وقت کے ساتھ بدلنے میں ہماری ناک کیوں کٹتی ہے؟


ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ بدلاؤ آیا ہے؟ کیا ہمارے بزرگوں نے یہ بدلاؤ تسلیم کیا ہے؟ کیا ان میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آئی ہیں؟ یقینا اس کے ردعمل میں آنے والے جوابات ملے جلے ہوں گے۔ کچھ کہیں گے کہ ہاں ہم بدلے ہیں لیکن ہمارے بزرگ نہیں۔ کچھ کے بزرگوں نے اس تبدیلی کو تسلیم کرتے ہوئے خود میں بھی تبدیلیاں کی ہوں گی اور ہو سکتا کہیں پہ نہ بزرگ بدلے ہوں نہ ہی جوان۔ دونوں اپنی اپنی طے کردہ حدود یا مقرر کیے گئے مدار سے باہر ہی نہ نکلنا چاہتے ہوں۔ ہم انہی پہ بات کرتے ہیں۔

2000 کے بعد جس تیزی سے دنیا میں تبدیلی اور نت نئی ایجادات ہوئی ہیں اس کی مثال کم ملتی ہے۔ یہ وہ سال ہیں جن کا بغور مشاہدہ نوے کی دہائی میں پیدا ہونے والوں نے سب سے زیادہ کیا ہے۔ بشرط کہ اگر انہوں نے کرنا چاہا ہو۔ پی ٹی وی کی چار بجے شروع ہونے والی نشریات سے لے کر آج کے ڈیجیٹل چینلز کے دور تک بے شمار نئی چیزیں آئی ہیں۔ پی ٹی سی ایل کے لینڈ لائن والے کسی کسی کے گھر پڑے فون سیٹس سے پیجر، پاکٹیل کنکشن اور سونی ایریکسن کے بڑے بڑے موبائل سیٹس سے سلم سمارٹ آئی فون و نوٹ کے ماڈلز تک کتنی چیزیں بدلی ہیں ہم جانتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ نوے کی دہائی میں وفات پا جانے والے ہمارے بزرگوں کو اگر آج چوبیس گھنٹے چلنے والے ہر طرح کے چینلز، خبریں، تبصرے، فون کالز کی آسانی، سائنسی تبدیلیاں، انٹرنیٹ سے پوری دنیا ایک کلک پہ اور رہن سہن کی آسائشات دکھائی جائیں تو وہ دوبارہ حیرت سے مر جائیں گے کہ یہ کون سی دنیا ہے۔

یہ ہیں مادی تبدیلیاں جن کو ہم نے وقت کے ساتھ ساتھ اڈاپٹ کر لیا ہے۔ اور اب یہ ہماری زندگی کے لازمی جزو ہیں۔

تبدیلیاں تو ہمارے معاشرے میں بھی ہوئی ہیں۔ بڑھتی ہوئی جنسی گھٹن، مذہبی انتہا پسندی، فتوی بازی اور برداشت میں کمی بھی حد سے بڑھی ہے۔ میرا بچپن گلیوں میں پھرتے گزرا۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی اتنا فرق نہیں تھا۔ مل جل کے کھیلنا کھانا پینا لڑنا جھگڑنا اور تھک کے گھروں میں جا کے سو جانا۔ وہ کون سی دنیا تھی یا یہ کیسی دنیا ہے کہ اب بچہ دروازے پہ جائے اور دو منٹ تک واپس نہ آئے تو فکر ہونے لگ جاتی یے۔

ہمارے بزرگوں کو پتہ چلے کہ اب بچے گلیوں میں کھیلنے نہیں نکلتے کہ ان کا ریپ ہو جاتا ہے، تو وہ غم سے مر جائیں گے۔ مدارس جنسی زیادتیوں کے بعد قتل کر کے پھینک دینے کا گڑھ بن چکے ہیں تو وہ صدمے سے مر جائیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے علاقے میں چار سے پانچ مدرسے مسجد سے ملحقہ تھے جن میں، میں نے قرآن کی دہرائی کی ہوئی ہے لیکن میں میری سہیلیاں صرف قاری کی مار اور مولابخش سے ڈرتی تھیں۔ ہمیں قاری سے کبھی دوسرا خوف محسوس نہیں ہوا۔ بہرحال یہ ایسی معاشرتی تبدیلیاں ہیں جو گھناونی ہیں۔ خوفناک ہیں۔ ایک برے خواب کی طرح ہیں۔ جو میرے جیسا بندہ روز یہ سوچ کے سوتا ہے کہ آنکھ کھلے گی تو سب نارمل ہو گا۔

بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے۔ میں بات کر رہی تھی کہ ہم نے وقت کے ساتھ اپنی ذات میں کیا تبدیلیاں کیں۔ انسان کی سوچ اگر جامد ہو جائے گی تو دلدل جیسی ہے۔ جس میں انسان دھنستا جائے گا نکلے گا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی سوچ و رویوں کو بہتے پانی جیسا کیا جو بہتا رہے تو فرحت کا احساس دیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی سوچ اپنے نظریات پہ اس برے طریقے سے ڈٹے رہتے ہیں کہ پتھر لگنے لگتے ہیں۔ دس پندرہ سال پہلے اگر آپ نوکیا یوز کرتے تھے تو اب آئی فون کرتے ہیں۔

جب آپ نے مادی یا ظاہری حالت بدلنے میں تردد نہیں کیا تو پھر اب سوچ کو بدلنے میں کیسی جھجھک۔ ہم میں سے کون غلطیاں نہیں کرتا۔ یقینا سب کرتے ہیں۔ لیکن اپنی غلطیوں کو تسلیم کون کرتا ہے۔ شاید بہت کم لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ہم اپنے رویوں سے دوسروں کو اذیت دیتے ہیں۔ لیکن ہم یہ کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ ہماری وجہ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے۔ ہم اپنی ذات میں فرشتے ہیں۔ اگر ہم سب فرشتے ہیں تو پھر معاشرے میں یہ بے امنی، نا انصافی اور محبت کی کمی کیوں ہے۔ سوچئیے!

دراصل ہم خود کو تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ ہم اپنی غلطی تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ ہم کسی دوسرے کی تعریف برداشت نہیں کرتے۔ ہم کسی کا مشورہ قبول نہیں کرتے۔ ہم کہتے ہیں جو ہم نے کہا وہ پتھر پہ لکیر ہے۔ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ درست ہے۔ دوسرے اسے تسلیم کریں جو ہم نے کہا، یہ سوچے بغیر کہ دوسرے بھی ہم میں سے ہی ہیں۔ اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔ کہ ان کی سنی جائے۔

اس سب کے پیچھے ایک ہی لاجک ہے کہ ہم اپنی ناک اونچی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی ناک کٹنے نہیں دینا چاہتے۔ ہم اپنی ناک کو اس قدر عزیز تر رکھتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کے جذبات و احساسات و تکلیف کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ بزرگ اولاد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اولاد بزرگوں کو نہیں سمجھتی۔ کیا میں اور آپ غلطیوں سے پاک ہیں؟

میں نے بھی بہت غلطیاں کی ہوں گی۔ کیا میں ان پہ فخر کروں ہرگز نہیں۔ مجھے ان سے سیکھنا پڑا۔ میں نے دن بدن چیزوں سے، لوگوں سے، کتابوں فلموں اور ماحول سے بہت کچھ سیکھا۔ سیکھنے کا عمل جاری رہنا چاہیے کہ بقائے انسانی اسی میں ہے۔

اگر آپ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ اپنے رویے نہیں بدلتے تو آپ ایک کائی زدہ پتھر ہیں جو دریا کی تہہ میں پڑا ہے لیکن اگر اس پہ کسی کا پاوں آئے تو اسے گرا دے۔ یقینا گرنے والے کے منہ سے دعائیں نہیں نکلیں گی۔ اپنی ذات میں وہ بدلاؤ لائیں جو آپ کے لیے، آپ کے ارد گرد رہنے والوں اور معاشرے کے لیے بھی مددگار ہو۔ کہیں ناک کٹ بھی جائے تو خیر ہے کیونکہ یہ ناک جس کی آپ کو فکر ہوتی ہے۔ یہ نظر نہیں آتی یہ ہماری خودساختہ ناک ہے۔ کٹ جائے جھک جائے پرواہ مت کریں۔

سیکھنے و تبدیلی کا عمل جاری رکھیں۔ زندگی مزے دار ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments