یہ جاہل ناشکرے عجیب و غریب


بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں جن آٹھ لاکھ سے زائد جعلی غریبوں کا پتہ چلایا گیا ہے یہ اقدام قابلِ تحسین ہے۔ اب میں منتظر ہوں کہ خالی ہونے والی آٹھ لاکھ آسامیاں اتنی ہی تعداد میں جینوئن غریبوں سے بھی جلد از جلد بھری جائیں۔

اور پھر میں ایک دن یہ خبر بھی سننا چاہوں گا کہ اس انکم سپورٹ پروگرام میں مستحقین کی تعداد کم ہوتے ہوتے لاکھوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے سیکڑوں میں پہنچ گئی ہے کیونکہ زیادہ تر مستحقین خطِ غربت سے نکل کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ جب یہ دن آجائے گا اس دن بے نظیر بھٹو نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اس کا ایک حصہ پورا ہو جائے گا۔

مگر مجھے یہ خواب اپنی زندگی میں پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ کیونکہ نہ ہی حکومت غربت کی جڑ کو پکڑ پا رہی ہے اور نہ ہی غریب لوگ امیری کے عذاب کی شد بد رکھتے ہیں۔

حکومت کی نیت پر کوئی شبہ نہیں مگر شبہ تو شیخ چلی پر بھی نہیں تھا جب وہ اپنی مرغی کے انڈے گن گن کر تصور ہی تصور میں اپنے دلدر دور کرتے کرتے گذر گئے۔

موجودہ ’’گھبرانا نہیں فیم‘‘ حکومت کا بھی یہی خیال ہے کہ دو بڑوں اور دو بچوں پر مشتمل ایک اوسط خاندان فی زمانہ بیس ہزار روپے ماہانہ سے کم میں گذارہ کرسکتا ہے۔ اسی لیے کم ازکم تنخواہ کی قانونی حد سترہ سے اٹھارہ ہزار روپے ہے اور اس کا اطلاق کاغذ کی حد تک تمام سرکاری و نجی اداروں کے کارکنوں پر ہے۔

میں کوئی سرکاری کارندہ نہیں ہوں پھر بھی دخل درمعقولات کے قومی جذبے کے تحت محسوس کرتا ہوں کہ ایک چار رکنی خاندان حکومت کی مقرر کردہ سترہ تا اٹھارہ ہزار روپے کی کم ازکم قانونی اجرت کے ساتھ آئین کے تحت وعدہ کردہ باعزت زندگی گذار سکتا ہے بشرطیکہ وہ حرص و طمع سے تائب ہو جائے۔

ویسے بھی رازق اللہ تعالی ہے اس لیے بنیادی ضروریات کا معاملہ بھی غریب اور خدا کا باہمی معاملہ ٹھہرا۔ حکومت کو اس دوطرفہ معاملے میں خواہ مخواہ گھسیٹنا مناسب بات نہیں۔ اسے اور بہت سے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں اور یہ کوئی غیر حکومت تو ہے نہیں۔ کروڑوں کنگلے بھی تو آخر اسے منتخب کرنے میں ملوث ہیں۔

میں اس کج بحثی میں نہیں پڑنا چاہتا کہ چار رکنی خاندان کو باعزت جینے کے لیے ماہانہ کم ازکم کتنے ، اتنے ، وتنے پیسے چاہئیں۔ پیسے جتنے بھی ہوں کم ہی لگتے ہیں اور پیسہ تو ویسے بھی ہاتھ کا میل ہے۔ غریب کو جتنے زیادہ ملیں گے اس کے ہاتھ اتنے ہی میلے ہوں گے اور یہ تو ہر امیر غریب جانتا ہے کہ میلے ہاتھ جراثیم کا گھر ہوتے ہیں۔

میرے ایک تاجر دوست کا کہنا ہے کہ یار مجھے سخت کوفت ہوتی ہے جب کسی غریب کو برگر کھاتے دیکھتا ہوں۔ چل اب تو نے موج میں آ کر عیاشی کر ہی لی تو پھر برگر ہضم کرنے کے لیے پیدل گھر جا۔ مگر نہیں صاحب ! وہ ویگن اور چنگ چی میں بیٹھ کر مزید بیس روپے ضایع کرے گا اور گالیاں امیروں اور حکومت کو دے گا۔

غریبوں کو بنیادی خوراک کے لیے آخر کتنے پیسے چاہییں ؟ اسی دنیا کے اربوں درند چرند پرند اپنی خوراک پر آخر کتنے پیسے خرچ کرتے ہیں ؟ کیا آپ نے گھوڑے کو چائے پیتے اور وہ بھی میٹھی چائے ، بلی کو تندور سے روٹی خریدتے، کنکھجورے کو مہنگے ٹماٹر کا بھاؤ تاؤ کرتے، اژدھے کو فروٹ کھاتے ، مگر مچھ کو گھی یا تیل کا ڈبہ پکڑے ، ریچھ کو آٹے کی قطار میں لگتے یا لومڑی کو روٹی پکانے کے لیے گیس کا انتظار کرتے یا گئیا ماں کو اپنے بچھڑے کو ٹیٹرا پیک دودھ پلاتے کبھی دیکھا ؟

کتنے طوطوں کو آپ نے ملازمت کی درخواست کے ساتھ گردن سے پکڑا ہے۔ کتنی شیرنیاں اپنے شوہروں کو طعنے دیتی پائی گئی ہیں کہ آخر تو گھر میں پڑا پڑا سارا دن کیا کرتا رہتا ہے کوئی ڈھنگ کی نوکری کے لیے کسی سفید ہاتھی کی سفارش کیوں نہیں ڈھونڈتا۔ پڑوس کے چیتے کے ہاں تو شکار کا گوشت رکھنے کے لیے فریج بھی آ گیا اور تیرے پاس جنگل کے حالات جاننے کے لیے موا ٹی وی چھوڑ ایک گھٹیا موبائل فون تک نہیں ؟ آیا کہیں کا عمران خان۔

غریب اگر تیری میری ٹوہ لینے اور کڑھنے میں وقت لگانے کے بجائے درندوں چرندوں پرندوں کے سادہ و باوقار طرزِ حیات پر ہی غور فرما لے تو اس کی آدھی سے زیادہ پریشانیاں اس سمیت ویسے ہی ختم ہوجائیں۔

لو جی غریب کو سر پر چھت بھی چاہیے۔ ذرا غاروں میں رہنے والے کے نخرے تو ملاحظہ فرمائیے۔ سچ ہے انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا۔ اور تو اور بنیادی سترپوشی کے بہانے کپڑے بھی چاہییں اور ایک نہیں سال میں کم ازکم دو دو جوڑے چاہئیں اور وہ بھی ریڈی میڈ یا درزی کے سلے ہوں تو اور اچھا۔ ان کور چشموں کو نہ تو کیلے کے پتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی انجیر کا پتا ( فگ لیف) ٹپائی دیتا ہے۔ ہر سال لاکھوں جانوروں کی قربانی ہوتی ہے۔ غریب جانور کی کھال مانگ تانگ کر اونے پونے بیچ دے گا لیکن آبا واجداد کے اتباع میں کھال سے ستر پوشی کی کبھی ناسوچے گا۔ نا شکری اور کیا ہوتی ہے ؟

اور جب سے بجلی کی علت آئی ہے اس نے غریبوں کا دماغ اور خراب کردیا ہے۔ ارے بھائی تیرے بزرگ لاکھوں برس سے بغیر بجلی کے خوش تھے کہ نہیں ؟ وہ سورج کے ساتھ اٹھتے اور سورج کے ساتھ ہی سوتے تھے۔ لکڑیاں جمع کرکے الاؤ روشن کرلیا اور اسی پر شکار کا مفت اور خالص گوشت بھی بھون لیا۔

کیا ارسطو بجلی کے کنکشن کے لیے کبھی پریشان رہا ؟ کیا سکندر کی میز پر ٹیبل لیمپ تھا ؟ کیا محمد بن قاسم سندھ آتے وقت اونٹ پر جنریٹر لدوا کے لایا تھا۔ کیا شیکسپئیر نے اپنے ڈرامے اے سی میں بیٹھ کر لکھے۔ کیا اکبرِ اعظم نے انارکلی کو سبق سکھانے کے لیے بجلی کے جھٹکے تجویز کیے؟

جناح صاحب نے کیا ٹیوب لائٹ کی چاندنی میں میٹرک کیا ؟ غریب آخر کیوں یہ سامنے کی بات نہیں سمجھتا کہ بلب کی روشنی دراصل تھامس ایڈیسن نامی کسی امریکی کنگلے کا معاشرے سے انتقام ہے۔ خود تو زندگی بھر موم بتی پے گذارہ کرتا رہا اور اگلی نسلوں کو بلب کی لعنت تھما گیا۔ اور اب اتنے دماغ خراب ہوگئے ہیں کہ ہر انگلا کنگلا بجلی کی مسلسل فراہمی کو اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگا ہے۔ یار کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ تم تو ایسی ایسی چیزوں کی فرمائش کر رہے ہو جو خلیفہ ہارون رشید سے نپولین تک کسی کو میسر نہیں تھیں۔

اوہو… صحت کی سہولتیں بھی چاہئیں ہمارے لاڈلے غریب کو۔ فطرت نے جتنی بیماریاں پیدا کی ہیں ان کا علاج بھی جڑی بوٹیوں کی شکل میں دے دیا۔ بلی تک جانتی ہے کہ ہاضمہ خراب ہو تو کون سی گھاس مفید ہے۔ اب آپ اپنے دماغ کو ہی زحمت نہ دیں تو اوپر والا بھی کیا کرے۔

اور جناب اب تو تعلیم بھی غریب کی بنیادی ضرورت ہوگئی۔ کیا واقعی غریبوں کو نہیں لگتا کہ ان کی سب سے بڑی دشمن تعلیم ہے۔ چلو یہ بتاؤ کہ اس دنیا کو ان پڑھ زیادہ لوٹ رہے ہیں یا پڑھے لکھے ؟ کیا ایٹم بم بنانے والا اور پھر اسے جاپان پر گروانے والا انگوٹھا چھاپ تھا ؟ یہ ملک اب جہاں تک آن پہنچا اس میں ان کروڑوں بچوں کا کتنا ہاتھ ہے جو اسکول کو سڑک پر کھڑے کھڑے تکتے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ تعلیم گستاخ بناتی ہے۔ اچھے بھلے جاری نظام میں کیڑے نکالنا سکھاتی ہے۔ بہتر سے بہتر روزگار کے لالچ پر اکساتی ہے۔ بنیادی حقوق کا خناس دماغ میں بھر دیتی ہے۔ یعنی تعلیم انسان کو بے سکون کردیتی ہے۔ اے غریبو اس ناخواندگی وجہالت کو نعمت جانو۔ تمہاری زندگی میں اور عذاب کم ہیں جو اپنے معصوموں کو تعلیم سے بھی آلودہ کرنا چاہتے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments