کرپشن کی بہتی گنگا اور ترقی کا فریب


کرپشن کی بہتی گنگا اور ترقی کا فریب زوالفقار خان دنیا بھر میں حکمران طبقے کی لوٹ مار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دلوں میں ہوس زر کے دہکتے الاؤ روشن کیے، اقتدار کی چوکھٹ پر پیشانیاں رگڑ رگڑ کر لہولہان کرلینے والے ہر ملک اور ہر خطے میں موجود ہیں ۔ پہلے ابلاغ عامہ کے ذرائع محدود تھے تو اس لیے یہ کہانیاں زیادہ عام نہیں ہوتی تھیں یا بہت دیر بعد عام ہوتی تھیں۔ جب سے ان ذرائع نے خصوصا جب سے ان میں بے رحم کیمروں اور سوشل میڈیا داخل ہوا ہے خواب گاہوں تک کی سرگوشیاں کوبہ کو گونجنے لگی ہیں۔

امریکہ، فرانس، برطانیہ سے لے کر بھارت، پاکستان، نایجیریا اور سوڈان تک مقتدر لوگ پکڑے جاچکے ہیں اور سزایاب بھی ہوے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اول تو سیاستدان کو سزا ہوتی نہیں اور اگر ہو بھی جاے تو تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدان اس سزا کو بھی اپنے سیاسی فاہدے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے۔ جس میڈیا کی وجہ سے اس کی کرپشن بے نقاب ہوتی ہے وہ اسی میڈیا کہ ذریعے الفاظ اور ہندسوں کا ایسا گورکھ دھندہ شروع کرتا ہے کہ جو عام عوام کی سمجھ سے ہی بالاتر ہوتا ہے اور اصل بات کہیں اور رہ جاتی ہے۔

کرپشن ایک عالمی ناسور ہے جو ہر سو پھیلا ہوا ہے بلکہ تمام تر انسدادی تدبیروں کے باوجود پھلتا ہی جارہا ہے۔ اس سے ریاست کا شاید ہی کوئی ستون محفوظ ہو نہ مقننہ، نہ انتظامیہ اور نہ عدلیہ، صحافت کے شعبے میں بھی لفافوں اور بیش قیمت تحفوں کے قصے اور بازگشتیں آے دن سنائی دیتی رہتی ہیں۔ درحقیقت موقع ہی وہ بہتی گنگا ہے جس میں ہر موقع پرست موقع ملنے پر حسب توفیق اپنے ہاتھ دھو لیتا ہے اور بعض تو ڈبکی لگا کر باقاعدہ ”گنگا اشنان“ ہی کرلیتے ہیں۔

لکین ستم ظریفی یہ ہے کہ اقتدار ہر ملک میں ساستدانوں کے قبضے میں ہوتا ہے۔ درحقیقت وہی اپنے ملک اور قوم کا چہرہ ہوتے ہیں۔ اس لیے پکڑے جانے پر وہی سب سے زیادہ بدنام اور بدنہاد قرار پاتے ہیں۔ پرانی کہاوت ہے کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کرتی ہے۔ اسی طرح ایک بدنیت اور بدقماش سیاستدان اپنی پوری برادراری کی زلت و رسواہی کا سبب بنتا ہے اور اس کی اڑائی ہوئی کیچڑ سے پارساوں کے دامن بھی آلودہ ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف اربوں کے سودے بیچنے اور کھربوں کے ٹھیکے حاصل کرنے والے شہرہ آفاق ادارے کروڑوں اور اربوں کے نذرانے طشتریوں میں لیے ان زرپرستوں کے آگے پیچھے منڈلاتے رہتے ہیں اور انہیں تحریض و ترغیب کے جال میں پھانس لیتے ہیں، عوام کے ٹیکسوں کو لوٹا جاتا ہے۔ پہلے سے ننگوں اور بھوکوں کا لہو چوسا جاتا ہے۔ وہ ماچس سے لنگوٹی تک جو خریدتا ہے اس پر ٹیکس دیتا ہے۔ عوامی اور ملکی ترقی کے نام پر ہر حربے سے مال خزانے میں جمع کیا جاتا ہے اور پھر اس کی بندر بانٹ کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے۔

ستم ظریفی یہ کہ سب کچھ ملکی تعمیر و ترقی کے نام پر کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو سماج افلاس اور جہالت کے درد ناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا کوئی صحت مند خواب نہیں دیکھ سکتا نہ شاہد اس کا حق رکھتا ہو۔ ہم بار بار تعمیر و ترقی کی رٹ لگاتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ تعمیر و ترقی کی باتیں صرف ان اقوام کو زیب دیتی ہیں جو معاشی استحکام اور تعلیمی ترقی کے ایک خاص نقطے تک پہنچ چکی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments