سنہ 2020 میں عمران خان کے ستارے گردش میں نظر آ رہے ہیں


وزیر اعظم بننے کے بعد سے ٹھوکریں کھا کر بھی عمران خان نے پیچھے مڑ کر دیکھنے یا کسی غلطی کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔ ان کے اس رویے نے دوستوں کو خوش اور مخالفین کے علاوہ عوام کی اکثریت یا مبصرین کو حیران کیا ہے۔ عمران خان گو کہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوچکے ہیں لیکن وہ بدستور کرکٹ ٹیم کے کپتان کا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔ شاید وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں عوام سیاست میں کسی دوسرے کھلاڑی پر اعتبار نہ کریں۔

کھیل کے میدان میں ہار جیت ’پارٹ آف دی گیم‘ ہوتی ہے۔ لیکن سیاست میں اور خاص طور سے کسی ملک کی وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہونے والے شخص کے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں ہوتا۔ وہ اگرملک کو آگے لے کر نہیں جاسکتا تو اس پر یہ فرض ضرور عائد ہوتا ہے کہ وہ حالات کو خراب کرنے اور معاملات کو منفی سمت لے جانے کا سبب نہ بنے۔ البتہ عمران خان کھیل اور سیاست کے اس فرق کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں بلکہ سیاست میں تو وہ کھیل میں مخالف ٹیم اور کھلاڑیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے احترام کو برتنے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران مخالف سیاسی لیڈروں کے خلاف نفرت کو پروان چڑھا کر ہی کامیابی حاصل کی ہے ۔ اب انہیں اندیشہ ہے کہ اگر وہ نفرت کے اس اظہار میں کچھ کمی کریں گے تو لوگوں کی وہی نفرت جسے وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اس کا رخ خود ان کی طرف ہو سکتا ہے۔ انہیں طویل انتظار کے بعد سیاسی اقتدار ملا ہے، اب وہ اس سے محروم ہونے کا کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔

عمران خان کی خود سری، تکبر اور زمینی حقائق سے لاتعلقی کی دوسری بڑی وجہ ان کا یہ یقین ہے کہ انہیں جب تک اسٹبلشمنٹ کی تائید و حمایت حاصل ہے، کوئی مخالف ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی لئے وہ اسٹبلشمنٹ کے ان نمائیندہ چہروں کو قائم رکھنے پر مصر ہیں جن کی منصوبہ بندی کی وجہ سے عمران خان کو اقتدار تک پہنچنے میں مدد فراہم ہوئی تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی جانے والی توسیع جس پر سپریم کورٹ نے فی الحال قدغن عائد کر دی ہے، ان متعدد اقدامات میں سے ایک ہے جو اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے اور طاقت کا موجودہ ڈھانچہ استوار رکھنے کے لئے کئے گئے ہیں۔ بڑی اپوزیشن جماعتیں بھی ’حقیقت پسندی‘ کے مقبول نظریہ کے تحت حکومت کی اس حکمت عملی کو براہ راست نہ تو غلط سمجھتی ہیں اور نہ ہی اس پر کھل کر تنقید کی متحمل ہوسکتی ہے۔ اسے بظاہر نظام سے وفاداری اور جمہوریت کی گاڑی کو کسی بھی قیمت پر چلتے رہنے کا نام دیا جاتا ہے ۔ لیکن دراصل اس طریقہ سے ہر بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف اور عمران خان کی مکمل ناکامی کے بعد خود اپنی ’باری ‘ لگوانے کی خواہش و کوشش میں مبتلا ہے۔ اپوزیشن کے اس سیاسی لالچ کو عمران خان اپنی سیاسی کامیابی سمجھنے کی سنگین غلطی کررہے ہیں۔

فوجی قیادت کے ایک خاص گروہ کی مدد سے عمران خان نے قومی سیاست پر گرفت مضبوط رکھنے کی جو پالیسی اختیار کی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جب جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دینے کا قانونی جواز طلب کیا تو حکومت پر سراسیمگی اور دہشت طاری ہوگئی۔ اسے امید تھی کہ جب کابینہ کے اجلاس میں آرمی چیف کے ساتھ مل کر نوٹی فیکیشن تیار ہوگا تو سپریم کورٹ اسے ’مسترد‘ کرنے کا حوصلہ نہیں کرے گی اور وہ اس امتحان میں ویسے ہی سرخرو رہے گی جیسے وہ معیشت اور خارجہ پالیسی میں مسلسل اور شرمناک ناکامیوں کے باوجود ایک پیج کی برکت سے خود کو کامیاب و کامران سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے ناپسندیدہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد اصولی طور پر حکومت کے پاس سنہرا موقع تھا کہ وہ پارلیمنٹ سے رجوع کرتی اور نہ صرف آرمی چیف کے تقرر و توسیع کے معاملہ پر قانون بنواتی بلکہ پارلیمنٹ میں اس سوال پر بھی اتفاق رائے پیدا کیاجاتا کہ عدالت کو کس حد تک مقننہ کے دائرہ کار میں مداخلت کرنے کا حق حاصل ہے۔ کوئی بھی عدالت قوانین کی توضیح و تشریح ہی کرسکتی ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عدلیہ اس کے انتظامی اختیار یا مقننہ کے قانون سازی کے استحقاق میں مداخلت کا سبب بن رہی ہے تو اس کا جواب ایک فیصلہ پر عدلیہ سے نظر ثانی کی اپیل کی بجائے پارلیمنٹ میں قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے دینا چاہئے تھا۔ لیکن یہ عجیب حکومت ہے کہ اسی عدالت سے نظر ثانی کی استدعا کررہی ہے جس کے ایک فیصلہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ قانون کے میرٹ پر پورا نہیں اترتا ۔ عدالت حکومت کو آرمی چیف کے عہدے کی مدت میں توسیع پر قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتی کیوں کہ یہ منتخب وزیر اعظم کا انتظامی اختیارہے۔ حکومت کی واحد امید یہ ہے کہ اب آصف سعید کھوسہ چیف جسٹس نہیں رہے، اس لئے سپریم کورٹ کے نئے سربراہ کی قیادت میں مختلف فیصلہ حاصل کرکے اس مشکل سے نکلا جاسکتا ہے۔

حکومت کی یہ خوش فہمی بے بنیاد بھی ثابت ہوسکتی ہے کیوں کہ چیف جسٹس عدالت عظمی کے انتظامی سربراہ ضرور ہیں لیکن کسی عدالتی بنچ میں ان کی رائے صرف ایک جج کی رائے ہوتی ہے۔ ججوں کی اکثریت اگر چیف جسٹس کے فیصلہ سے اتفاق نہ کرے تو حتمی فیصلہ بہر حال اکثریت کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گمان کرلینا کہ نیا چیف جسٹس اپنے پیش رو کے خلاف فیصلہ دینا ضروری سمجھے گا، ایک خطرناک قیاس آرائی ہے جس کا ملک کی سیاست کے علاوہ فوج کی شہرت اور آرمی چیف کے عہدے کے وقار پر اثر مرتب ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں فوج دوست اپوزیشن کے ساتھ مل کر قانون سازی کی بجائے سپریم کورٹ میں قیادت کی تبدیلی کو ’خوش آئند‘ سمجھ کر نظر ثانی کی اپیل کرنے والی حکومت کی قانونی اور انتظامی ذہانت نرم الفاظ میں بھی مشکوک ہی کہی جاسکتی ہے۔

اس پر طرہ یہ کہ آرمی چیف کے معاملہ کو ایک بار پھر عدالتی مباحث، ججوں کی آبزرویشنز اور میڈیا کی چیر پھاڑ کے لئے پیش کرتے ہوئے نظر ثانی کی درخواست میں کوئی نیا قانونی جواز یا واقعاتی دلیل پیش کرنے کی زحمت نہیں کی گئی۔ اس کی بجائے ملک کو درپیش مسائل اور مشکل حالات، دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ اور اس میں جنرل باجوہ کی خدمات کا ذکر کرکے مقدمہ مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن یہ جواز بھی اس وقت کمزور پڑ جاتا ہے جب درخواست دہندگان میں وزیر اعظم اور صدر کے ساتھ جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام بھی شامل کرلیا جاتا ہے۔ نظر ثانی کی درخواست درحقیقت جنرل باجوہ کی خدمات کا اعتراف نامہ ہے۔ جنرل صاحب چونکہ خود مدعیان میں شامل ہیں تو یہ درخواست ایک طرح سے اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی صورت پیش کررہی ہے۔

حکومت اپنی اس بدعملی اور کم فہمی کی بدولت نہ صرف جنرل باجوہ کے لئے شرمندگی اورخجالت کا سبب بن رہی ہے بلکہ اس کے طریقہ کار سے اداروں کے درمیان تفاوت اور ایک ادارے میں بدمزگی اور پریشانی کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ ایک جنرل کو سیاسی مقاصد کے لئے فوج کی سربراہی پر برقراررکھنے پر اصرار کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ حکومت یا وزیر اعظم فوج کی چین آف کمانڈ میں دوسرے افسروں پر اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یا یہ کہ انہیں اس اہل نہیں سمجھا جارہا ۔ یعنی ان میں سے کوئی بھی جنرل تیس پینتیس سال کی تربیت و خدمت کے بعد بھی فوج کی کمان سنبھالنے کا فریضہ ادا نہیں کرسکتا۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے دور میں ضرور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو توسیع دی گئی تھی لیکن اس وقت کی حکومت اس منصب کو بے توقیر کرنے اور اسے بحث کا موضوع بنانے کا سبب نہیں بنی تھی۔

اس سب کے باوجود وزیر اعظم خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ نیب اور ایف آئی اےکے ذریعے اپوزیشن کا زہر نکال چکے ہیں اور رہی سہی کسر اپوزیشن کی سیاسی کمزوری نے پوری کردی ہے۔ 2020 کے دوران معاشرے کے دیگر ’مافیاز‘ کے علاوہ میڈیا میں موجود ’ مافیا‘ سے نمٹنے کا اعلان عمران خان کے سیاسی تکبر وکم فہمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ ملاقاتوں کے دوران اور رفقا سے بات چیت میں’گھبرانا بالکل نہیں ہے‘ کا فقرہ کہنا نہیں بھولتے۔ یہ بھی رپورٹ کیا جاتا ہے کہ وہ عام طور سے پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ گویا ان کا لب و لہجہ اور باڈی لینگوئج یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ ’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘ ۔

مخالف آوازوں کو حقیر سمجھنے کا یہ رویہ دراصل اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی پر یقین کے علاوہ اور اپنے لئے کی جانے والی دعاؤں کی تاثیر پر اعتماد کی وجہ سے پیدا ہورہا ہے۔ عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ گمان کی دنیا میں رہ کر زمینی حقیقتوں پر مبنی سیاسی مسائل سے نمٹنا ممکن نہیں ہوتا۔ جس نئے سال کو وہ اقتدار پر اپنی گرفت کا سال سمجھ رہے ہیں، اسی سال کے کسی پنے پر ایک کم فہم اور ناکام حکومت کے زوال کا پیغام بھی درج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments