ترمیمی احتساب آرڈی ننس : عمران خان نے کسی کو نہیں، اپنے آپ کو این آر او دیا ہے


صدر نے گزشتہ روز ایک نئے احتساب آرڈی ننس پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت احتساب آرڈی ننس مجریہ 1999 میں دوررس تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے ان تبدیلیوں کے بعد ملک میں احتساب بیورو کی حیثیت کاغذی شیر سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس کے اصل اختیارات ختم کردیے گئے ہیں۔
نئے آرڈی ننس کو لاہور ہائی کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ مدعین نے اعلیٰ عدالتوں سے آرڈی ننس پر عمل درآمد روکنے کی درخواست بھی کی ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ عدالتیں ہی طے کریں گی کہ کیا یہ درخواستیں قابل غور ہیں۔ اور اگر ان پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ غور کرنے پر راضی ہوجاتی ہیں تو کیا اس قانون پر عمل درآمد کو حتمی فیصلہ تک معطل کیا جائے گا۔ عدالتوں کی طرف سے کوئی حکومت مخالف فیصلہ سامنے آنے کی صورت میں حکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔ حکومت ابھی تک آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور نہ ہی اس حکم کے مطابق مناسب قانون سازی کے امکانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بلکہ سپریم کورٹ سے اس فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کرتے ہوئے سہ رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کے لئے کہا گیا ہے۔ اب اگر عدالت نئے احتساب آرڈی ننس کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیتی ہے تو حکومت کو نئی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد احتساب آرڈی ننس جاری کیا تھا جس کا واحد مقصد بطور خاص شریف خاندان اور ان کے سیاسی حامیوں کو نشانہ بنانا تھا لیکن اس قانون کو عام طور سے مخالف سیاسی رائے رکھنے والے لیڈروں کے خلاف بھی استعمال کیا گیا تھا۔ عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجہ میں پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا لیکن ان کے بعد منتخب ہوکر آنے والی دونوں حکومتوں نے جو بالترتیب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں تھیں ، ایک آمر کے بنائے ہوئے اس قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی تاکہ موقع ملتے ہی اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ یہ بھی وقت کی ستم ظریفی ہے کہ اس وقت انہی دونوں جماعتوں کی اعلیٰ ترین قیادت اسی قانون کے تحت مقدمات کا سامنا کررہی ہے۔ نواز شریف کو تو دو مقدمات میں سزا بھی ہوچکی ہے۔ نواز شریف کے علاوہ آصف علی زرداری نے بھی طبی بنیادوں پر ضمانت حاصل کی ہے۔
یہ واقعہ بھی عبرت ناک اور حالات کی بدترین ستم ظریفی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پرویز مشرف نے اقتدار کے آخری برس میں این آر او یعنی قومی مصالحتی آرڈی ننس کے ذریعے بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی معاہدہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس قانون کے تحت ہزاروں مقدمات ختم کئے گئے تھے۔ بعد میں اس وقت کے سیاسی لحاظ سے فعال چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں اس آرڈی ننس کو منسوخ کردیا تھا۔ تاہم پرویز مشرف کی طرف سے این آر او پر اتفاق کرنا یہ واضح کرتا تھا کہ انہوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے ملکی قوانین کے تحت قائم کئے گئے مقدمات ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس حکم سے یہ بات بھی صاف ہوگئی تھی کہ ملکی قوانین اور خاص طور سے احتساب قوانین کو سیاسی مخالفین کو ساتھ ملانے یا عبرت کا نشان بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ صورت حال اب تک تبدیل نہیں ہوسکی ہے۔
ملک میں عام طور سے پرویز مشرف کے احتساب آرڈی ننس اور اس پر عمل درآمد کے طریقہ کے بارے میں یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس قانون اور ادارے کو سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہاہے۔ جو سیاسی لیڈر اپنے دور حکومت میں اس قانون میں مناسب ترمیم لاکر ملک میں احتساب کے عمل کو شفاف اور مؤثر بنانے میں ناکام رہے تھے ، اب اس کی تپش محسوس کرتے ہوئے اس قانون کے خاتمہ یا اس میں دوررس تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اور تحریک انصاف نے مسلسل یہ اعلان کیا ہے کہ بلاتخصیص احتساب ہی ان کی پالیسی کی بنیاد ہے۔ عمران خان نے اس گمان کو حقیقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ سب سابقہ حکمران بدعنوان تھے اور قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک اپنی جائیدادیں بنا چکے ہیں۔ اسی لئے وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘۔
عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک بڑے زور شور سے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ کسی کو ’ این آر او‘ نہیں دیں گے۔ اگرچہ مشرف کا این آر او ایک مردہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے قانون سے معافی کے اس طریقہ کو مسترد کئے جانے کے بعد اس قسم کے کسی دوسرے قانون کو متعارف کروانے کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتاہے۔ لیکن عمران خان نے سب کا بے رحم احتساب کا نعرہ لگاتے ہوئے این آر او نہ دینے کو سیاسی نعرے میں تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ ان کے حامی اور تحریک انصاف کا بنیادی ووٹر اب تک یہی سمجھتا ہے کہ عمران خان دیانت دار ہیں اور کسی بد دیانت کو برداشت نہیں کریں گے۔ اس لئے جب وہ اپنے خطابات کے دوران یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ’میرے سیاسی مخالفین میرے منہ سے تین حرف (این آار او) سننا چاہتے ہیں لیکن میں کسی کو معاف نہیں کروں گا‘ تو اس پر جوش و خروش دیکھنے میں آتاہے۔ اس بیان کی سطحیت کے باوجود یہ عمران خان کا سیاسی طرہ امتیاز بن گیا اور ان کے حامیوں کے لئے اس اطمینان کا سبب تھا کہ ملکی حالات خواہ خراب ہیں لیکن کم از کم حکومت سب کا احتساب تو کررہی ہے۔ نئے احتساب آرڈی ننس نے اس تصور کی بنیادو ں کو مسمار کردیا ہے۔ احتساب بیورو کو بے اختیار کرکے عمران خان کی حکومت نے دراصل ملک کے دولت مندوں اور بیورو کریسی کو براہ راست عام معافی دینے کا اعلان کیا ہے۔
کسی چور لٹیرے کو معاف نہ کرنے کے دعوؤں کو سب سے پہلا دھچکہ اس وقت لگا جب حکومت کو گزشتہ ماہ نہ چاہتے ہوئے بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینا پڑی۔ اس خفت کو مٹانے کے لئے کابینہ نے نواز شریف سے حدیبیہ پیپر مل کیس میں عائد ہونے والے جرمانے کے مساوی رقم کی مالی ضمانت لینے کی کوشش کی لیکن لاہور ہائی کورٹ نے اس طریقہ کو خلاف قاعدہ قرار دیا اور نواز شریف کسی قسم کی ’ضمانت‘ دیے بغیر ملک سے باہر روانہ ہوگئے۔ نواز شریف چونکہ ایک مقدمہ میں سزا یافتہ تھے اور عمران خان کا خاص نشانہ بھی تھے، اس لئے ان کی رہائی اور بیرون ملک روانگی سے حکومت اور عمران خان کے احتساب کے دعوؤں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ حکومت نے اس کا الزام عدالتوں کو دینے کی کوشش کی لیکن وہ اس میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکی۔
گزشتہ روز کراچی میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے نئے احتساب آرڈی ننس کا اعلان کیا اور کہا کہ اب ان تاجروں اور صنعتکاروں کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جن کے معاملات نیب کے پاس زیر غور ہیں۔ اب نیب سے نجی افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار واپس لیا جارہا ہے۔ بعد ازاں اس آرڈی ننس کی تفصیل سامنے آنے کے بعد واضح ہؤا کہ نیب کو سرکاری ملازمین کے حوالے سے بھی ’بے ضرر اور بے اختیار ‘ بنادیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی مشتبہ کو ریمانڈ میں رکھنے کی مدت نوے روز سے پندرہ روز کردی گئی ہے۔ نئی ترمیم کے تحت سب سے اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اب مشتبہ شخص کو اپنی بے گناہی ثابت نہیں کرنا پڑے گی بلکہ استغاثہ کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ الزامات ثابت کرے۔ حتی کہ نیب کے چئیرمین نہ تو پراسیکیوٹر جنرل مقررکرسکیں گے اور نہ ہی زیر تفتیش معاملات پر بیان دے سکیں گے۔ حکومت نے اہم معاملات طے کرنے کے لئے اختیارات چئیرمین نیب سے لے کر ایک سکروٹنی کمیٹی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی اب ایک نام نہاد خود مختار ادارے کا آئینی سربراہ آزادی اور مرضی سے فیصلے کرنے کی بجائے متعدد بیوروکریٹس یعنی حکومت کے کارپردازوں کی اجازت کا محتاج ہوگا۔
سکروٹنی کمیٹی کو چئیرمین نیب کی ’نگرانی‘ پر مقرر کرکے دراصل نیب کی خود مختاری کو ختم کیا گیاہے۔ گو کہ اس سے پہلے بھی نیب حکومت وقت کے اشاروں پر کارروائی کرنے کے لئے مشہور تھا۔ اسی لئے اس وقت حکومت مخالف سارے سیاست دان نیب زدہ ہیں۔ کچھ حراست میں ہیں، باقی ضمانتوں پر رہا ہیں لیکن مقدمے یا تفتیش بھگت رہے ہیں۔ نئی ترمیم کے بعد نیب کی کاغذی خود مختاری بھی ختم کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر معاملات میں ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر سرکاری محکموں کو اختیار دے کر دراصل احتساب کے عمل کو ایک پارٹی یا حکمرانوں کی مرضی کا براہ راست تابع کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ترمیم کا ایک مقصد حکومت میں شامل لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا اور خیبر پختون خوا کے ایسے منصوبوں کو نیب کے چنگل سے بچانا تھا جن میں اربوں روپے کی بے قاعدگی کی رپورٹیں سامنے آتی رہی ہیں۔
عمران خان نے احتساب ترمیمی آرڈیننس کے ذریعے اپنے ساتھیوں اور معاشرے کے اہم طبقوں کو این آر او دینے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں احتساب کے نظام پر حکومتی اختیار کو یقینی بنا کر واضح کیا ہے کہ اب احتساب کے ذریعے ملکی سیاست کو سرکاری کنٹرول میں لایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments