جان اللہ کو دینی ہے


اطلاعات کے مطابق سابق صدر اور آرمی چیف جنرل مشرف کی طبیعت بہت ناساز ہے۔ وہ کسی شدید بیماری کا شکار ہیں۔ اس بات کی تصدیق ان کی تازہ ترین وڈیو سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ ہسپتال کے بستر سے، نقاہت کے عالم میں۔ اپنے خلاف آنے والے خصوصی عدالت کے فیصلے کے حوالے سے، گفتگو کر رہے ہیں۔ دوسری جانب خصوصی عدالت کے فیصلے نے جنرل مشرف کو جو سزا دی ہے اس پر شادیانے بھی بجائے جا رہے ہیں۔ جمہوریت کی تجدید کے دن بھی منائے جا رہے ہیں۔

جنرل مشرف اس ملک کی بہت طاقتور شخصیت رہے۔ نو سال انہوں نے بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ نہ کسی نے سوال کیا نہ کسی کو جواب دریافت کرنے کی جرات ہوئی۔ جو جی میں سمائی وہ کیا جو من کو بھایا وہی فیصلہ فرمایا۔

ان حالات میں عدالت نے ان کو آئین شکنی کے جرم میں نہ صرف غدار کہا بلکہ ان کے لئے پھانسی کی سزا بھی تجویز کی ہے۔ اس سزا کو مزید عبرت ناک بنانے کے لئے ایک معزز جج صاحب نے ان کی لاش کو ڈی چوک میں کئی دن تک لٹکانے کی تجویز بھی دی ہے۔ اس تجویز میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر خدانخواستہ جنرل مشرف کا انتقال بھی ہو جائے تب بھی لاش کو لٹکانے بندوبست کیا جائے۔ جج صاحب کے ریمارک میں جنرل مشرف کو نشان عبرت بنانے کی بنیادی وجہ ائین شکنی ہے۔ اس ریمارک کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آئندہ کوئی بھی ڈکٹیٹر آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی جرات نہ کرے اور ڈی چوک میں لٹکی ایک لاش سے عبرت حاصل کرے۔

عام عوام اس موقعے پر یہی خیال کر رہی ہے کہ جنرل صاحب نے بس آئین ہی تو توڑا تھا سیاستدانوں کی طرح مبینہ چوری تو نہیں کی تھی ڈاکہ تو نہیں ڈالا تھا۔ جس طرح عمران خان کے بارے میں ہر ملکی اور بین الا قوامی ہزیمت کے بعد یہ بات کہ جاتی ہے کہ ”جو بھی ہے خان کرپٹ نہیں ہیں“۔ اسی طرح کا مقولہ جنرل مشرف کے بارے میں بھی دوہرا دیا جا تا ہے۔ تاریخ بہت ظالم چیز ہے یہ بہت سے راز اپنے سینے میں چھپا کر رکھتی ہے۔ تاریخ بعض اوقات درست وقت کا بھی انتظار کرتی ہے

جنرل مشرف نے آئین شکنی کے سوا کیا کیا کار ہائے نمایاں سر انجام دیے اس بار ے میں دی نیوز کے مایہ ناز رپورٹر وسیم عباسی کی سات جون دو ہزار اٹھارہ کی چھپی ایک رپورٹ پڑھ لیجیے۔ وسیم عباسی کی اس رپورٹ کے مطابق جنرل مشرف پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور بیش قیمت پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے جو انکوائری ہو رہی ہے اس میں قومی خزانے کو پہنچنے والا نقصان قریباً ایک ہزار ارب روپے کا ہے۔ اس رپورٹ میں اربوں روپے کی ان دس جائیدادوں کا بھی ذکر ہے جو ان کے یا ان کے اہل خانہ کے نام سے خریدی گئیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان جائیدادوں اور بدعنوانیوں کی مالیت اتنی ہے کہ اس سے کم از کم کالا باغ ڈیم بن سکتا تھا۔ خیال رہے یہاں صرف اندرون ملک جائیدادوں کا شمار کیا گیا ہے بیرون ملک اثاثے ابھی تک کسی شمار میں نہیں۔

بدقسمتی سے نیب اس سلسلے میں وہ پھرتی دکھانے سے قاصر ہے جو سیاستدانوں کے کیسز کے سلسلسے میں دکھائی دی جا رہے۔ نہ کوئی گرفتاری ہوئی نہ اہل خانہ کو ہراساں کیا، نہ مبینہ وڈیوز کے دعوے ٹی وی پر چلے نہ گھروں کے سیف توڑے جانے کی شواہد چینلوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔

اس صورت حال کے برعکس ملک بھر میں جنرل مشرف کے عدل و انصاف کے قصیدوں سے لبریز بینرز آویزاں کیے جا رہے ہیں۔ احتجاجی جلوسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ان جلوسوں کے شرکاء سے سے زبردستی جنرل مشرف زندہ باد کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں۔ جنرل مشرف کے حوالے سے یہ تک ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کس دلیری سے انہوں نے کعبتہ اللہ کا دفاع کیا تھا۔ حالانکہ اس واقعے سے جنرل مشرف کا اتنا ہی تعلق تھا جتنا تعلق ان کا جمہوریت سے تھا۔

جنرل مشرف نے اپنے نو سالہ اقتدار میں بڑے بڑے تاریخی لمحے دیکھے۔ کبھی امریکہ میں اپنی پذیرائی دیکھی، کبھی سعودیہ میں اپنی آؤ بھگت دیکھی، کبھی افغانستان کے مسئلے پر بین الاقوامی فورمز پر گفتگو کی۔ کبھی آگرہ سمٹ میں ہندوستانی صحافیوں سے پنجہ آزمائی کی۔ میڈیا انہیں مرد حر ثابت کرتے کرتے اس بات کو بھول ہی گیا جس طرف دی نیوز کے رپورٹر وسیم عباسی نے اشارہ کیا۔ یہ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جس کا سرا ملتا ہے۔ یہ انکشافات نہ اس ملک میں پہلے کبھی ہوئے ہیں نہ مستقبل قریب میں ان کی تفتیش کا کوئی امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے عام عوام یہی سمجھتے ہیں کہ جنرل صاحب نے آئین جیسا ردی کا ایک ٹکڑا ہی تو پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینکا ہے کوئی کرپشن تو نہیں کی۔

دنیا جہان کی دولت اپنے پروں تلے سمائے، ایک ملک کی فوج کے سب سے بڑے عہدے سے ریٹائر ہونے کے بعد، برسوں اسی ملک کے صدر متمکن ہونے کے باوجود، اسی ملک میں غدار کہلوانے والے جنرل مشرف اپنے ہسپتال کے بستر پر دشواری سے سانس لیتے یہ تو سوچتے ہوں گے کہ آخر انہیں کس کی بد دعا لگی ہے۔ یہ ہزیمت اور تضحیک کس کی آہ کے نتیجے میں انہیں نصیب ہوئی ہے۔

شاید ایسے میں کبھی وہ ان چار ہزار جوانوں کے خاندانوں کے بارے میں سوچتے ہوں جنہیں پکڑ پکڑکر انہوں نے امریکہ کے حوالے کیا اور امریکی ڈالروں میں انعام وصول کیا۔ شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ یہ بد دعا ان بلوچوں کی ہے جن کے سیاسی لیڈر کو بم سے اڑانے کے بعد جنرل صاحب نے فتح کا جام اٹھا کرجشن منایا تھا۔ شاید یہ بد دعا لال مسجد کی ان بچیوں کی ہو جن کے اوپر بم پھینکوا کر، گولیاں چلوا کر ان کی ہڈیاں تک سرمہ کر دی گئی تھیں۔ ۔ شاید یہ بد دعا ان درجنوں وکیلوں کے خاندانوں کی ہو جنہیں کراچی میں دن دہاڑے گولیوں سے بھون کر ان کی خون سے لت پت لاشوں پر اسی شام جنرل مشرف نے ڈی چوک میں مکے لہرا کر فاتحانہ رقص کیا تھا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے جو فرعون اپنی زمین سے غداری کر کے اربوں ڈالر کماتے ہیں، اپنے لوگوں کو قتل کرکے دساور سے بہادری کے تمغے لیتے ہیں، اپنے شہریوں پر گولیاں چلوا کر ان کی بے کسی اور مجبوری پر قہقہے لگاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے تاریخ اچھا سلوک نہیں کرتی۔ وہ وقتی طور پر بادشاہ وقت تو ضرور کہلاتے ہیں مگر ان کا انجام عدالتی فیصلے کے مطابق غداروں والا ہی ہوتا ہے۔ اس عروج سے پاتال تک کی وجہ صرف اتنی ہے جس وقت یہ ابن الوقت پورے جاہ و حشم سے اقتدار کے نشے میں ڈوبے ہوتے ہیں تو انہیں ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ جان انہیں بھی اللہ ہی کو دینی ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments