کیا انسانی ذہن کو قید کیا جا سکتا ہے؟


ڈاکٹر بلند اقبال جو کہ حمایت علی شاعر کے فرزند ارجمند ہیں۔ آج کل کینڈا میں رہتے ہیں۔ وہ کسی وقت میں کینڈا کے رائل ٹی وی پر (پاس ورڈ) کے نام سے ایک پروگرام کیا کرتے تھے جبکہ آج کل کینڈا ون ٹی وی پر (دی لائبریری ود بلند اقبال کے ساتھ) کے عنوان سے پروگرام کر رہے ہیں۔ ان کا ایک پروگرام (پاس ورڈ) پر سننے کا اتفاق ہوا۔ اس پروگرام میں دو معزز مہمان شریک گفتگو تھے۔ ان میں ایک معروف شخصیت جو کہ ماہر نفسیات ہیں ڈاکٹر خالد سہیل اور دوسرے معزز مہمان جاوید صدیقی تھے۔

گفتگو کا عنوان بڑے مزے کا تھا۔ (محبت، روحانیت، یکسانیت یا روٹین) ڈاکٹر سہیل نے بڑے ہی خوبصورت اندازمیں ان تین الفاظ کی تشریح انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی۔ انھوں نے کہا کہ شادی محبت کو ختم کر دیتی ہے، مذہب روحانیت کو ختم کردیتا ہے، یکسانیت یا روٹین انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کر دیتی ہے۔ اگر ہم اس تشریح کواپنے سماج کے آئینہ میں رکھ کر جائزہ لینے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ بالکل ایسا ہی تو ہے۔

اگر ہم اپنے سماج میں ہونے والی شادیوں کا جائزہ لیں، آیا کہ شادی خالصتاً دو افراد کے درمیان باہمی آشنائی اور مکمل رضامندی کے ساتھ طے پاتی ہے؟ ہمارے مشرقی فیملی یونٹ میں والد کا کردار ایک ڈکٹیٹر کا ہو تا ہے۔ ایسا سنجیدہ بندھن جس کی شروعات خالصتاً دو افراد سے ہونی چاہیے اس میں فیملی کے باقی افراد خواہ مخواہ میں اپنا حصہ ڈال کر اس میں دخل اندازی سے کام لیتے ہیں۔ باپ کہتا ہے کہ میرا فیصلہ حرف آخر ہے اور میرے بچے کو فلاں کی بچی کے ساتھ ہی شادی کرنا ہوگی۔

ہمارے سماج میں مرضی پوچھنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ نہ بیٹی سے اس کی رضا مندی پوچھی جاتی اور نہ ہی بیٹے سے۔ دو اجنبی افراد کو چند رسمی قول و قرار کے ساتھ ایک ایسے رشتے میں باندھ دیا جاتا ہے جسے ساری عمر مجبوری کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے بھی نبھا نا پڑتا ہے۔ اس بے جوڑ شادی میں شوہر کا کردار ایک آقا کا ہوتا ہے جبکہ بیوی کا کردار ایک سرونٹ کے روپ میں ڈھل جاتا ہے۔ ایک ایسا رشتہ جو کہ صرف اور صرف دو لوگوں کے درمیان طے ہونا چاہیے تھا وہ سماج کے جبر کا شکار ہو کر اجنبیت کی نذر ہو جاتا ہے۔

اگر دوسری طرف مذہب کی طرف آئیں تو ادھر بھی صورت حال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اگر ہمارے سماج میں کوئی سنجیدہ شخص سنجیدگی کے ساتھ مذہب کا مطالعہ کرنا چاہے تو وہ مزید کنفیو ژن کی گھا ٹی میں اتر جاتا ہے چونکہ ہم مذہب کو صرف مونوگرام کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا تو کسی کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے یا خارج کرنے کے لیے۔ ہمارا مذہبی دائرہ سکڑ کر اتنا چھوٹا ہو چکا ہے کہ اگر کوئی سنجیدہ طالب علم سنجیدگی کے ساتھ کچھ سوالات اٹھاتا ہے تو اسے الزامات کی صورت میں انتہائی شرمندگی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

ہمارے مذہبی علماء کسی بھی سنجیدہ طالب علم کومذہبی بالیدگی دینے کی بجائے اس کو مذہب سے ہی دور کر دیتے ہیں۔ تیسری اہم چیز یکسانیت یا روٹین ہے۔ ہمارے سکول کالج اور یونیورسٹیاں ایک طالب علم کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کرنے میں اپنا پورا پورا کردار ادا کرتی ہیں۔ کریٹیکل تھنکنگ ایک طالب علم کا اثاثہ ہوتی ہے۔ جسے استعمال کر کے وہ ذہنی بالیدگی اور شعور کی بلندی پر پہنچتا ہے۔ مگر اسی خاص صلاحیت کو پروان چڑھا نے کی بجائے طلباء کو ڈاکٹر، انجنیئریا کسی بڑے عہدے کے بارے میں حسیں سپنے دکھا کر ایک مخصوص مائنڈ سیٹ تشکیل دینے کا انجکشن لگا دیا جاتا ہے۔

پھر وہی تمام صلاحیتوں سے مالامالا طالب علم کنویں کی بیل کی طرح ایک فکس مائنڈ سیٹ کا طواف کرتا رہتا ہے اور ایک ہی طرح یکسانیت اور بوریت والی زندگی گزار کر بغیر کوئی انسانی ذہنی ورثہ میں اضافہ کیے دنیا سے رخصت ہو جا تا ہے۔ ہماری یونیورسٹیز اور کالجز میں تاریخ، ادب، پولیٹیکل سائنس اور سائیکا لوجی پڑھنے والے طلباء کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ ادب تو زندگی کا آئینہ ہوتا ہے زندگی کی گھمبیرتاؤں اور پہیلیوں کو بوجھے بغیرکیسے کوئی زندگی سے آنکھ ملا سکتا ہے۔ زندگی کو پڑھے اور سمجھے بغیر زندگی کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔ اس کرکراہٹ کو دور کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ روایات کی پختہ دیوار کو مسمار کرنے کا آغاز کیا جائے۔ بقول ڈاکٹر سہیل

ہمارے بچے کی سوچوں پہ کب سے پہرے ہیں

کہاں سے آئے گا آزاد نوجواں کوئی

میری نظر میں انسانی ذہن کو قید نہیں کیا جا سکتا مگر کچھ وقت تک کے لیے دبا کر ضرور رکھا جاسکتا ہے۔ ان ذہنوں کوجیسے ہی تھوڑے سے بھی حالات سازگار نظر آتے ہیں تو یہ اپنے اندر کے سچ کو باہر نکالنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اس کی واضح مثال منصور حلاج کی انا الحق کی صدا ہے جسے اس وقت کے روایتی ذہنوں نے اس صدا کو کفر جانا اور اس آواز کو ابدی نیند سلا دیا مگر جب وقت نے کروٹ لی توکچھ ذہنوں کو اس صدا کی حقیقت کا ادراک ہوا تو یہ ماننے پر مجبور ہوگئے کہ منصور ٹھیک تھا اور ہم غلط تھے۔

دوسری طرف گلیلیو کے سچ کے ساتھ بھی یہی برتاؤ کیا گیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس کا سچ روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا تو چرچ کو مجبور ہو کر معافی مانگنی پڑی۔ ہر دور کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اور اس سچ کا ادراک رکھنے والے اذہان اس سچ کو کسی نہ کسی انداز میں پیش کرکے ہی رہتے ہیں۔ نئی پیدا ہونے والی حقیقتوں کے آگے جتنی مرضی روایتی دیواریں قائم کر دی جائیں وہ وقت کے تیز بہاؤ کا سامنا نہیں کر سکیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments