وہ مکھیاں ادھر بھیج دو، سارتر!


جون 1943 میں پیرس میں پیش کیا گیا سارتر کا تھیٹر ڈرامہ ”مکھیاں“ The Files جب یاد آتا ہے تو دل بے اختیار بول اٹھتا ہے : خاموش رعایا تو سب جانتی ہے، آپ بھی جان لیں، جناب!

جنرل مشرف کی سزا کے نتیجے میں آنے والی آرا ء نے تو عقل کو ہلا کر رکھ دیا!

آپ جو کوئی بھی ہوں، جو آج کل ایک آمر کے ساتھ اپنی نسبت جوڑنے لگے ہیں، جان لیں کہ ایک آمر فقط ایک آمر ہی ہو تا ہے، اس کی مشابہت ایک وحشی کے ساتھ تو ہو سکتی ہے، لیکن کسی انسان کے ساتھ نہیں۔ جیسے سوفوکلیز نے کہا، ”ایک آمر غرور کی نسل ہوتا ہے، جو کہ تب تک غرور اور بے پرواہ خودغرضی کے بیماری زدہ پیالے میں سے پیتا رہتا ہے، جب تک وہ اپنی احمقانہ عجلت سے اونچائیوں پر پہنچ کر پھر دھڑام سے آکر زمیں پر گرتا نہیں“۔

حقیقت میں ایک آمر، ہوتا تو انسان کی صورت میں ہے، لیکن اندر سے وہ حیوان سے مشابہ ہوتا ہے! جس کی انسانیت نہیں، حیوانیت و وحشت زدگی راہنما ہوتی ہے۔ ظلم کی اس علامت کو پروٹوکول دینے پر ہم سب کوغور کرنا چاہیے! دلیل سے بات کرنی اور سمجھنی چاہیے! میرے پاس یہ دلیل ہے۔

کیا فرق پڑتا ہے، اگر ایک آمر آپ کا ہمکار (کولیگ) تھا، اور آپ کے ساتھ ایک اہم ادارے میں ایک اہم عہدے پر فائز تھا؟

کیا فرق پڑتا ہے، اگر ایک آمر کا اور آپ کا مذہب و فرقہ ایک ہی ہے؟

کیا فرق پڑتا ہے، ایک آمر کی اور آپ کی مادری زبان، اور دھرتی ایک ہی ہے؟

کیا فرق پڑتا ہے ایک آئین کا مجرم، سیاسی رہنماؤں کا قاتل، کسی نہ کسی حوالے سے آپ کا ”اپنا“ ہے!

آپ سب کیوں ایک آمر سے رنگ و نسل، و ذریعہ معاش کی بنیاد پر اپنی نسبت دکھا کر اظہارِ ہمدردی کر رہے ہیں؟

ایک آمر کے ساتھ اپنی نسبتیں جوڑنے والے کم سے کم سارتر کا ناٹک ”مکھیاں“ ہی پڑھ لیں تو ممکن ہے ذہن کے زنگ زدہ بند دریچہ کھل جائیں!

سارتر کا ناٹک ”مکھیاں“ ضمیر کا لازمی استعمال سکھاتا ہے، جو ہر کسی کا فرض ہوتا ہے! جب کوئی فرض بھولتا ہے، تو احساسِ گناہ و ندامت کی مکھیاں سر پر منڈلانے اور بھنبھنانے لگتی ہیں! اپنے ناٹک ”مکھیاں“ میں ایک یونانی دیو الائی کہانی ”الیکٹرا“ کو سارتر نے لاجواب مثالی اندا ز میں ڈرامے کی صورت میں پیش کیا ہے، جو کہ بیسویں صدی نازی جرمنی کے اثرات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، مختصراّ اس کہانی کا جوہر یوں ہے :

ملک کی رانی (کلائیٹمنیسٹرا)، کسی غیر (ایجستھس) کے ساتھ، ساز باز کر کے، آرگوس کے بادشاہ (اگامیمنان) کو قتل کروادیتی ہے، اور اس غیر کو تخت پر لاکر بٹھا دیتی ہے، یوں رانی اور اس کے عیّار عاشق کے ہاتھ جائز و قانونی وُرثا ء جس میں بادشاہ کا بیٹا ( اورسٹیس)، اور بیٹی( الیکٹرا )شامل ہیں، تخت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ رعایا احساس رکھتی ہے، کہ ظلم ہوا ہے، آرگوس کے بے قصور بادشاہ کو ایک قاتل مار کرتخت نشین ہو گیاہے! رعا یا جو کہ ہزاروں کی تعداد میں ہوتی ہے، اس قاتل و غاصب تخت نشیں پر با آسانی ان پر بھاری پڑ سکتی ہے، لیکن رعایا احساس ندامت تلے دبی، خاموش تماشبین بنی رہتی ہے۔

آرگوس کے خاموش عوام کے سروں پر بِھن بِھن کرتی منڈلاتی مکھیاں ان کی زندگیوں کا ہر لمحہ اذیتناک بنا کر رکھتی ہیں۔ ایک دن آتا ہے، زباں کی خاموشی پر اندر سے ضمیر چِلا اٹھتا ہے! تخت کا اصل وارث سامنے آتا ہے اور وہ جعلی بادشاہ اور رانی کو قتل کر دیتا ہے۔ اور رعایا کے سروں پر منڈلاتی، احساس ندام کی بھنبھناتی مکھیاں گُم ہو جاتی ہیں۔

انسان جسمانی و سماجی طور پر کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، گر ضمیر ہو تو مکھیاں خاموش شعور پر منڈلاتی رہتیں ہیں! کیا ایک آمر سے ایسی نسبتیں ڈھونڈنا ویسا ہی پچھتاوہ اور احساسِ ندامت نہیں دیتا؟

کیا اس آمر کے سارے حمایتی بھی آئین کی پامالی کو ایک چھوٹی موٹی چوری ڈکیتی سمجھتے ہیں؟

ایسا اپنا پن تو ہم اپنے اس خون کے رشتے کے ساتھ بھی ختم کر دیتے ہیں، جو اگر ایک چھوٹا موٹا چور و ڈکیت بھی ہوتا ہے!

یہ کوئی چھوٹی موٹی ڈکیتی تو نہیں تھی، یہ تو ملک و آئین کے ساتھ بہت بڑی غداری تھی! آپ کے اولین قسم نامے میں، جس پر مہر لگانے کے بعد ہی آپ ملک کے اس خاص ادارے کے نوکر بنتے ہیں۔ آپ تو اس روزگار پر آئے ہی اس لئے ہیں کہ ملک اور آئین کے ساتھ وفا کریں، اس وفا کی سدا پاسداری رکھیں، لیکن، پھر کیا ہوجاتا ہے جو آپ اُس لازمی قدر کو پامال کرنے لگتے ہیں!

اور بھی ان گنت کارگذاریاں ہیں! بتائیں کس کارگذاری پر ”چند“ احباب ان کے لئے تمغہ وفا لئے پھرتے ہیں؟ کارگل آپریشن پر جس سے ملک کو عالمی سطح پر بدترین جانی نقصان اور بدنامی سے دوچار ہونا پڑا؟ سیاسی پارٹیوں کو توڑ کر ق لیگ اور پی پی پیٹریاٹ بنانے یا اپنے حق میں ریفرنڈم کروانے پر؟ بلوچستان میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے فوجی آفیسر کو تحفظ دے کر ملک سے باہر جاکر بدنام زمانہ بیان دینے پر کہ باہر کی قومیت لینی ہو تو ریپ کروالیں؟ لال مسجد کی ”دہشت گرد“ بچیوں پر بم پھینک کر ان کے نازک جسموں کو روئی کی طرح اُڑانے پر؟ یا یہ تمغہ اکبر بگٹی کو قتل کروانے، میرا بالاچ کو گم کرواکر مار دینے، آئین توڑ کر ایمرجنسی لانے اور پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرنے والے ججز کو نظر بند کرنے پر دے رہے ہیں؟ یا 12 مئی کو ایم کیو ایم کے ہاتھوں پچاس سے زائد لوگوں کو شہید کرکے اس بیان دینے پر کہ ”ان (مہاجروں ) کے علاقوں میں جاؤ گے تو ایسا تو ہوگا؟ “ کارساز میں محترمہ کے جلسے پر بموں سے حملہ، درجنوں لوگوں کی ہلاکت اور آخر میں پنڈی میں 27 دسمبر 2007 میں محترمہ کو شہید کرنے پر؟ آخر کس بات کا تمغہ دے رہے ہیں!

یہ نوکری آوارگیِ مطلق نہیں دیتی، کہ چونکہ آپ اس عہدے پر ہیں، ملک کے لئے لڑ چکے ہیں اس لئے آپ کا ہر گناہ اب ثواب گنا جائے گا! اس نوکری اور وردی سے ملنے والا تقدس آئین و ملک کے تقدس کے ساتھ نِسبت میں ہے۔ کوئی کھلی چھوٹ نہیں کہ وردی پہن کر جو کچھ بھی کریں، وہ مقدس بن جائے گا۔

اس نام نہاد بادشاہت کے ان دیکھے شکنجوں میں پھنسی رعایا تو سب جانتی ہے، آپ بھی جان لیں جناب! نہیں تو سارتر کا ڈرامہ ”مکھیاں“ ہی پڑھ لیں!

ڈاکٹر سحر گل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سحر گل

سحر گل بینظیر بھٹو چیئر کراچی یونیورسٹی کی ڈائیریکٹر، محقق، کالم نگار، ناول نگار و افسانہ نگار اور اردو کی شاعرہ ہیں.

sahar-gul has 5 posts and counting.See all posts by sahar-gul

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments