اقلیتوں کے مساوی حقوق کا مسئلہ


تیس برس سے زیادہ پرانی بات ہے وی سی آر پر مشہورزمانہ سیریز سٹارٹریک کی ایک قسط دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس قسط میں ایک شخص سپیس شپ میں آ جاتا ہے جس کی سر سے پاوں تک ایک سائیڈ سفید اور دوسری سیاہ ہوتی ہے۔ وہ پناہ کا طالب ہوتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد اسی طرح کا سفید و سیاہ ایک اور فرد سپیس شپ میں آتا ہے۔ وہ اس پہلے شخص کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ وہ ان کا مفرور مجرم ہے۔ کپتان کے پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ یہ مخالف نسل کا فرد ہے جن سے ان کی جنگ چل رہی ہے۔ کپتاں حیران ہو کر پوچھتا ہے مخالف نسل سے کیا مراد ہے۔ وہ بھی تمھاری طرح آدھا سفید اور آدھا سیاہ ہے۔ تو وہ بہت غصے سے جواب دیتا ہے کیا تم اندھے ہو۔ تمھیں فرق دکھائی نہیں دیتا؟ اس کی بائیں جانب سیاہ ہے اور میری دائیں۔

یہ تو تھی فلم کی بات لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس کرہ ارض پر انسانوں کے مابین اپنے اور پرائے کی تقسیم بہت پرانی ہے۔ یہ فرق و امتیاز بعض اوقات کس قدر مضحکہ خیز ہو جاتا ہے اس کا ایک طنزیہ نمونہ ہمیں کرشن چندر کے ناول غدار میں، جو تقسیم ہند کے وقت پنجاب میں ہونے والے فسادات کا بیان ہے، ملتا ہے: ہندو اور سکھ جو ادھر سے لٹ لٹا کر آتے ہیں انھیں شرنارتھی کہا جاتا ہے اور ادھر سے جو مسلمان لٹ لٹا کر ادھر جاتے ہیں انھیں مہاجر کہا جاتا ہے۔ ہندو کبھی مہاجر نہیں ہو سکتا اور مسلمان کبھی شرنارتھی نہیں ہو سکتا۔ شدید سے شدید تکلیف میں بھی یہ تفریق روا رکھی جاتی ہے۔

شناخت اور امتیاز کا یہ مسئلہ کس قدر اہمیت اختیار کر لیتا ہے اس کی ایک مثال ہمیں مرحوم یوگوسلاویہ میں ملتی ہے جہاں ہونے والی قتل و غارت گری بیسویں صدی کے اواخر کا ایک بھیانک واقعہ ہے۔ اگر اس سانحے کے اسباب کی پڑتال کی جائے تو عجیب و غریب صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ مارشل ٹیٹو کے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد جب 1946 میں وہاں نیا آئین نافذ کیا گیا تو اس میں پانچ قومیتوں کو تسلیم کیا گیا تھا۔ اس میں سابقہ حکومتوں کی طرح بوسنیا کے مسلمانوں کو علیحدہ گروہ تو سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی کوئی قومی شناخت نہیں تھی۔ بوسنیا کے مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ انھیں علیحدہ قومیت کے ساتھ مذہبی گروپ کے طور پر بھی شناخت کیا جائے۔ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد 1968 میں بوسنیا کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا۔

ارنسٹ گیلنر کا کہنا ہے کہ بوسنیا میں جو لوگ خود کو مسلمان کے طور پر رجسٹر کروا رہے تھے ان کی بڑی تعداد اعتقاداً اسلام کو ترک کر چکی تھی، اور وہ باعمل مسلمان بھی نہیں تھے۔ ان کا اصل مطالبہ قومی شناخت کا تھا۔ وہ سربو کروایٹ زبان بولنے والے سلاف نسل سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کا مسلم ثقافتی پس منظر تھا۔ وہ خود کو سرب نہیں کہہ سکتے تھے کہ اس کا مطلب لیا جاتا کہ وہ آرتھوڈوکس چرچ کے ماننے والے ہیں۔ اگر خود کو کروایٹ کہتے تو سمجھا جاتا کہ وہ رومن کیتھولک چرچ کے پیروکار ہیں۔ خود کو یوگوسلاوی کہنا بہت ہوائی سی بات دکھائی دیتی تھی۔ چونکہ نسلی یا ثقافتی شناخت مذہبی شناخت سے جداگانہ نہ تھی اس لیے انھیں اس اسلام کو اپنی قومی شناخت کی بنیاد بنانا پڑا جسے عملاً وہ چھوڑ چکے تھے۔

جدید دنیا میں انسانی آبادی اس قدر مختلط ہو چکی ہے کہ بعض اوقات کسی واحد شناخت سے کام نہیں چل سکتا۔ مذہب اور ثقافت ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہو جاتے ہیں کہ انھیں جدا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور نہ محض ایک کا حوالہ مکمل شناخت بیان کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس کا ایک بیان چیخوف کے ڈرامے “تین بہنیں” میں ملتا ہے۔ اس کا ایک کردار لیفٹننٹ توزن باخ ہے جس کا نام غمازی کرتا ہے کہ وہ جرمن نسل سے تعلق رکھتا ہے لیکن وہ خود کو روسی ثابت کرنے کے لیے کہتا ہے:

میرے خیال میں آپ سوچ رہے ہیں کہ میں جذباتی سا جرمن ہوں۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں جرمن نہیں۔۔ میں روسی ہوں۔ مجھے جرمن زبان کا ایک لفظ نہیں آتا۔ میرا باپ آرتھوڈوکس مسیحی ہے۔ (اردو ترجمہ از محمد سلیم الرحمان۔ آخری جملے کے ترجمے میں تبدیلی کی گئی ہے۔) اسے پتہ ہے کہ اپنے نام کی وجہ سے وہ سلاف نسل سے ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس لیے اسے روسی زبان بولنے کے ساتھ آرتھوڈوکس چرچ کا بھی حوالہ دینا پڑتا ہے۔

برصغیر ہند میں یہ بھی مسئلہ پیدا ہوا اور اس کا نتیجہ ہم تقسیم کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔ کرشن چندر اپنے ناول غدار میں کہتا ہے کہ “فرقہ وارنہ تحریکوں نے گزشتہ پچاس سال سے پنجاب کی فضا کو متعفن کر رکھا تھا”۔

پنجاب کی اس فضا کو مکدر کرنے میں مسلمانوں کا ہی حصہ نہیں تھا بلکہ دوسرا فریق بھی برابر کا شریک تھا۔ آغا شورش کاشمیری نے اپنی کتاب “چہرے” میں پرتاپ اخبار کے مدیر مہاشہ کرشن کا چہرہ ان الفاظ میں لکھا ہے۔ واضح رہے آغا صاحب مسلم لیگی نہیں، بلکہ احراری تھے۔

“الف تا ی ہندو، مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو، انگریزوں کے مقابلے میں نیشنلسٹ، وہ اسی حد تک قوم پرور تھے، جہاں تک انگریزی اقتدار کے بندھنوں کو توڑنے کا سوال تھا، جہاں مسلمانوں کے وجود کا سوال ہوتا وہاں وہ سر تا پا ہندو تھے۔

جن لوگوں کی احوال و کوائف پر نظر ہے، وہ جانتے ہیں کہ ملاپ اور پرتاپ ہی وہ اخبار تھے، جنھوں نے مسلمانوں کے فرقہ وارانہ ذہن کو انگیزا، اگر یہ دو اخبار نہ ہوتے تو شاید شمالی ہندوستان کی سیاست کا رخ مختلف ہوتا، لیکن ان دو اخباروں نے مسلمانوں اور ہندووں میں منافرت کی دیواریں کھینچنے میں فی الواقع کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے، ان کے قلم میں آج بھی سیوا جی کے گھاؤ چھپے ہوتے ہیں۔”

برصغیر میں ہندو مسلم تفریق کے پیدا ہونے کا بڑا سبب ہندوستان میں انگریزوں کی آمد تھی۔ اس وقت یورپ میں نیشنل ازم کا غلغلہ بلند ہو رہا تھا۔ جدید انگریزی تعلیم پانے والے ہندوستانی بھی اس فلسفے سے متاثر ہوئے اور ان میں بھی قوم پرستی کے جذبات پیدا ہونے لگے۔

نیشنل ازم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی کوئی متفقہ تعریف آج تک بیان نہیں ہو سکی۔ اصلاً اس کا شمار ان تصورات میں ہوتا ہے جنھیں  Essentially contested concepts کہا گیا ہے۔ قوم بنانے کا کوئی عقلی منطقی اصول نہیں ہے۔ نیشنل ازم کی تشریح و وضاحت کرنے والوں میں ایک اہم نام ارنسٹ گیلنر کا ہے۔ لیکن ماریو بنگے نے جو ارجنٹائن نژاد کینیڈین فلسفی اور سائنس دان ہیں، گیلنر کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے سنٹرل یورپ کے تجربے کو یونیورسل بنا رہا ہے۔ اس کا سوال تھا کہ گیلنر اپنے نظریے کا جنوبی امریکہ پر کس طرح اطلاق کرے گا تو گیلنر کا جواب تھا کہ میں نے اس پر غور نہیں کیا۔

ماریو بنگے اپنی سائنٹفک ٹریننگ کے باعث مختلف تصورات کو ریاضیاتی ایجاز کے ساتھ بیان کرنے کا بہت شوقین ہے۔ نیشنل ازم پر گفتگو کرتے ہوئے پہلے تو اس کی پانچ اقسام گنوائی ہیں: علاقائی، حیاتیاتی (نسلی)، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی۔ پھر ریاضیاتی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے ان کے مختلف جوڑے بناتے ہوئے بتایا ہے کہ اس کی 186 اقسام ہو سکتی ہیں۔ پتہ نہیں دنیا میں اتنی اقوام ہو بھی سکتی ہیں یا نہیں۔

ماریو بنگے کا حوالہ دینے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ہمارے بعض بہت پڑھے لکھے افراد بھی اصرار کرتے ہیں کہ سیاسیات کی کسی نصابی کتاب میں قوم کی تعریف کرتے ہوئے یہ بیان نہیں کیا گیا کہ مذہب کی بنیاد پر بھی قوم بن سکتی ہے۔ مذہبی قوم پرستی کی اصطلاح اب علم سیاسیات کی کتابوں میں جگہ بنا چکی ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے انسانی آبادی کے اختلاط کی بنا پر اکثر مقامات پر محض ایک شناخت کافی ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ کچھ اضافہ بھی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

ہمارے ہاں آج بھی ان خوش فہم لوگوں کی کمی نہیں جو کانگرس کے ایک مکمل سیکولر جماعت ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ کانگرس پر جب سے مہاتما گاندھی جی کا غلبہ ہوا تھا اس پر ہندوانہ رنگ غالب آنا شروع ہو گیا تھا۔ مہاتما جی نے اپنی سیاست کے دو بنیادی اصول یہ قرار دیے تھے: رام راج کا قیام اور گئو رکھشا۔ بیس کی دہائی میں ہندو مہاسبھا کا قیام عمل میں آ یا تھا جو مکمل طور پر فرقہ وارانہ جماعت تھی۔ انتظار حسین صاحب نے اپنی کتاب “اجمل اعظم” میں حکیم اجمل خان کے آخری برسوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”جب پنڈت موتی لال نہرو نے مہاسبھائیوں کو ایک لفظ بھی کہنے سے انکار کیا تو حکیم اجمل خان صاحب نے مجبور ہو کر ان سے صاف کہہ دیا کہ اب وہ مسلمانوں سے کوئی توقع نہ رکھیں۔”

اس بات میں کوئی شک نہیں پنڈت جواہر لال نہرو مکمل طور پر سیکولر تھے لیکن اس بات سے انھیں بھی انکار نہیں تھا کہ کانگرس میں حقیقی اور سچے سیکولر افراد بہت چھوٹی سی اقلیت تھے۔ چنانچہ تقسیم ہند کے بھی یہی صورت حال جاری رہی۔ پنڈت جی بااختیار وزیر اعظم ہوتے ہوئے سیکولر جمہوریہ ہند کے صدر کو سومناتھ مندر کے افتتاح کی تقریبات میں شرکت کرنے سے نہ روک سکے۔ پنڈت جی کی صاحب زادی نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ ہم نے ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ بابری مسجد کو مسمار کرنے کا واقعہ کانگرس کی حکومت کے دوران میں پیش آیا۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی کے ارادوں سے باخبر ہونے کے باوجود کانگرس کی قیادت نے اقلیتوں کی طرف رجوع کرنے کی کوئی ضروررت محسوس نہ کی۔

ہندوستان آج جس صورت حال کا شکار ہے اس میں کانگرس کی پالیسیوں کا بھی ہاتھ ہے جس طرح پاکستان میں پیدا ہونے حالات کی ذمہ داری بڑی حد تک مسلم لیگ کی خراب کارکردگی پر عاید ہوتی ہے۔

یہ صرف ہندوستان اور پاکستان کی بات نہیں، تشویش ناک امر یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک اقلیتوں کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل نہیں کر سکتے۔ جب غازی مصطفیٰ کمال نے ترکی کو سیکولر ریپبلک بنانے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت وہاں غیر مسلم آبادی بییس فیصد سے زیادہ تھی جو اب صرف ایک فیصد رہ گئی ہے۔ مصر میں مردم شماری میں مذہب کو نکال دیا گیا ہے اس لیے درست اعداد و شمار کا ملنا تو مشکل ہے لیکن دیکھنا ہو گا کہ سعد زاغلول پاشا کی دی گئی تمام تر مراعات کے علی الرغم کیا قبطی مسیحیوں کی آبادی مصر میں بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے؟ خود بھارت میں بی جے پی کے عروج سے بہت پہلے پڑھے لکھے اور آسودہ حال مسیحیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ملک چھوڑ کر جا چکی تھی۔ کلکتہ میں آرمینیائی لوگوں کے محلے خالی ہو چکے تھے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اس پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔

ذاتی طور پر میں نیشنل ازم کے فلسفے کو سراسر غلط سمجھتا ہوں لیکن جدید ریاست کے ساتھ کچھ ایسے مسائل وابستہ ہیں کہ مخلوط آبادی والے ممالک میں فرق و امتیاز پر جنم لینے والے سوالات سے چھٹکارا پانا اس قدر آسان نہیں۔ یہ محض اکیڈیمک معاملہ نہیں۔ جب ریاستی وسائل کی انسانوں کے مابین تقسیم کے معاملات درپیش آئیں گے تو تنگی کی صورت میں یہ مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان سے جان چھڑانا ممکن نہیں، لیکن اس کے لیے ایک طویل جدوجہد اور صبر آزما سعی کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کا حل ان کے وجود سے انکار کرنے میں نہیں بلکہ ان کو مان کر حل کرنے کی کاوش میں ہے۔

ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں پہیہ از سر نو ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسی راستے کو اپنانا ہو گا جس پر چل کر مہذب دنیا نے اس مسئلے کو حل کیا ہے۔ وہی راستہ قائد اعظم نے اپنی 11 اگست 1947 کی تقریر میں بیان کیا تھا کہ مملکت مذہب، زبان، نسل یا کسی اور بنیاد پر اپنے شہریوں میں فرق و امتیاز نہیں کرے گی۔ سب برابر کے شہری ہوں گے۔ اس تقریر کو اپنے لائحہ عمل کی بنیاد بنا کر ہی تمام پاکستانی شہریوں کو یکساں حقوق کی ضمانت فراہم کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments