مشرف ٹیک اوور کے خلاف مزاحغمت کی ڈیڑھ گواہی


آئین شہریوں کے بیچ ایک سوشل کنٹریکٹ ہوتا ہے اور کثیرالقومی ریاست جیسے پاکستان میں آئین شکنی کرنا قوموں کے بیچ اعتماد کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ جب سوشل کنٹریکٹ کو ٹھیس پہنچتا ہے تو ملک میں افراتفری، بغاوت کی فضا قائم ہوتی ہے اس طرح ملک عدم استحکام کا شکار ہوجاتا ہے۔ انہی سرگزشت میں کہیں ممالک تاریخ کی صفوں پر افشاں ہے کہ دولخت ہوئی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں یہ روش اظہر من الشمس ہے بلکہ یہ ہمارے مقتدر طبقے کی فطرت اول بن چکی ہے، جب بھی ان کو قانونی دائرہ کار کے تابع نظر کیا جاتا ہے تو یہ آئین شکنی پر اُتر آتے ہے۔

فطرت ثانیہ میں پروپیگنڈے، بے مغز مداح وستائش اور غیر جمہوری بیانئے کو ابھارنا تھا تاکہ آئین شکن اپنا کام باآسانی سے سرانجام دے سکے۔ ترقی پذیر ممالک ویسے باقی دنیا سے بہت پیچھے ہوتی ہیں لیکن جب ایک معاشرہ، ایک ملک ان چند انسانی ترقی کے اصولوں کو بھی پامال کریں تو اور پست ہوجاتی ہیں۔ اس جمہوری رسومات کو وقتی تقاضوں کے پیش نظر، قانونی شکل دینا اور اس کو سلیقہ مندی سے عوامی سطح پر رائج کرنا، برسوں کی محنت سے تکمیل تک جا پہنچتی ہے۔

ایک طرف، جعلی سیاستدانوں کی گفتنی ناگفتنی سمجھوتے (Flush Cards) ، مفاہمت کی پالیسیاں اور ڈیل سے ڈھیل تک کی دوہری حکمت عملی سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ یہاں مختلف ادوار میں زر اور زور کی بنیاد پر غیر سیاسی لوگوں کو خرید و فروخت کرکے سیاسی فیلڈ میں اس لئے اتارا، تاکہ اِرداتاً اس سے خلاف آئین کام کرایا جاسکے، جس سے کرپشن ہمارے جڑوں ہی میں انجکٹ ہوا ہے۔ اس طرح حقیقی لیڈرشپ کو فتووں اور سرٹیفیکٹس سے نوازتے ہوئے نظر انتخاب سے دور کر دیا گیا۔

اس کارسیاہ کا آغاز پاکستان میں آمر ایوب خان نے اپنے دور سے کیا، وقت کے ساتھ اس کا پروڈکٹ بڑھتاجارہا۔ پھر انہی کے ذریعے ہر دور کے آمروں نے اپنے سر بچا بھی لیا۔ 1985 میں آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریع، جنرل ضیاء جس نے 1977 میں آئین شکنی کی، سنگین غداری کیس سے اپنا سر بچا لیا۔ اسی طرح 1999 میں مشرف نے آئین پامال کیا، پھر 2002 کی اسمبلی نے 17 ویں ترمیم کے ذریعہ تحفظ (Indemnity) دے دیا۔ اگر پارلیمنٹ یہ حاجت برآری پورا نہ کرسکی (یا کی ہوتی) ، توپھر کئی پر کورٹ کچہری کا گھیراوُ کرکے، ججوں کو بلیک میل کرکے فیصلے خود بخود آمر وقت کے حسب منشا ہوجاتے۔ اس وبا کو میڈیا تک بھی وسعت دی گئی ہے۔ کچھ لوگ وہاں سے عوام کو لپٹ لیتے تھے (ہے ) ، جھوٹ سے پروپیگنڈے تک کے سارے بھانڈے وہاں سے پھوٹتے رہے، مخصوص عرصے تک عوام اس طرز کے باطل اور ناشائستہ بیانئے میں اُلجھتے رہے۔ پھر کہیں جا کر اس کش مکش سے نکل پڑتے۔

بارہ اکتوبر 1999 کو آمر مشرف نے آئین کو توڑا اور ٹیک اوور کردیا۔ پاکستان کی ساری سیاسی پارٹیوں نے آمر مشرف کے آئین شکن اقدام کو سپورٹ کیا۔ بجائے کہ جمہوریت اور آئینی اسلوب اپناتے اور نواز شریف کا ساتھ دیتے اگر منطق عقلیہ اور جمہوری اختلاف بھی تھا تو وہ نواز شریف کے ساتھ رہتے، لیکن دستور دِیس کی خاطر آمر کے ٹیک اُوور کی ببانگ دہل مخالفت کرتے۔ شہید بے نظیر بھٹو مشرف ٹیک اوور کے بعد بی بی سی سے مخاطب ہوکر فرمانے لگی ”یقیناً میں جمہوری ہوں، مجھے مارشل لاء بالکل پسند نہیں لیکن نواز شریف ایک غیر جمہوری شخص ہے وہ ملک کو تقسیم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس لئے مشرف کے ملک بچانے کی اقدام پر خوش ہوئی ہوں ”۔

نواز شریف سے ہزار اختلافات ہوسکتے تھے اور اُس وقت ہر جمہوری شخص نواز شریف کی پالیسیوں کا سخت مخالف تھا لیکن پرانے حساب برابر کرنے کے لئے یا سیاسی سکور پر فوکس کرنے کے لئے آمریت کو سپورٹ کرنا کون سی جمہوریت تھی؟ ہمیں تو آج تک یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ سینٹ کہ موجودہ چیرمین صادق سنجرانی کو لانے کے لئے جو جتن پاکستان پیپلز پارٹی نے کیے، بلوچستان سے پشتونخوا اَسمبلی تک ممبران کی وفاداریاں تبدیل کرکے“ ہارس ٹریڈنگ ”یا جو خرید و فروخت کی منڈی لگائی، پھر سال بعد اُسی سینٹ کے چیرمین کو ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد کیوں سپورٹ کرنا پڑی؟

شہید بے نظیرصاحبہ کا قتل، بارہ مئی کراچی میں پچاس کے قریب بے گناہ انسانوں کو گولیوں سے چھلنا اور بگٹی کے قتل، اس سب دردناک واقعات کے پیش نظر پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں مشرف کیس کو کیسے قفل بند رکھا؟ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی Electoral dacoity سے لے کر موجودہ عدم اعتمادی تک تو سب کو پتہ ہے کہ کس طرح سکریپٹیڈ پلان پر عمل کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ اَب اس صورتحال میں جو چند سیاسی اور مخصوص کواٹروں کا وتیرہ رہا کہ ارٹیکل 6 کے تحت کارروائی کریں، کس کے خلاف کریں؟

اپوزیشن کے زمانے میں عمران خان مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ کرتے تھے لیکن اب اِن کی کابینہ میں مشرف کے دو وکیل، فروغ نسیم وزیر قانون اور انور منصور اٹارنی جنرل ہے اور حکومتی طور مشرف کے دفاع میں لگے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے بھی چوہدری نثار کے رائے رکھتے ہوئے مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد کو اپنے حکومت میں وزیر قانون کے منصب پر بٹھایا۔ مشرف کے وکلا زاہد حامدسمیت شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور مشرف کے کور کمانڈرز بھی شریک ملزم تھے لیکن سپریم کورٹ کو سب چھوڑنے پڑے۔

آئین کا آرٹیکل 6 کیا ہے، ”دفعہ چھ کہتی ہے، کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا کسی اور غیرآئینی طریقے سے آئین منسوخ کرے یا اُسے معطل کرے یا اُسے منسوخ کرنے کی سازش کرے تو سنگین غداری کا مجرم ہوگا“۔ مشرف نے 3 نومبر اِسی آئین کو معطل کیا جس سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اور ملک پر ایمرجنسی نافذ کردی۔ بیک وقت دو عہدوں پر براجمان رہے۔ بہرحال اب خصوصی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آیا ہے کہ مشرف کو پھانسی دی جائے لیکن حکومتی اور مقتدر قوتوں کی دفاعی قلابازیاں دیکھ ر لگتا نہیں کہ پھانسی دی جائے گی مگر سزا موت سے تاحیات اسیری کی طرف پوش کرنے کی جتن ہورہی ہے۔

البتہ، روز اول سے مشرف مارشل لاء کی مخالفت میں انفرادی طور پر دو لوگ، لاہور سے اللہ بخشے، انسانی حقوق کے لئے فی البدیہ اُٹھانے والی آواز محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ اور جمہوریت کے بے لوث سپاہی، نڈر جمہور پسند رہنما اور پہاڑ جیسے عزم رکھنے والا جناب مشر محمود خان اچکزئی اور ایک پارٹی جو پشتونخوا ملی عوامی پارٹی تھی۔ تاہم یہ ڈیڑھ گواہی ہوئی چونکہ عورت کی گواہی آدھی سمجھی جاتی ہے۔

الغرض، سیاسی جماعتوں کو ایک چیز پر تکلیم آمادہ ہونا ضروری ہے کہ یہ ملک جمہوریت ہی بچا اور چلاسکتا ہے اور جمہوریت کے لئے سیاسی رہنماؤں کو اک دل ہونا ضروری ہے کہ ہر غیر جمہوری ہاتھ کو بیک جنبش قلم روک لیا جائے۔ تاکہ آئین کا بول بالا ہو اور ملک اور غیر جمہوری قوتوں کی فلاپ منصوبوں کی آماجگا نہ بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments