جنوبی ایشیا میں مذہب بیزاری کی لہر اور ریاستی خاموشی


انڈیا اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور عوام کی مذہب بیزاری میں اضافہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس خطے کے باسی مذہبی بلیک میلنگ سے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں۔ شعور کی بیداری نے سیاسی اور مذہبی سمجھ بوجھ میں نہ صرف اضافہ کیا ہے بلکہ وہ سیاسی اور مذہبی اشرافیہ کے کردار کو بھی سمجھ رہے ہیں۔ اس لیے ہر گزرتا دن اس خطے میں بے چینی کی اک نئی لہر کو جنم دے رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ملا اور پنڈت دونوں کا کاروبار خطرے میں پڑ چکا ہے جبکہ آثار بتا رہے ہیں کہ آنے والے سالوں میں دونوں ممالک اس انتہا پسندی کے دائرے سے بھی نکل جائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تو کیا پھر اس خطے میں مذہب کس حد تک باقی رہے گا؟

فرار کے اولین مناظر تو ہمیں نظر آ رہے ہیں، جس کی اہم ترین وجہ پاکستان میں تو مذہبی رواداری کا فقدان اور توہینِ مذہب اور اہانت قرآن بنا کر اس حوالے سے بنائے گئے قوانین کا غلط استعمال ہے یا ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سوال اور گستاخی میں تمیز نہیں ہو پا رہی یا پھر سوال اٹھانے والا اس شعور سے نابلد ہے کہ اسے کب اور کہاں کیا بات کرنی ہے جبکہ اس حوالے سے آڈینس یا مجمع کی فکری اپروچ کیا ہے، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے۔

ہم بعض اوقات اپنی علمی برتری کے زعم میں ایسے لوگوں کے سامنے اپنی قابلیت جھاڑتے ہیں جن کی ذہنی صحت پر خود ہمیں بھی شک ہوتا ہے۔ دوسری جانب انڈیا میں مذہبی شدت پسندی اور اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کے ساتھ اخیتار کیا گیا ظلم و تعدی اور غیر مساویانہ سلوک ہے جس پر ہندو بھی سراپا احتجاج ہیں۔ انڈیا میں شہریت کے حوالے سے کی جانے والی حالیہ قانون ساز نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ معتدل اور متوازن سوچ کے حامل ہندوؤں کو بھی مسلمان کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے۔

یاد رکھیں کہ الہامی مذہب خوف کو جنم نہیں دیتا اور نہ ہی خوف کی پیداوار ہے۔ تاہم زمینی اور انسانی مذاہب ( جس میں بت پرستی سرفہرست ہے ) اور دیگر ازم خوف اور مفاد پرستی کی بنیاد پر تشکیل دیے گئے ہیں، ان کی افادیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی رہتی ہے تب یہ خوف اور لالچ کے ذریعے اپنی تعداد میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ الہامی مذاہب جن میں یہودیت، مسیحیت اور اسلام شامل ہیں کی ترویج و اشاعت اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں، پسندیدہ ہستیوں اور عارف و اولیاء کے ہاتھوں کی گئی۔

اسلام ایک مکمل الہامی مذہب ہے جس کی تبلیغ و ترویج ایک ہی عظیم ہستی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے کی گئی اور پھر نبوت کا سلسلہ ان پر ختم کر دیا گیا۔ اسلام کی آبیاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذاتی کردار اور شب وروز کی محنت شامل ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام کو پوری دیانتداری سے دنیا کی طرف منتقل کیا۔ ان کی شخصی اثر پذیری کی بنیاد پر ہی معروف انگریز مورخ مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب The Hundred، ”سو عظیم شخصیات“ میں انہیں سرفہرست رکھا۔

مائیکل ہارٹ اپنی کتاب میں رقم طراز ہے کہ ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی عاجزی و انکساری سے اپنی جدوجہد شروع کی اور دنیا کے عظیم ترین مذاہب میں سے ایک کی بنیاد رکھی اور اس کی تبلیغ کی۔ سیاسی طور پر بھی وہ ایک انتہائی متاثر کن شخصیت ثابت ہوئے کہ آج تیرہ سو برس ہو چکے ہیں مگر ان کے اثرات ان کے ماننے والوں پر ہنوز گہرے اور واضح ہیں۔ “

جبکہ یہودیت اور مسیحیت کی ترویج و ترقی میں پیغمبروں کے ساتھ ساتھ سنیٹ، راہبوں اور ربیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے مائیکل ہارٹ The Hundred میں لکھتا ہے کہ ”دین اسلام کے مقابلے میں مسیحیت کی بنیاد اور تشکیل میں کسی ایک فرد کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ دو افراد پر مشتمل گروہ کی مشترکہ کاوش ہے۔ ایک یسوع مسیح ہیں اور دوسرے سنیٹ پال۔ اس لیے اس کی کامیابی کا سہرا دونوں کے سر جاتا ہے“۔ جبکہ ول ڈیورانٹ اپنی کتاب، (Story of Civilization : Age of Faith) میں لکھتا ہے کہ مسیحیت کی تاریخ میں سینٹ آگسٹائن اور یہودیت میں

Jehuda Hanasi اور Rabina ll

کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آگسٹائن کی دونوں کتابیں Confessions اور City of God بلاشبہ مذہبی لٹریچر اور فلسفہ میں آج تک مقدس اور متبرک ہیں۔ جس میں اٹھایا گیا مذہبی فلسفہ اور نیکی اور شر پر کی گئی بحث کافی اہم ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کے ذریعے اللہ کا تعارف کرایا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پوری دیانتداری سے دنیا تک منتقل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب لوگ خدا اور اس کے وجود اور وحدانیت کے حوالے سے سوال لے کر آتے تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی روشنی میں ان سوالات کے مکمل اور شافعی جوابات دیتے۔ سوال اٹھانے کا یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔

عالم دین اور ماہرینِ فقہ اس کا جواب قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں دیتے رہے اور دیتے آئے ہیں۔ اب سوال پوچھنے والوں کی نیوت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس کی نیت میں شر ہے یا علم کی پیاس۔ اس کے بارے میں بھی کہنا مشکل ہے، لہجے اور الفاظ کے چناؤ کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کر لیا جائے تو الگ بات ہے۔ (اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوشل میڈیا نے گستاخین کی تعداد میں بہت اصافہ کیا ہے اور شر پسند عناصر فیک آئی ڈیز کی مدد سے لغویات بکتے رہتے ہیں۔ )

تاہم آج یا تو افراد صاحب علم و فکر علماء کے پاس جاتے نہیں یا وہ مذہبی سوال اٹھانے کے فکری شعور سے ناواقف ہیں اس لیے انہیں ناپسندیدہ صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاؤہ سیاسی اور سماجی سطح پر مذہبی کارڈ کے غلط استعمال نے لوگوں کو مذہب سے دور کر دیا ہے۔ کچھ مولانا حضرات عام آدمی کو سادگی، قناعت پسندی کا درس دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر خود وہ جن حلقوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کی اپنی طرز زندگی کا تضاد سمجھدار لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے کافی ہے۔

جب یہ مکمل سچائی اور حقیقت کے ساتھ مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے اور مجمع جمانے کے لیے حوروں کے موضوع سے آگے نہیں نکلتے تو پھر یہ کس بنیاد پر سماجی انارکلی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے؟ سیرت النبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعے میں ہمیں کہیں بھی جنت حوروں کی دلکشی کے بارے میں کچھ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے عمل پر زور دیتے ہوئے علم کا حصول ضروری قرار دیا۔

دوسری جانب جنت اور دوزخ میں جانے کا فیصلہ روز قیامت ہونا ہے اور وجہ ہمارے اعمال ہوں گے۔ مذہب انسانی کردار کو ہر حوالے سے خوبصورتی میں ڈھالتا ہے جبکہ مذہبی افکار کے پس پشت فلسفیانہ مضامین کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور ان کی تشریح و تفسیر بھی۔ وہ بھی صاحب علم و دانش کے ہاتھوں لکھی ہوئی۔ مثال کے طور پر اسلام میں عورتوں کے حقوق مکمل واضح ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں مکمل اور جامع طور پر کر دیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں کہ ملا نے ان کی من چاہی تشریح کر کے انہیں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ یہاں قصور وار مذہب، پیغمبر نہیں۔ وہ گروہ ہے جو عورت کو کمزور اور ناقص العقل سمجھتے ہوئے اسے حقوق دینے کی مخالفت کرتے ہوئے مذہبی احکامات کی غلط تشریح کرتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی مذہب بیزاری کی وجوہات میں اہم ترین کردار مذہبی حلقوں کا ہے۔ چاہیے وہ مسلمان ہوں یا ہندو۔ جبکہ اعتدال پسند مذہبی شخصیات کی خاموشی نے مفاد پرستوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا۔ جہالت میں انہیں پھلنے پھولنے کے بھرپور مواقع ملے۔ مذہب پر عمل کرنے کی بجائے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرو جیسی سوچ نے مساجد سے وابستہ مدارس کی اہمیتِ کم کرتے ہوئے الگ سے مدرسوں کے قیام پر زور دیا جس کے باعث مدرسے بھی کاروبار بن گئے اور چند عیاش بے دینوں کے محافظ۔

ریاست کی مجرمانہ خاموشی بھی اس کا ایک اہم ترین فیکٹر ہے۔ اس لیے مذہب کے نام پر ہونے والی ہر زیادتی میں ریاست کو فریق بنایا جائے کہ آخر وہ کیوں انتہا پسندوں کو اپنی انارکی پھیلانے کے لیے آزادنہ مواقع فراہم کر رہی ہے۔ ہر جگہ اپنی رٹ قائم کرنے والی ریاست اس اہم معاملے میں خاموشی اختیار کر لیتی ہے جس کی وجہ سے کئی بے گناہ جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور عالمی سطح پر ریاستی وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔ ریاست کو ان قوانین میں موجود ابہامات کو دور کر کے ان کا غلط استعمال روکنے میں عملی طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

اگر انتہا پسندی پر قابو نہ پایا گیا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس خطے میں مذہب اقلیتی سطح پر چلا جائے گا اور الحاد پرستی اکثریت میں ڈھل جائے گی۔ یہ فیصلہ حقیقی مذہبی شخصیات کو بھی کرنا ہے کہ وہ اس خطے کو کس روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا کو مذہبی دیکھنا چاہتے ہیں یا سیکولر۔ اور ہاں سیکولر وہ نہیں جو انڈیا میں ہے بلکہ اصلی اور حقیقی سیکولر ریاست۔ عوامی بالادستی کے ساتھ جس میں مذہب ہر انسان کا ذاتی فعل ہو گا نہ کہ ریاستی لالی پاپ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments