کج بحثی کے اصول


دو دن پہلے کی بات ہے میں موٹر وے پر سفر کر رہا تھا، جو گاڑی میرے آگے جا رہی تھی اُس میں ڈرائیور کے ساتھ جوصاحب بیٹھے تھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہاتھ کھڑکی سے باہر کرتے اور مالٹے کے چھلکے پھینک دیتے۔ تھوڑی دیر بعد سروس ایریا آ گیا اور وہ گاڑ ی وہاں مُڑ گئی، میں نے رکنا تو نہیں تھا مگر پھر کچھ سوچ کر میں نے بھی گاڑی اُن کے پیچھے لے جا کر کھڑی کر دی اور اُن صاحب سے سلام دعا کے بعد گپ شپ شروع کر دی، وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے تھے اور کسی نجی کمپنی میں ملازم تھے، یونہی باتوں باتوں میں اُن سے میں نے پوچھاکہ آپ نے مالٹے کے چھلکے سڑک پر کیوں پھینکے تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ کو کیا پرابلم ہے، آپ کی گاڑ ی پر تو نہیں پھینکے! ایسی دلیل سننے کے بعد بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی سو بات ختم ہو گئی۔

ہم لوگ کج بحثی میں ید تولیٰ رکھتے ہیں، روز مرہ کے معاملات ہوں یا کسی ٹاک شو میں گفتگو کرنی ہو، ایسی ایسی تاویلیں گھڑکے پیش کرتے ہیں کہ بندہ دانتوں میں انگلیاں دبا لیتا ہے، بحث سے ہمارا مقصد سچائی تک پہنچنا نہیں ہوتابلکہ ذاتی مفاد کی بنیاد پر قائم موقف کو ہر صورت درست ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے بحث کرنے کے جوطریقے اپنا رکھے ہیں دنیا اِن کی ایک فہرست بنا کرمدت ہوئے رد کر چکی ہے مگر ہم نہ صرف ابھی تک اِن سے چمٹے ہیں بلکہ اپنی تخلیقی قوت سے اِن میں جدت بھی پیدا کرتے رہتے ہیں۔

مثلاً فرض کریں آپ کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جس نے کوئی قانون توڑا ہے، وہ یہ بات تسلیم بھی کرتا ہے کہ اُن نے قانون توڑا ہے مگر اس کے باوجود وہ مصر ہے کہ قانون توڑنے کی جو سزا کتاب میں لکھی ہے وہ اسے نہیں دی جا سکتی۔ ایسا شخص جب اپنے دفاع میں تاویلیں تراشے گا تو سب سے پہلے وہ آپ پر ذاتی حملہ کرے گا اور کہے گا جناب والا آپ کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے سزا ملنی چاہیے، میں آپ کو اچھی جانتا ہوں آپ روزانہ شراب پیتے ہیں، آپ سے تو بات ہی نہیں کرنی چاہیے، جائیں منہ دھو کر آئیں۔

بحث کرنے کے اِس طریقے کو Ad hominem کہتے ہیں، یعنی جب کوئی شخص دلیل کا جواب دینے کی بجائے مخالف پر ذاتی حملہ کرے، اِس طریقے میں مد مقابل کی تذلیل کو بطور دلیل استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ ایک بچہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ حرکت سوائے بیہودگی کے اور کچھ نہیں۔ بحث کے دوسرے مرحلے میں وہ شخص ایک قدم اور آگے جائے گا جہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے غیر قانونی فعل کے دفاع میں یہ کہے کہ آپ مجھے قانون توڑنے کی سزا کا بہت زور شور سے ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں مگر اِس مکروہ نظام کے خلاف کوئی آواز ہی نہیں اٹھاتے جو مجھے قانون توڑنے پر مجبور کرتا ہے، یہ کیسا دوغلا پن ہے! بحث کے اِس طریقے کو Starwman Argument کہتے ہیں یعنی جب کوئی شخص دلیل کا جواب دینے کی

بجائے اُس بات کو ہدف بنا ئے جو آپ نے سرے سے کی ہی نہ ہو، اس طریقے میں بحث کرنے والا نہایت چالاکی سے آپ کی دلیل سے ملتی جلتی ایک کمزور اور بودی دلیل گھڑتا ہے اور اسے کاٹ کر خود ہی فتح کا جھنڈا لہرا دیتا ہے۔ ہم چونکہ ہار ماننے والی قوم نہیں اس لیے اگلے مرحلے میں ہمارا ہیرو مزید نئی تاویلوں سے لیس ہو کر حملہ آور ہوگا، مثلا ً ہیرو کہے گا کہ صرف مجھے ہی قانون توڑنے کی سزا کیوں، تمہار ے پیٹی بند بھائیوں نے بھی یہی جرم کیا تھامگر انہیں تو کوئی سزا نہیں ہوئی، یہ تو کھلی ہوئی منافقت ہے!

اس طریقہ استدلال کو Tu Quoque Fallacy کہتے ہیں، یعنی میں اکیلا مجرم نہیں فلاں نے بھی تو یہی جرم کیا تھا اسے کیوں نہیں پکڑا۔ اِس تاویل کو استعمال کرنے والا دراصل اپنے جرم کی سنگینی کو دوسرو ں پر تقسیم کرکے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے، جیسے کسی کا یہ کہنا کہ کیا فرق پڑتا ہے اگر میں نے چوری کی، ماجھے نے بھی چوری کی تھی، ببن میاں نے بھی کی تھی، سمندر خان نے بھی کی اور لعل سائیں نے بھی، یہ سب سزا سے بچ نکلے تو میں کیوں نہیں بچ سکتا!

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے کسی غیر منطقی بات کی توجیہہ دینے لگتے ہیں، یہ اُس وقت ہوتا ہے جب کسی معاملے پر کوئی موقف اپنائے ایک عمر گزر جائے، ایسے میں بندہ سوچتا ہے کہ جس بات کو میں گذشتہ تیس برس سے درست سمجھ رہا ہوں بھلا اب یکایک اسے غلط کیسے مان لوں، کیا ساری عمر کی ریاضت اور دانش کو خود اپنے ہاتھ سے ہی صفر کر دوں؟ اپنے دیرینہ موقف کو غلط تسلیم کرنا چونکہ بے حد مشکل بلکہ تقریباً نا ممکن کام ہوتا ہے سو بندہ حقائق سے آنکھ چرا کر اسی قدیم موقف کی تائید میں جُت جاتا ہے جو منطقی اعتبار سے درست نہیں ہوتا، اسے Fallacy of Sunk Costs کہتے ہیں۔

یہ معیشت کی ایک اصطلاح ہے جس سے مراد کسی ایسے منصوبے میں کیے گئے وہ بھاری اخراجات ہیں جو آپ کے دل کے بہت قریب تھا مگر اب ناکام ہو چکا ہے تاہم آپ یہ بات ماننے کوتیار نہیں کیونکہ اگر یہ بات تسلیم کر لی تو پھر اِن بھاری اخراجات کا صدمہ بھی برداشت کرنا ہوگا جو ممکن نہیں۔ اِس کی مثال اُس شخص کی ہے جس نے کاروبار کی غرض سے صابن کے کئی پیکٹ خرید لیے تاکہ انہیں بیچ کر منافع کمایا جا سکے، بد قسمتی سے کوئی پیکٹ نہ بِک سکا تو اُس نے بازار میں بیٹھ کر وہ صابن کھانے شروع کر دیے، کسی نے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے تو اُس نے جواب دیا اپنا نقصان پورا کررہا ہوں۔

بطور قوم ہم اِس قسم کے درجنوں مغالطوں کا شکار ہیں، دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے کبھی مد مقابل کی کردار کشی میں لگ جاتے ہیں تو کبھی محض اِس لیے غیر منطقی موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ اس موقف سے دستبردار ہونے کی ہم میں ہمت اور حوصلہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کاخیال ہے کہ دنیا کے باقی ممالک نے ایسے ماحول میں ترقی کی منازل طے کیں تو برا ہ کرم ان ممالک کی فہرست مجھے ضرور ارسال کریں، میں اپنے موقف سے دستبردار ہو جاؤں گا۔
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments