عشاق کے قافلے میں فہد اکرام قاضی


اس نوجوان کی عمر صرف چونتیس سال ہے اور وہ سول سروس کا ایک ذمہ دار اور بہترین ریکارڈ کا حامل افسر ہے۔ جب اس کی عمر صرف چار سال تھی تو والد (جو ایک بینک افسر تھے ) کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔

اس کا دوسرا بھائی اس سے بھی عمر میں چھوٹا تھا اس لئے اس ننھی سی عمر میں وہ ذمے داریوں کے بوجھ تلے آیا اور یہی احساس اسے پہلے بہترین تعلیمی اداروں اور بعد میں سول بیوروکریسی کی اعلٰی ملازمت کی طرف لے گیا، یتیمی نے اسے جدوجہد کرنا سکھایا تھا اس لئے وہ صوبائی سول سرونٹ کی ایسوسی ایشن میں ہمیشہ فعال رہا تاکہ بالادست گروپ کو نا انصافی نہ کرنے دی جائے، وہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر خیبر کے ساتھ ساتھ ایسوسی ایشن کے کوارڈینیٹر بھی تھے۔

اور پھر اس نوجوان آفسر فہد اکرام قاضی نے ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک پریس ریلیز جاری کرکے گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا۔ وہ معطل بھی ہوا اور انضبا طی کارروائی کا بھی سامنا ہے۔

کیونکہ اس پریس ریلیز سے آئین اور قانون کی بالادستی کا اظہاریہ ٹپک رہا ہے جبکہ حقائق یہ ہے کہ ہمارے جیسے نیم وحشی معاشروں میں اس طرح کے خیالات اور اظہاریئے سنگین جرم تصور کئیے جاتے ہیں اور پھر اس جرم کی پاداش اور سزاؤں کی بھی ایک خوفناک تاریخ ہے۔

لیکن آئین اور قانون کو ملیامیٹ کرنے کے فرسودہ بیانئیے پر ڈٹی ہوئی قوتوں کو کون سمجھائے کہ اس مملکت خداداد کی کثیر خلقت اسی سوچ کی حامل ہے جسے فہد اکرام قاضی قرطاس و قلم پر لے آیا۔

سچ تو یہ ہے کہ اس بدلتی ہوئی سوچ کے علاوہ کوئی چارہ رہا بھی نہیں۔ تبھی تو باشعور طبقات اور سول سوسائٹی جوں ہی قانون کی بالادستی کے لئے آگے بڑھے، تو جسٹس وقار احمد سیٹھ ایک منصف اور مسیحا کے روپ میں فوری نمودار ہوئے اور چند دن کے اندر اندر اس سلسلے کو برق رفتار تیزی اور خوشگوار حمایت ملنا شروع ہوئی گویا آنے والے موسموں میں ہمیں اس خوشگوار منظرنامے سے روشناس ہونا ہی ہے جب اس ملک میں طاقت اور بلند قامتی متروک سکّوں کی مانند بے معنی ہوتے جائیں گے۔

یعنی بلند و کوتاہ اور کمزور و توانا قانون کی چھتری کے نیچے ہی رہیں گے۔

اور جو کوئی بھی کسی گھمنڈ میں آکر اپنا سر اس ”چھتری“ سے نکالنے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ قانون وہی کرے گا جو ایک سرکش ڈکٹیٹر کے ساتھ کیا حتی کہ نام کے لاحقے اور سابقے بھی اب کے بار کام نہ آ سکے۔

قانون اور آئین کی بالادستی کے بیانئیے کو حاصل ہوتی عوامی تائید اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ یہ وطن آئندہ کے لئے کسی آمریت کے خونخوار پنجے آئین کی پاسداری مالی سے مستقل چھٹکارا پانے کی سمت بڑھ رہا ہے، اور اس منظرنامے کے عقب سے ایک ایسا پاکستان برآمد ہوگا جہاں کوئی مجرم کسی پناہ گاہ میں نہیں بلکہ عدالت کے کٹہرے میں ہی نظر آئے گا۔

اس لئے اگر آج دانشور، صحافی، وکلاء اور متحرک سیاسی کارکن اس دلآویز آئیڈیالوجی کی طرف لپک رہے ہیں تو وہاں سول سرونٹ جیسا الگ تھلگ رہنے والا طبقہ بھی بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں اور اس کے لئے ہونے والی قابل احترام جدوجہد سے خود کو الگ کرنا جرم سمجھتا ہے جو یقینًا ایک خوش آئند امر اور ذمہ دارانہ طرز عمل ہے۔

اس سلسلے میں جب پریس ریلیز کے حوالے سے افسر ز ایسوسی ایشن کے کوارڈینیٹر فہد اکرام قاضی سے جواب طلبی ہو ئی تو اس نے ایک جہان معنی سمیٹے جواب دیا کہ بحیثیت سول سرونٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پابند ہوں، جبکہ موضوع سخن (مشرف کیس فیصلہ) تو ایک صلائے عام ہے جس پر عوام اور میڈیا بلا روک ٹوک بول رہے ہیں۔

سو اس معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے کون سا قانون مجھے اپنی اس رائے سے روک رہا ہے جو میں ایک عدالتی فیصلے کے احترام اور آئین اور قانون کی بالادستی کے حق میں دے رہا ہوں چہ جائیکہ ایک قابل احترام ادارے کا ذمہ دار آفسر اس حوالے سے اپنی متضاد رائے بھی میڈیا کے سامنے پیش کر چکا ہے۔

اس لئے میرے نقطہ نظر کے حوالے سے میں گرفت کی بجائے داد کا ہی مستحق ہوں جو قانون کے ساتھ کھڑا ہوں مخالف سمت میں نہیں۔

لیکن نوجوان فہد کو کون سمجھائے کہ ابھی ہم بحیثیت قوم اس منظرنامے سے کوسوں دور ہیں جس منظرنامے سے قانون کی عملداری، آئین کی پابندی اور مھذب ریاست کا وجود جنم لیتا ہے جو آگے چل کر ریاست کو اپنے عوام کے لئے جنت ارضی میں تبدیل کرلیتا ہے لیکن بد قسمتی سے ایک خلقت ابھی اس جذباتی حصار سے نہیں نکلی جس نے انہیں ہمیشہ بے مقصد قصیدوں اور تباہ کن مذمت پر ہی لگائے رکھا لیکن قابل اطمینان بات یہ ہے کہ یہ جذباتی حصار دن بدن سکڑتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف آگاہی اور شعور کا سلسلہ پھیلتا جا رہا ہے تبھی تو آئین اور قانون کی بالادستی کا علم تھاما گیا تو عقب میں ایک خلقت کا ریلا بھی اُمڈ پڑا، اور اُجڑے ہوئے صنم خانے سے جسٹس وقار احمد سیٹھ جیسے پاسبان بھی ملنے لگے،

یہ سفر طویل اور مشکل سہی مگر روکنے کا نام بھی نہیں لے رہی ہے۔

کیا خبر تاریخ کون سے موڑ پر بانہیں کھولے کھڑی ہو اور جب یہی تاریخ جدوجہد کرنے والے قابل فخر کرداروں کو تھام کر سینے سے لگا لے تو تاریخ کے پاؤں کے نیچے کون کون لوگ ہوں گے؟

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments