جو یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟


ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

یہ شعر اردو کے عظیم شاعر اور اردو زباں کو زباں دینے والے شاعر اسد اللہ خاں غالب کا ہے۔ ان اشعار کی تشریح غالب میاں سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا، لیکن میں انہی اشعار کو کسی اور پیرائے میں ہم سب کے اور اپنے روز مرہ سے جوڑ کر ایک بحث کرنا چاہ رہا ہوں۔ غالب کا یہ شعر شکوہ و شکایات سے بھرپور ہے، اور ان شکووں سے غالب کی روز مرہ کی تلخیاں جھانک جھانک کر ہمیں پکار رہی ہیں، کہ تم سب کی زندگی کی حقیقت بھی بیان کیے دیتا ہوں۔

در اصل اس شعر میں کہا گیا کہ آدمی کسی بھی حال میں مطمئین نہیں ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک خواہشات کے کہ نہ تھمنے والے سلسلے ہیں۔ غالب نے اپنے وقت میں آخری مغل بادشاہوں کا دور اقتدار دیکھا اور پھر ان سے اقتدار چھن جانے کا واقعہ بھی غالب کی آنکھوں کے سامنے سے ہو گزرا۔ مرزا غالب کی اپنی زندگی اس قدر تلخیوں سے عبارت ہے ججیسا کہ ان کے کلام سے واضح طور پر اس بات کا اشارہ ملتا ہے۔ شاعروں کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ وہ جس طرح کے پیرائے میں بات چیت یا کلام کرتے ہیں کہ جس سے ان کی ذاتی زندگی کی باریکیاں بھی خوب سمجھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن بڑے شعراء کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کلام کو اس اسلوب کے ساتھ مرتب کرتے ہیں کہ وہ ہر حساس شخص کے حالات حاضرہ گزشتہ و آمدہ سے لے کر روز مرہ جات پر پورا اترتا ہے۔ اسے آپ شاعر کی ذہانت کا کمال کہیں یا اس کی آدمیت کے لیے حساسیت کہیں معاملہ آپ کے سر ہے مجھے بحث کرنے دیجیے۔

سماج میں نظریہ ضرورت سے لے کر دیگر کئی نظریات اپنا وجود رکھتے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ جو بھی نظریہ ہے وہ کسی نہ کسی ضرورت کے تناظر میں آدمی کو اپنے تابع کرتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ ایسے میں فلسفے کا اک اپنا ہی روگ ہے جسے عام سادہ لوح آدمی نہ سمجھتا ہے نہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ اسے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس سب میں روناکیا ہے، رونا یہ ہے کہ،

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

یعنی جب تک ہم زندہ ہیں تلخیاں ہمارے وجود سمیت ہمارے گرد و پیش کا بھی حصہ ہیں۔ ایسے میں اپنی اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے جو بھی نقطہ نظر اپنایا جائے فرق نہیں پڑتا۔ فرق اس سے بھی نہیں پڑتا کہ کہاں کہاں آپ کا بس چل سکے، اور آپ خود کو ثابت قدم رکھنے اور حالات کو اپنی مطابقت پر ڈھالنے کے لیے جو بھی کارہائے جتن سر انجام دیں آپ کر سکتے ہیں۔ ہاں البتہ اس نقطے پر آپ کی بس ہو جائے گی جہاں آپ جان چھڑانے کا کوئی مناسب حیلہ بہانہ بنانے میں ناکام ہو جائیں۔

یہ ہمارے روز مرہ جات کی حقیقت ہے، جیب میں 500 روپیہ موجودہونے کے باوجود ساتھی دوست کو چائے نہ پلانے کا یہ جواز پیش کرنا کہ، تمہیں تو معلوم ہی ہے مہینے کے آخری دن چل رہے ہیں، یہاں سے لے کر گاڑی میں جگہ ہونے باوجود کسی کو لفٹ نہ دینے کی زحمت سے بچنے کے لیے ہزاروں ایسے حیلے بہانے ہیں۔ جو ہم چلتے چلتے گھڑ لیتے ہیں اور وجہ ہوتی ہے ذاتی تسکین و سہولت کاری۔ یعنی زحمت سے بچنا اذیت نہ اٹھانا وغیرہ۔ اس سب میں تقدیر کا ڈھول پیٹنا الگ ہے۔ یہ بات سمجھنا بہت ہی اہم اور عام ہے کہ ہم ہمارے مزاج کے مطابق اپنے آئندہ کے حالات تشکیل دیتے ہیں، اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے کہ وہی ہو جو ہم چاہیں۔ ہاں البتہ جب وہ نہیں ہوتا تو ہمارے ہاں وضاحت کے لیے سو دلیلیں موجود ہوتی ہیں۔

اپنی اکثر کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہم تقدیر کی چادر اوڑھ کر اس میں چھپنے کی اپنی سی نا ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ المیہ بنی نوع انسا ن کے ساتھ ہے کسی ا ک معاشرے کی بات نہیں۔ ہاں البتہ کچھ روایتی قضیے ایسے ضرور ہیں جو انتہائی عام فہم ہیں اور جنہیں سامنے رکھنتے ہوئے سامنے والے بندے کی بولتی ختم شد کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر تقدیر میں یہی لکھا تھا، شاید اس میں کوئی بہتری ہو، وغیرہ وغیرہ، کیا آپ اس بحث میں حصہ لیں گے کہ اس مقام تک جہاں آپ نے بے بس ہو کر یہ سمجھ لیا کہ تقدیر میں یہی لکھا تھا۔

اس سے پیچھے کے آپ کے کارہائے نمایاں کے بارے بھی تقدیر میں یہی لکھا تھا؟ اس امر پرآپ یقینی طور پر ماتھا ٹھنک کر سوچ سکتے ہیں کہ وہاں تک تو سب اچھا تھا جہاں آپ کی منشاء کے مطابق سب ہو۔ اب جب آپ کی مرضی کے بغیر کچھ ہونے لگا تو آپ سے تقدیر کے حوالے کیے دے رہے ہیں۔ کیا تقدیر لکھنے والا آدمی کو اضطراب دینا چاہتا ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ جس امر کی جس قدر آپ کے ہاں سے کوشش کی گئی اس کا اسی طرح کا صلہ سامنے آتا ہے۔

اس کے لیے کاروباری دنیا میں بڑی مثالیں ہیں کہ اپنی طرف سے جس قدر بڑا سوچ سکتے ہو سوچو، کچھ نہ کچھ بڑا تو ہو گا۔ یہ روایتی اور روز مرہ کی باتیں ہیں آدمی جس قدر بالادست ہوتا ہے وہ اسی حساب سے اپنا الو سیدھا رکھنے کے لیے زور لگاتا ہے۔ تقدیر کا قضیہ اور مقدر کا کھیل قدرے نچلے طبقے کے لیے با معنی ہے جن کے ہاں امیدیں اس لیے ٹوٹ جاتی ہیں کہ وہ ان امیدوں کو حقیقت میں بدلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ اس کے لیے جدوجہد نہیں کر سکتے اور نتیجے میں ان کے پاس یہی باقی رہتا کہ شاید اوپر والے کو یہی منظور تھا۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ اوپر والا آپ کی بھلائی چاہتا ہے وہ چاہتاہے کہ آپ اپنے الو سیدھے کرنے کے لیے کوشش کریں باقی جو اس کی طرف سے ہے و ہ ضرور بھلا کرے گا۔

غالب بابا نے اپنی شاعری میں بنی نوع انسان کا اجتماعی قضیہ پیش کیا ہے جو عین حقیقت ہے۔ اس میں پشیمانی کی ضرورت بالکل نہیں کہ، غالب کے کچھ شعر ایسے معلوم ہوتے تھے کہ ان میں کفر کی جھلک نظر آتی تھی؟ جیسے

زندگی اپنی اس شکل میں گزری غالب
ہم بھی کی یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

اس شعر کے معانی و مطلب سیدھا ہے کبھی کبھار ہم نا امیدی میں خدا سے ایسا ہی گلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنی انہونیوں پر خدا سے اچھے کا صلہ مانگتے ہیں جو قطعی خلاف اصول ہے۔ اچھائی کے بدلے اچھائی ہی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ برائی کے بدلے بھی اچھائی نہیں ہوا کرتی۔ اس لیے اپنے ہاں سے اچھا کیجیے اور آدمی کے درد کی دوا بنیے نہ کہ راہ کا کانٹا۔ ہاں البتہ جو ہمارے روایتی حیلے بہانے ہیں وہ ہم چھوڑنے سے رہے چونکہ ہم نے خود کو بھی مطمئین رکھنا ہے خود کی سہولت بھی درکار ہے۔

ایک سوال اہم ہے کہ آپ اگر یہ کہیں کہ راہ چلتے پر آپ نے کیچڑ اچھالا ہو اور بدلے میں آپ اس سے پھولوں کی پتیاں نچھاور ہونے کی توقع لیے بیٹھے ہوں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ اور جواب میں تھپڑ پڑنے پر ہم تقدیر کا رونا روئیں تو یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے روز مرہ جات کا براہ راست تعلق ہمارے قول فعل اور عمل سے ہے۔ اس میں تقدیر کا گلہ لایعنی بات ہے، اگر ہم نے کوئی سنگینی بھگتی ہے۔ تو اس کے پس پردہ میں ضرور ہمارا کوئی عمل کارفرما ہو ا ہو گا جس کا نتیجہ ہم نے بھگتا ہے۔ بس یہی مثال ہمارے روز مرہ کے حادثات خوشیوں اور غم کے لیے برابر اترتی ہے۔ اس سب میں بس یہ ہے کہ ہم زندہ ہیں تو یہ دکھ و سکھ کا موسم دیکھتے ہیں ہمارا وجود موجود ہے تو یہ سب المیے ہیں ہم ہی نہ ہوں گے تو پھر یہ رونا دھونا کیوں؟

ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہناجو یوں ہوتا تو کیا ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments