بھارت کے ارادے اور پاکستان کا داخلی انتشار


جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے سوال پر کوئی مفاہمت نہیں کرے گا۔ لائن آف کنٹرول کے دورہ کے دوران فوجی دستوں سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ فوج ملک کی حفاظت کرنے اور کسی بھی مہم جوئی کو ناکام بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
آرمی چیف کا یہ بیان لائن آف کنٹرول پر بھارت کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیزی کی روشنی میں سامنے آیا ہے۔ اسی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت کسی نہ کسی بہانے سے پاکستان کے خلاف کسی خطرناک ایڈونچر کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ ملک کی اعلیٰ فوجی و سول قیادت کا یہ مؤقف خاص طور سے بھارت میں نئے شہریت بل کے خلاف جاری مظاہروں اور فسادات کی روشنی میں بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ متعدد مبصر اس بات کا اندیشہ محسوس کررہے ہیں کہ نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت پر اس وقت جو دباؤ بڑھ رہا ہے اور اسے نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ اب اندرونی طور سے جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان کی وجہ سے وہ ان مباحث سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کے خلاف کسی نہ کسی فوجی کارروائی کا اندیشہ مول لے سکتی ہے۔
اس قسم کی مہم جوئی سے بھارتی حکومت ایک بار پھر قومی جذبات کو انگیختہ کرکے اپوزیشن کی سیاسی مہم کو نیچا دکھانے کی کوشش کرسکتی ہے۔ گو کہ بظاہر نریندر مودی کی حکومت مضبوط بھی ہے اور اسے پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت بھی حاصل ہے۔ بلکہ اس نے اپوزیشن کو اس حد تک بے دل و کم حوصلہ کردیا ہے کہ ترمیم شدہ شہریت بل کو راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود آسانی سے منظور کروالیا گیا جس کے بعد یہ قانون نافذ کرنا آسان ہوگیا۔ پہلے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے اور اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام اور اب شہریت بل کا معاملہ مودی سرکار کے لئے سنگین خطرات کا سبب بن رہا ہے۔
قومی شہریت بل کے خلاف مسلمان، اپوزیشن پارٹیاں اور متعدد ریاستی حکومتیں سراپا احتجاج ہیں ۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس بل میں مسلمانوں کو علیحدہ کرکے دراصل بھارتی آئین کی سیکولر حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری طرف آسام جیسی سرحدی ریاستوں میں ہندو آبادی اس بات کے خلاف احتجاج کررہی ہے کہ نئے قانون کے تحت ہمسایہ ملکوں سے آنے والے لاکھوں ہندوؤں کو بھارتی شہری تسلیم کرلیا جائے گا۔ ان آبادیوں کو اندیشہ ہے کہ اس اقدام سے ان کے روزگار، سماجی سہولتوں اور ثقافتی اقدار کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔
شہریت قانون پر پیدا ہونے والا تنازعہ فوری طور سے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مظاہرین کے خلاف پولیس تشدد اور یونیورسٹیوں میں گھس کر طالب علموں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے طلبہ اور عوام میں مزید غم و غصہ پیدا ہؤا ہے۔ اب تک ان مظاہروں میں 25 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس سے صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ اس دوران مقبوضہ کشمیر میں مظاہروں سے بچنے اور کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لئے کرفیو اور متعدد دیگر قسم کی پابندیاں بدستور عائد ہیں۔ ان پابندیوں کے خلاف دنیا بھر کے ملکوں اور اداروں میں پریشانی کا مظاہرہ بھی سامنے آرہا ہے۔ اگرچہ اس میں بھارتی حکومت کی غیر قانونی اور شدید اقدامات جیسی شدت تو نہیں ہے لیکن بھارت کے ساتھ وابستہ مالی ، سفارتی اور سیاسی مفادات کے باوجود امریکہ سمیت متعدد ممالک میں مقبوضہ کشمیر کے علاوہ اب شہریت بل جیسے متنازعہ اور غیر منصفانہ قانون کے نفاذ پر احتجاج سامنے آرہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز ایک عوامی اجتماع میں شہریت بل پر اپوزیشن کے مؤقف کو بے بنیاد اور مسلمانوں کے تحفظات کو غیر ضروری قرار دیا۔ اس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور دیگر انتہا پسند ہندو گروہوں کے ذریعے حکومت کی حمایت میں مظاہرے منعقد کروا کر اپوزیشن اور احتجاج کرنے والوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ ان ہتھکنڈوں سے بہر حال یہ واضح ہوتا ہے کہ مودی اپنا اقتدار بچانے اور ہٹ دھرمی کی خاطر ملک میں تصادم کی کیفیت پیدا کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اس لئے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھارتی حکومت کے لئے ملک کے اندر سیاسی طور سے اور عالمی سطح پر سفارتی طور سے اگر گھیرا تنگ ہؤا تو وہ پاکستان کے خلاف محدود جنگ یا نام نہاد سرجیکل اسٹرائک جیسا کوئی اقدام کرنے کی حماقت بھی کرسکتی ہے۔
اس پس منظر میں پاکستانی آرمی چیف اور وزیر خارجہ کے اندیشوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن بھارتی حکومت کی پریشانی اور جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے ہوتے ہوئے اہم ترین سوال البتہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی فوج، حکومت اور عوام اس افسوس ناک اور پر خطر لیکن امکانی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ پاک فوج کے جذبہ اور صلاحیت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن کسی بھی فوج کو دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی سطح پراتحاد، یک جہتی اور مکمل اعانت و حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنرل باجوہ خود ماضی میں یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ فوج کو سرحدوں پر لڑنے کے لئے عوام کی وسیع تر ہمدردی و حمایت درکار ہوتی ہے۔ تاہم ملک میں گزشتہ چند ماہ کے دوران پیدا کئے گئے حالات نے نہ صرف سیاسی تقسیم کو گہرا کیا ہے بلکہ علاقائی بے چینی اور اداروں کے درمیان چپقلش کی صورت حال میں بھی اضافہ ہؤا ہے۔
بدقسمتی سے پرویز مشرف کیس میں خصوصی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد فوج کے ترجمان نے جس طرح تند و تیز لب و لہجہ میں عدلیہ کو مسترد کیا اور اس کے بعد حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جس طرح ججوں اور عدلیہ کے خلاف مہم اور سازش کا انکشاف کیا ، اس سے انتشار اور افتراق ہی کی تصویر واضح ہوتی ہے۔ پرویز مشرف ضرور آرمی چیف رہے ہیں لیکن اس وقت خصوصی عدالت کے فیصلہ کے بعد ان کے حوالے سے اس اصول پر بحث کی جارہی ہے کہ ملک کا آئین بالا تر ہے یا فوج کا کوئی سربراہ اگر ایک خاص کیفیت میں خلاف آئین اقدام کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے تسلیم کرنا ہی قومی مفاد کہلائے گا۔ فوج کے ترجمان اور اس کے بعد سماجی ، دینی و سیاسی سطح پر فوجی مؤقف کو بڑھاوا دینے والے حلقوں کی طرف سے پیدا کی گئی صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ فوج آئین سے زیادہ اپنے ایک سابق سربراہ کے غلط فیصلہ کی تائید کرنا ضروری سمجھتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو چوں کہ فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اور عمران خان اس حمایت کی وجہ سے پرویز مشرف کے بارے میں ماضی میں اختیا رکئے گئے اپنے ہی مؤقف کے برعکس اب خصوصی عدالت کے فیصلہ کو مسترد کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ حکومت خود اپنے بیان کے مطابق خصوصی عدالت کے سربراہ اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف اس فیصلہ کے متن کی بنیاد پر ریفرنس بھیجنے کی تیاری کررہی ہے۔ پرویز مشرف کی کابینہ میں شامل متعدد وزیر اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کا بھی حصہ ہیں۔ گو کہ زیادہ شور ایک پیرا کے الفاظ کی بنیاد پر مچایا جارہا ہے لیکن اس فیصلہ کے مندرجات نے دراصل ان تمام عناصر کو پریشان کیا ہے جو ماضی میں کسی نہ کسی طرح غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے رہے ہیں یا ان کا حصہ رہے ہیں۔ اس لئے حکومت کے بعض زعما کی بے چینی کو اس تناظر میں جانچنا بھی ضروری ہے۔
اس صورت حال میں فوج اگر عدلیہ کے ساتھ براہ راست تصادم کی بات نہ کرتی تو قومی سطح پر اتنی بے چینی اور تصادم کی کیفیت دیکھنے میں نہ آتی۔ یہ تصادم اب اصولی معاملات پر فوج کی پوزیشن کمزور کرنے کے علاوہ قومی سیاست کے حوالے سے فوج کے ارادوں کے بارے شبہات بھی پیدا کررہا ہے۔ صرف وہی حلقے اس تصادم کو بڑھاوا دینے کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں جن کے اپنے مفادات کسی نہ کسی طرح زد پر آتے ہیں۔ لیکن پا ک فوج کو بطور ادارہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ انتشار کی موجودہ صورت حال سرحدوں پر فوج کی کارکردگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ دشمن پاکستان میں پائی جانے والی اس تقسیم اور اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ دشمن کو مؤثر جواب دینے کے لئے صرف عسکری طور سے تیار رہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ قومی ہم آہنگی پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
حکومت بوجوہ قومی اتحاد و یگانگت کی خواہشمند نہیں ۔ عمران خان سیاسی نفرت کی بنیاد پر اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ یہ راستہ ترک کرکے وہ اپنی سیاسی حمایت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف ڈیڑھ برس کے دوران اپنے کسی بھی سیاسی وعدہ کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اسے معاشی و سفارتی سطح پر مسلسل ناکامی کا سامناہے۔ اپوزیشن کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت پیدا کرکے سیاسی سنگینی میں کمی کی جاسکتی تھی جس کے نتیجہ میں ملک کے معاشی شعبہ میں اعتماد بحال ہو سکتا تھا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی یہ راستہ اختیار کرنے سے مسلسل گریز کررہے ہیں۔ اپوزیشن نے اگرچہ کوئی خاص سیاسی محاذ آرائی شروع نہیں کی لیکن حکومت مسلسل اپوزیشن کو اکسانے کی کوشش کررہی ہے۔
نیب نے آج مسلم لیگ (ن) کے لیڈر احسن اقبال کو ایک کمزور کیس میں گرفتار کیا ہے۔ بلاول بھٹو کو بے نظیر بھٹو کی برسی سے دو روز پہلے نیب میں طلب کیا گیا ہے لیکن انہوں نے اس ’غیر قانونی‘ نوٹس کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ نیب میں حوصلہ ہے تو وہ انہیں گرفتار کرلے۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود حکومت نے مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا لیکن حکومتی نمائندے یہ دعوے ضرور کررہے ہیں کہ حکومت کسی قیمت پر مریم کو ملک سے باہر نہیں جانے دے گی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ عسکری تیاری کے علاوہ دشمن پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ کسی جارحیت کی صورت میں پاکستانی قوم متفق و متحد ہے۔ ملک میں ہر طبقے اور مکتب فکر کو ناراض کرکے قومی اتحاد کا یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہوسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments