نور پھیلانے والے مدرسے یا بد فعلی کے اڈے


مانسہرہ کے مدرسے میں پیش آنے والا اندوہناک واقعہ اسلام کے قلعے کا نہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ اس طرح کے سیکڑوں نہیں ہزاروں واقعات آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ کتنے ہی شمس الدین قرآن کا نور پھیلانے کے نام پر ہر روز نحوست اور تاریکی پھیلا رہے ہیں۔ شرعی حلیے کے اندر ایک خونخوار بھیڑیا ہوتا ہے جو ننھی اور معصوم جانوں کے پھول جیسے جسموں کو بھنبھوڑتا، نوچتا اور کاٹتا رہتا ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ دس سال کا معصوم بچہ ایک دیو ہیکل جنسی درندے کی دسترس میں خود کو کس قدر بے بس اور لا چار پاتا ہو گا۔

ایک دو مرتبہ نہیں پانچ سات مرتبہ نہیں بلکہ دین و اسلام کے ان سنگدل ٹھیکیداروں نے سو سے زائد مرتبہ اس معصوم کو اپنی حیوانی و شیطانی ہوس کا نشانہ بنایا اور اگر بچے کی حالت غیر نہ ہوتی تو یہ سلسلہ پتہ نہیں کب تک جاری رہتا اور مولانا صاحب چہرے پر تقدس کا رنگ جمائے، آواز میں زہد و تقو ے کی گھمبیرتا لائے، لب و لہجے میں درد وسوز کا سامان بھر کر اور آنکھوں میں مکاری و ریاکاری کے آنسو بھر کے لوگوں میں اسی طرح دین پھیلاتے رہتے۔

معصوم بچہ اگر اس ننگی درندگی کے بعد جانبر ہو بھی گیا تو کیا نارمل اور بھرپور زندگی گزارنے کے قابل ہو گا؟ کیا اس کی شخصیت مسخ نہیں ہو گئی؟ وہ دوستوں اور ملنے جلنے والوں میں کبھی سر اٹھا کے بیٹھ سکے گا؟ کیا وہ کسی سے آنکھیں ملانے کے قابل ہو گا؟ کیا دوبارہ علم و کتاب کی طرف آ سکے گا؟ قرآن پڑھنے پڑھانے والوں کے بارے میں اس کے دل میں کیسے خیالات و جذبات ہوں گے؟ مسجد و مدرسے کو دیکھ کر اس کا ردعمل کیا ہو گا؟ لمبی عباٶں والے واعظین و ناصحین کے واعظ و نصائح سن کر اس کے دل پر کیا گزرے گی؟

مجھے حیرت نہیں شدید دکھ ہوتا ہے اس معصوم پھول کے والدین پر کہ جنہوں نے اپنی اخروی جنت کمانے کے لالچ میں اس معصوم کی زندگی جہنم بنا دی۔ بچے کی دو روٹیاں ان پر بھاری تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے اسے جیتے جی مار ڈالا۔ مسجد و مدرسوں والوں پر ایسا اندھا ادعتماد بھی کیا کہ سنگدل والد نے پلٹ کر خبر ہی نہیں لی۔ ایسے والدین تو خود تعلیم و تربیت کے محتاج ہوتے ہیں۔ انہیں ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں کو ن بتائے گا کہ ان کی اصل اور اہم ترین ذمہ داریاں تو اولاد پیدا کرنے کے بعد شروع ہوتی ہیں۔

نہ جانے والد محترم کس قدر تنک اور درشت مزاج ہوں گے۔ بچے نے کتنی بار اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں انہیں آگاہ کرنا چاہا ہو گا مگر والد کی سخت مزاجی آڑے آئی ہو گی۔ یہاں ایسے والدین بھی ہیں جو بچوں کی اس قسم کی شکایات پر توجہ دینے کے بجائے ان کے اس اقدام کو مدرسے سے راہ فرار پر منطبق کرتے ہیں۔ کم و بیش ہر مدرسے کی فضا ایسی ہی ہے۔

میرے ایک جاننے والے مولانا صاحب اپنی نگرانی میں مدرسوں کی چین چلاتے ہیں۔ وہ اکثر رات کو اٹھ کر اپنے مدرسین کی نگرانی کرتے ہیں کہ کہیں کسی معلم میں شیطان کی روح تو نہیں جاگ گئی اور کتنے معلمین کو ان کی حرکات و سکنات کی بنا پر فارغ کر چکے ہیں۔

اسی حوالے سے راقم کو ایک دلچسپ مگر سبق آموز واقعہ بھی یاد آ رہا ہے۔ ایک والد کو شکایت موصول ہوئی کہ مدرسے کا ماحول ٹھیک نہیں ہے اور اس کے بچے کے ساتھ چھیڑ خانی ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس نے فوراً بچے کو وہاں سے اٹھا کر کسی دوسرے مدرسے میں داخل کرانے کا پروگرام بنایا۔ جب وہ بچے کو وہاں سے واپس لا رہا تھا تو وہاں کے مہتتم نے یہ معنی خیز جملہ بولا کہ حضرت إ بچے کو جہاں مر ضی لے جائیں مگر ایک بات یاد رکھیں کہ ”نصاب“ ہر جگہ ایک ہی ہے۔

ایسے دلدوز اور خوفناک واقعات کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ آج تک ایسے کسی درندہ صفت مولوی کوکیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ مانسہرہ والا شیطان پکڑا تو گیا ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ جدید ریاست مدینہ میں جلد ہی چھوٹ بھی جائے گا کیونکہ جس ریاست مدینہ میں حریم شاہ، وینا ملک، صندل خٹک، مہوش حیات اور مراد سعید جیسے کرداروں کی اجارہ داری ہو اور پی ایم ہاٶس کے فورتھ فلور پر ہمہ وقت فحاشی و عریانی اور رقص و سرود کی محافل برپا ہوں وہاں ایسے واقعات کی روک تھام اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینا محال ہوتاہے۔

اب تو اس حمام میں سفید بالوں والے بابوں سے بابٶوں تک سب ننگے ہیں۔ ایسی ایسی ویڈیوز منظر عام پر آ رہی ہیں کہ محمد شاہ رنگیلا کا دور کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس حکومت نے بڑی محنت اور کوشش سے یہ لُچر کلچر فروغ دیا ہے۔ ایسے میں مولوی شمس الدین جیسے درندہ صفت کرداروں کو کوئی خطرہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments