’اے دل ہے مشکل‘


\"edit\"بالی وڈ کے مقبول پروڈیوسر کرن جوہر نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیوندرا فدناویس کے تعاون سے انتہا پسند ہندو تنظیم ایم این ایس MNS کے ساتھ مصالحت کرلی ہے۔ کرن جوہر نے آئیندہ ہفتے کے دوران اپنی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ کی نمائش کو ممکن بنانے کے لئے آئیندہ پاکستانی اداکاروں کے ساتھ کام نہ کرنے کا وعدہ کرنے کے علاوہ بھارتی فوج کے ویلفیر فنڈ میں پانچ کروڑ روپے دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ انتہا پسند تنظیم کے سربراہ راج ٹھاکرے بھی اس ملاقات میں موجود تھے ۔ اس طرح کرن جوہر نے کثیر سرمائے سے بننے والی فلم کی مہاراشٹر کے سینماؤں میں نمائش کے حوالے سے ایک اہم مشکل کو دور کرلیاہے۔ ایم این ایس نے فلم میں پاکستانی اداکارفواد خان کے کام کرنے کی وجہ سے پاکستان دشمنی میں اس فلم کے خلاف ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

اس ’مصالحت‘ سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ بالی وڈ کے فلمسازوں کے لئے منافع اور سرمایہ ہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔ اصول پر قائم رہنے اور غلط مؤقف کو مسترد کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے کہ بھارت میں حکمران بی جے پی اگرچہ پاکستان کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا منبع قرار دیتی ہے اور گزشتہ ایک ماہ سے ہر عالمی فورم پر پاکستان کو بدنام کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی ہے، لیکن یہ پارٹی ہر سطح پر ہندو انتہا پسندوں کی سرپرستی کرتی ہے اور ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کی اجازت بھی دیتی ہے۔ اس طرح کرن جوہر اور راج ٹھاکرے کے درمیان بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کے تعاون اور مداخلت سے ہونے والے معاہدہ سے بھارت میں جمہوریت کی اصل شکل بھی سب کے سامنے آگئی ہے۔

راج ٹھاکرے اور اس کا گروہ پاکستانی اداکاروں اور دیگر فنکاروں کو دھمکیاں دینے کے علاوہ یہ اعلان بھی کرتا رہا ہے کہ جو بھارتی فلم پروڈیوسر پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کام کریں گے، ان کی فلموں کا بائیکاٹ کرنے کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کی جائے گی۔ یہ گروہ اپنے غنڈوں کے ذریعے سینما گھروں میں توڑ پھوڑ کرنے اور سینما مالکان اور عام لوگوں کو ہراساں کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا رہا ہے۔ ریاستی حکومت اورپولیس ان عناصر کی روک تھام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیوں کہ یہ گروہ ’عام آدمی کا وکاس‘ کرنے کا نعرہ لگا کر کامیابی حاصل کرنے والی پارٹی ہی کی اصل شکل ہیں۔ بی جے پی کی حکومتیں ریاستی اور مرکزی سطح پر ان گروہوں کو پھلنے پھولنے اور اقلیتوں کا جینا حرام کرنے کی کھلی چھٹی دیتی ہیں۔

بالی وڈ فلم انڈسٹری لبرل روایت اور انسانی اصولوں کو اپنانے کا دعویٰ کرتی ہے۔ لیکن انتہا پسند گروہوں کے دباؤ اور منافع کمانے کے شوق میں وہ سیاسی لحاظ سے تشدد کا پرچار کرنے والے گروہوں کے ساتھ مفاہمت کرنے اور ان کی بات ماننے پر مجبور ہو چکی ہے۔ گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر میں اوڑی میں آرمی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کے بعد بھارتی حکومت نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کیا تھا۔ ابھی تک اس بات کے شواہد نہ تو پاکستان کو دئے گئے ہیں اور نہ ہی کسی عالمی ادارے کو فراہم کئے گئے ہیں کہ یہ حملہ کرنے والے دہشت گرد پاکستان سے آئے تھے۔ حالانکہ پاکستانی حکومت نے عالمی ادارے کے تحت اس سانحہ کی تحقیقات کروانے کی پیشکش بھی کی ہے۔

بھارتی حکومت کا اصل مقصد مقبوضہ کشمیر میں تین ماہ سے زائد مدت سے جاری عوامی تحریک آزادی کو دبانا اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پردہ پوشی کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک سانحہ کو پاکستان کے ساتھ تصادم کی شکل دے دی گئی ہے۔ بھارتی عوام کو مشتعل کرنے اور جنگ کی حالت پیدا کرنے کے لئے ایم این ایس جیسے انتہا پسند گروہوں کو استعمال کیا جارہا ہے۔ ملک میں پاکستان دشمنی کا ابتر ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ اس ماحول میں بھارتی حکومت لوگوں کو پاکستان کے خلاف اپنی کامیابیوں کے جھوٹے قصے بیچنے کی کوشش کررہی ہے اور اس جھوٹے پروپیگنڈے کو چیلنج کرنے والے لوگوں کو انتہا پسندوں کے ذریعے پریشان کیا جاتا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات اور دشمنی کا رشتہ کم کرنے میں فنکار اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تصادم میں ثقافتی شعبہ کو سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستانی فنکاروں کے خلاف بھارت کی شروع ہونے والی مہم جوئی کے بعد پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش روک دی گئی ہے۔ اسی طرح بالی وڈ میں کام کرنے والے تمام پاکستانی فنکار اس صورت حال میں بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بھارت کے اداکاروں اور فنکاروں کو پاکستان کے خلاف بیان دینے اور پاکستانی فنکاروں کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ سارے اقدامات مصالحت اور مواصلت کی رہی سہی امید کو بھی ختم کررہے ہیں۔

بھارتی اقدامات کے بعد پاکستان میں پیمرا نے بھارتی مواد پر ہر قسم کی پابندی لگانے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروانے کا اعلان کیا ہے۔ دونوں طرف سے اختیار کئے جانے والے یہ ہتھکنڈے امن اور افہام و تفہیم کے آخری پل کو جلانے کے مترادف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments