شخص کو لگا دیا ہے۔ ایسے میں کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز صاحب جاتے ہوئے عدالتی سطح پر اس صوبے کو یتیم تو نہیں کرگئے ہیں؟ اب عام آدمی یہ سوچتا ہے لیکن ڈر کے مارے کچھ بولتا نہیں ہے، کہ ان کی مشکلات میں مزید اضافہ نہ ہو کہ وہ حکومتی فیصلے کے خلاف کہاں جائے؟

کیونکہ یہاں تو کسی کی بات نہیں سنی جاتی ہے۔ اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر منیر کاکڑ ایڈوکیٹ جو کہ پاکستان کی با اثر وکلاء کی فہرست میں آتے ہیں، نے اپنی آئینی درخواست کے عدالتی احکامات پر فیصلے عمل درآمد نہ ہونے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بلوچستان ہائی کورٹ میں دوبار دائر کی۔ جبکہ سکریڑی ایس انیڈ جی اے ڈی کی پوسٹ پر نان کیڈر افسر کی تعیناتی کو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے عدالت میں سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل نے بیان دے چکے ہیں کہ سیکریٹری ایس انیڈ جی اے ڈی کو ہٹا دیا جائے گا۔ لیکن کیس کی اگلی پیشی پر اس سلسلے میں کوئی بات سامنے نہیں آئی، یا پھر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا۔ جب ہائی کورٹ کے احکامات پر صوبائی حکومت عمل نہیں کریں گے تو سیشن ججز جوڈیشل مجسٹریٹ کے احکامات پر عمل درآمد پر یقین کیسے کیا جاسکتا ہے؟

آپ نظام والے غصہ نہیں ہونا بلکہ سوچنا ہے اور مسائل کا حل نکالنا ہے، ہم آپ کی مضبوطی چاہتے ہیں، کیونکہ عدالت مضبوط ہوگی، افسر مضبوط ہوگا، تو نظام مضبوط ہوگا۔ اگر یہ کمزور ہوں گے تو ہر شخص کو بات کرنے کا موقع ملے گا لوگوں کو شکوے کا موقع فراہم نہ کیا جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments