سال 2019 ریاست کھا گیا


سال 2019 آخری ہچکی لے رہا، یوں تو یہ نظام قدرت میں وقت گزرنے کا ایک سلسلہ ہی ہے۔ لمحے، دن، مہینے، سال اور صدیاں آتی ہیں گزر جاتی ہے مگر سال 2019 قضیہ جموں و کشمیر کی 73 سالہ تاریخ میں سب سے اہم مگر بدقسمت ترین سال ثابت ہوا۔ سال 2019 نے ریاست جموں و کشمیر کے باسیوں کو کچھ دیا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے مگر اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جاسکتی کہ سال 2019 نے ریاست جموں و کشمیر کے باسیوں سے ان کی شناخت چھین لی، زبان چھین لی۔ سال 2019 نے آزادی کے بیس کیمپ کی قیادت کا چہرہ بے نقاب کیا، سال 2019 نے ریاست جموں و کشمیر کے وکیل مملکت خداداد پاکستان کی سفارت کاری اور کشمیر پالیسی کا کچا چٹھا بھی کھول کر سامنے رکھ دیا۔

5 اگست 2019 کو جب مودی حکومت نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی سے ریاست کی شناخت پر کاری ضرب لگائی، معاشی طور پر بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر کو تباہ کرنے کی کوشش کی، مواصلاتی نظام بلیک آؤٹ کرکے جموں و کشمیر سے زبان چھیننے کی کوشش کی تو قلم کاری کی دنیا میں مجھ سے پاؤں گھسیٹنے والے طالبعلموں سمیت بڑے بڑے لکھاریوں کی تحریروں کے انبار لگ گئے جن میں 5 اگست کے اقدامات کی شدید مذمت کی گئی اور قضیہ جموں وکشمیر کی نوعیت کے بدلنے، قضیہ کے منطقی انجام تک پہنچنے، پاک، بھارت منی وار سمیت ان گنت پیشنگوئیاں کی گئی میں نے تب بھی جنبش قلم سے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ”کشمیر: داستان ختم ہونے والی ہے“ یہ جذباتی بیانات، احتجاج، ریلیاں، کانفرنسز وغیرہ ایک محدود وقت کے لیے ہیں پھر وہی روٹین بحال ہوجائے گی، وقت کے ساتھ ساتھ سب پرانا ہوجائے گا اور ہوا بھی کچھ یوں کہ

وزیراعظم آزاد کشمیر کی آنکھوں میں لگی آنسو کی جھڑی تھم گئی۔

بیس کیمپ کی قیادت کے قضیہ کشمیر پر سیاسی بیانات کا سلسلہ بھی تھمنے کو ہے۔

جمعہ کو احتجاج کو سردی کھا گئی۔

سیز فائر لائن توڑنے والوں کو موسم کی سختیوں نے پیچھے دھکیل دیا۔

قلم کاروں کے قلم کی سیاہی مانند پڑنے لگی۔

وکیل کی سفارتکاری ذاتی مسائل کی الجھنوں میں ڈوب گئی۔

30 سال تحریک کا مرکز بنے صوبہ کشمیر کو بھارتی قابض افواج نے ایسے محاصرے میں لیا کہ اشیائے خوردونوش کی قلت، زندگی بچانے والی ادوایات کی قلت نے تحریک کو عروج دینے والوں کو خاموش احتجاج تک محدود کردیا۔ 5 اگست کے بھارتی اقدامات پر مقبوضہ جموں و کشمیر عملدرآمد کا سلسلہ بھی جاری ہے اور سال 2019 بھی اب اپنی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔

بیس کیمپ میں کرسی کی جنگ پھر سے زوروں پر ہے اور وکیل ذاتی مسائل میں بری طرح الجھا ہے اور ریاست جموں وکشمیر کے عام باسی کے پاس مودی حکومت کو بددعائیں دینے اور سوشل میڈیا پر واویلا کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

ہاں سال 2019 میں 5 اگست کے بھارتی اقدام کے بعد ایک تبدیلی یہ ضرور نظر آئی کہ صوبہ جموں جسے تحریک سے ہمیشہ الگ رکھا گیا اور گزشتہ کئی دہائیوں سے وہاں خاموشی بھی رہی اسی جموں میں ہلکے قدموں کی آہٹ محسوس ہورہی اور ذرائع کے مطابق کے صوبہ جموں کی سیاسی، مذہبی تنظیموں ایک پلیٹ فارم سے ریاست کی شناخت بچانے کے لیے ہر ممکنہ راستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے، اسی سلسلے میں جموں وکشمیر پیرپنجال پیس فاؤنڈیشن، جموں وکشمیر پیرپنجال سول سوسائٹی، جموں وکشمیر فریٍڈم موومنٹ سمیت دیگر کئی اہم تنظیموں کے قائدین نے عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں صوبہ جموں کا دورہ کیا اور اس دورے میں خوش آئند بات یہ نظر آئی کہ غیر مسلم کمیونٹی نے مسلم کمیونٹی کے اس دورے کو سراہا اور ریاست کی شناخت بچانے کے انہیں بھرپور ساتھ کی یقین دہانی کرائی۔

گزشتہ دنوں جموں و کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے چیئرمین ڈاکٹر نذیر گیلانی سے چند دوستوں کے ہمراہ ملاقات ہوئی تو ان سے قضیہ جموں وکشمیر کی حالیہ نوعیت کے بارے میں اور جموں مسلم کمیونٹی کی عوامی رابطہ مہم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا قضیہ کشمیر کو اس نہج تک پہنچانے کے اصل مجرم ہم ہیں، ہمیں قضیہ کی پیچیدگیوں کا علم ہی نہیں، 56 سال تک اقوام متحدہ میں ہمارے حوالے سے بات نہ ہوسکی اور ہم خاموش رہے، جموں کو تحریک سے الگ رکھنے کا یہ نقصان ہے کہ ہم نے 5 اگست کا دن دیکھا، لاکھوں کشمیری شہید ہوگئے، جنگ اکیلے نہیں جیتی جاسکتی، ہمارے ہاں پرچیوں پر لیڈر بننے کا شوق بہت پروان چڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا جموں میں اس طرح کی موومنٹ خوش آئند اور عوامی ڈپلومیسی ہی منزل کی طرف جانے کا راستہ بتاتی ہے۔

خیر یہ تو جموں کے حوالے سے جو تبدیلی نظر آرہی وہاں تک بات تھی لیکن ہماری کہانی وہیں کی وہیں ہے نہ ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل ہے اور نہ قیادت، ہم بے حسی کے عروج پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2019 ریاست کھا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments