ہیں کیوں تلخ بندہ مزدور کے حالات؟


ایک خبر کے مطابق فرانس کی ایک عدالت نے ٹیلی کام کمپنی کے تین سابقہ اعلیٰ عہدیداران کو قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ ان پر جرم یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اپنی ملازمتوں کے دوران ادارے میں کام کرنے والے افراد کو ہراساں کیا اور اس حد تک کیا کہ 2008۔ 9 میں پینتیس ملازمین نے خودکشی کرلی۔ یہ حالت اس ملک کے تجارتی اداروں کی ہے جو اخلاقی، سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ہے۔ یہ اس پیرس کے اندر سرمایہ دارانہ ذہنیت کا مظاہرے ہیں جہاں 1789 ء میں برپا ہونے والے انقلاب فرانس نے دنیا کی جگایا۔

یہ پیرس ہی ہے جہاں 1871 ء میں مارچ سے مئی تک پیرس کمیون کا واقعہ رونما ہوا اور ستر روز تک مزدور طبقے کی حکومت کا قیام ہوا تھا جو خالصتاً سوشلسٹوں اور انارکسٹوں کی اکثریت پر مشتمل تھی۔ پیرس کمیون نے سوشلسٹ لیڈروں سینٹ سائمن اور پرودھون کی قیادت میں کوشش کی کہ وہ بہتر جمہوریت قائم کرسکیں۔ جس کے لیے انہوں نے شاہی خاندان کے وظیفے بند کیے، چرچ کو رسیاست سے الگ کیا، وزارتیں ختم کرکے خودمختار کمیشن قائم کیا اور عدالتوں کے جج بھی انتخابات کے ذریعے منتخب ہوئے۔

موضوع انقلاب فرانس اور پیرس کمیون کا خلاصہ بیان کرنا نہیں ہے جس کے لیے صرف چیدہ چیدہ نکات ہی قارئین کے سامنے بیان کیے گئے ہیں۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ پیرس جہاں سے جمہوریت، سرمایہ اور محنت کے تضادات کی جنگ کا آغاز ہوا، وہاں کے اداروں میں بھی ملازمین کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے وہ اپنی زندگیوں کو بھی ختم کرلیتے ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں قیام کے فوراً بعد جاگیرداروں اور وڈیروں کی بالا دستی رہی ہے وہاں صنعتی ترقی کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے روکا گیا۔ لیکن ابتدائی ڈیڑھ دو عشروں کے بعد صنعتی ترقی نے سرکاری سرپرستی میں اپنے سفر کاآغاز کیا۔ جوں جوں صنعتیں ترقی کرنے لگیں انھیں نجی شعبے کو منتقل کیا جانے لگا جس کے نتیجے میں سرمایہ اور دولت کا ارتکاز چند خاندانوں تک محدود ہوا اور ملک کے سرمائے پر بائیس خاندانوں کا تسلط قائم ہوا۔

جس صنعت کو محنت کشوں نے اپنے خون پسینے سے سینچا اور ترقی دی تھی اس ترقی کے ثمرات کا عشرے عشیر بھی ان مزدوروں تک نہ پہنچ سکا۔ 1971 ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی صنعتوں کو ملک کے اقتصادی بحران کی سبب زوال کا سامنا کرنا پڑا، جس کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے تمام صنعتوں کا قومیانے کا فیصلہ کیا جس کے ثمرات اور نقصانات پر بہت کچھ لکھا گیا اور جائے گا۔ اس دوران اداروں میں مزدروں کے حقوق کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے لیکن بھٹو صاحب جو سوشلسٹ انقلاب کے داعی تھے اپنے سیاسی مفادات کے سبب اپنے منشور کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے۔

1990 ء کی دہائی میں پاکستان کی صنعت میں نجکاری اور کھلی منڈی کی معیشت کے رجحانات سامنے آئے۔ جس میں ذاتی سرمائے کے فروغ اور تحفظ کے اقدامات تو دیکھنے میں آئے لیکن مزدوروں کے مفادات کے لیے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مزدور اور محنت کش صنعتیں قومیائے جانے اور بعد میں نجی شعبے کے حوالے کیے جانے کے بعد بھی معاشی پریشانی کا شکار ہی رہے۔

وہ کیا اسباب اور وجوہات ہیں جو محنت کش طبقے کی خوشحالی میں حائل ہیں؟ ان اسباب اور وجوہات میں سرمایہ داروں اور اجارہ دار طبقات کا کیا کردار ہے اور خود مزدرو طبقے کی اس حوالے سے کیا کمزرویاں رہی ہیں؟ محنت کش کی خوشحالی میں پہلی رکاوٹ تو سرمایہ داروں نے فیکٹریوں اور اداروں میں ٹھیکیداری نظام کی صورت میں کھڑی کی ہے۔ جس کی وجہ سے محنت کشوں میں ایک جانب وہ لوگ ہیں جو فیکٹریوں کے براہ راست ملازم ہیں اور وہ تنظیم سازی کے عمل میں شریک ہوسکتے ہیں اور دو سری جانب وہ مزدور ہیں جو ٹھیکداروں کے پاس ملازم ہیں اور قانونی طور پر تنظیم سازی کے عمل میں شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔

سرمایہ داروں اور اجارہ طبقات نے دوسری رکاوٹ یہ پیدا کی قومی سیاست اور معیشت میں سرمایہ اور محنت، ظالم اور مظلوم حاکم اور محکوم کے درمیان ٹکراؤ کو ریاست کے اداروں کے درمیان ٹکراؤ میں تبدیل کردیا۔ پہلے سیاستدانوں اور فوج کے درمیان کشیدگی رہی جو اب بھی موجود ہے۔ نوے کی دہائی میں صدر اور وزیر اعظم کے درمیان تناؤ رہا جو 58۔ 2 B کے خاتمے کے بعد ختم ہوا۔ فوج اور سیاست دانوں کے بعدانصاف کرنے والے اداروں اور حکومت کے درمیان کشیدگی دیکھنے میں آئی اور اب فوج اور عدلیہ کا ٹکراؤ ہمارے سامنے ہے۔ تیسری رکاوٹ جو مزدور خوشحالی کے راستے میں حائل ہے اور اس کا براہ راست ذمہ دار خود مزدور طبقہ ہے۔

وہ زبان، برادری، فرقے اور مذہب کی تقسیم ہے جو استحصالی طبقات کی جانب سے پیدا کی گئی اور مزدور اس کا شکار ہوئے۔ ایک محنت کش اور مزدور اپنی فیکٹری اور ادارے میں اپنے حقوق کے حصول کی جنگ تو متحد ہوکر لڑتا ہے لیکن اس نے قومی سیاست میں کسی ایسی سیاسی جماعت کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے جہاں اس کے اپنے طبقے کی نمائیندگی ہو۔ قومی سیاست میں مزدروں نے ہمیشہ براداری، زبان، فرقے کی بنیاد پر ہی ووٹ دیا ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مزدور تنظیمیں اور مزدور تحریک نے ابھی تک کوئی جدوجہد نہیں کی ہے۔ مزدروں کی جدوجہد اور قربانیوں کی وجہ سے کامیابیاں ضرور ہوئی ہیں جن میں صنعتی تعلقات کے قوانین میں مزدرو دوست شقیں کا شامل ہونا، تنظیم سازی کے حقوق اور فیکٹریوں میں چند شرائط مزدروں کے لئے فائدہ مند ہوئی ہیں۔ لیکن یہ کامیابیاں نہایت کم ہیں۔ ملک کی سیاست پر جن طبقات کی اجارہ داری ہے اس نے سیاست کو انتہائی غیر سنجیدہ رنگ دے رکھا ہے۔

مزدور، کسان اور محنت کش کی حقیقی نمائیندگی کوئی سیاسی جماعت نہیں کرتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں قومی سطح پر محنت کشوں، کسانوں کی ایک جماعت نیشنل عوامی پارٹی مولانا عبدالحمید بھاشانی کی قیادت میں بنی اور دوسری سیاسی جماعت ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بنی۔ لیکن دونوں ہیں جماعتیں اپنی اساس کے لیے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کرسکیں۔

پاکستان میں پسے ہوئے طبقات کی خوشحالی کا دارومدار اسی پر ہے کہ وہ انھی طبقات پر مشتمل ایک ملک گیر سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لایا جائے جو جاگیردار اور کسا ن اور سرمائے اور محنت کے تضادات کو ختم کرکے ملک میں ایک حقیقی جمہوری معاشی اور سماجی انصاف پر مشتمل معاشرے کی بنیاد رکھ سکے۔ لیکن جگرمراد آبادی کے بقول یہ بھی مدِ نظر رہے کہ

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments