نواز نیازی، زرداری، مریم، بلاول ایک پیج پر


ن لیگ کے ایکسٹینشن کے حق میں ووٹ دینے کے فیصلے پر تین طرح کے ردعمل سامنے آ رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کے مشہور بیانیے سے نہ صرف رجوع کر لیا ہے بلکہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا یو ٹرن لیا ہے۔ بلا شبہ یہ فیصلہ ملک کی جمہوریت پسند اور سول بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ اگر سول بالادستی کا نعرہ لگاتے ہوئے عوام کے حق حکمرانی کی خاطر اقتدار، عزت، دولت، شہرت، ساکھ اور صحت بلکہ متاع جان کو داٶ پر لگانا ہی تھا تو اس وقت چودھری نثار کی بات ماننے میں کیا حرج تھی؟

وزیر داخلہ بریگیڈئر اعجاز شاہ کے اس انکشاف کے بعد کہ اگر نواز شریف اسٹیبشلمنٹ سے پنگا نہ لیتے تو چوتھی بار وزارت عظمٰی کا منصب سنبھال لیتے ; کس کو شک رہ گیا ہے کہ نواز شریف کے خلاف بننے والے تمام کیسز اور آنے والے کل فیصلے سیاسی اور انتقامی تھے۔ یہی وہ پر جوش بیانیہ تھا جسے لے کر نواز شریف 2017 میں اسلام آباد سے نکلے تھے اور پھر لاہور تک آتے آتے اس بیانیے کی ننھی منی چنگاری شعلہٕ جوالہ میں بدل چکی تھی۔

یہ بھی سب جانتے ہیں کہ نواز شریف نے یہ سلگتا ہوا سوال کس سے بتکرار پوچھا تھا کہ ”مجھے کیوں نکالا“؟ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ن لیگ و نواز شریف کے خیال میں ان کے خلاف پانامہ کا ہّوا کھڑا کر کے اقامہ پر انہیں تا حیات نا اہل کر کے ملک کی ترقی اور معاشی خوشحالی کے سفر کو ترقیٕ معکوس کے قعر مذلت میں گرانے کے ذمہ دار جنرل باجوہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور سیاہ کو باجوہ ڈاکٹرائن سے تعبیر کیا گیا۔ اب جب پارلیمنٹ میں جنرل باجوہ سے بدلا لینے اور آرمی بالادستی کے مقابلے میں سول بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کے حق میں ووٹ ڈالنے کا وقت آیا تو نادانوں نے عمران کے ہاتھ سے برش لے کر اپنے بیانیے کا بیڑا غرق اور کارکنوں اور حامیوں کو مایوس کردیا۔ ن لیگ کو بل کے حق میں ووٹ دینے سے قبل لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ آج وہ جنرل باجوہ یکسر بدل گئے ہیں جنہوں نے سابق حکومت کا حشر نشر کر کے تاریخ کی بدترین دھاندلی کر کے ایک نا اہل حکومت کو لا کر ملک میں افراتفری، سیاسی عدم استحکام اور سیاسی انتقام کا سلسلہ شروع کیا؟

دوسرا نقطہٕ نظر اس کے بر خلاف یہ ہے کہ آج اگر آرمی چیف کو اپنی ایکسٹینشن کے لیے پارلیمان کے ووٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے تو یہ نواز شریف اور ن لیگ کے بیانیے کی فتح ہے۔ آج طاقت کے وہ سر چشمے بھی ووٹ کے محتاج ہیں جو ملک کے مقدس آئین کو پھاڑ کر بوٹوں تلے روندا کرتے تھے۔ انہیں ان سیاستدانوں کے ووٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے جنہیں وہ کبھی کتے سے تشبیہ دے کر اپنے آگے پیچھے دم ہلا کر پھرنے کا طعنہ دیتے تھے۔ نیز یہ کہ بل کے حق میں ووٹ دینا مقتدر طاقتوں کے آگے ہتھیار ڈالنا نہیں بلکہ سول بالادستی کی طویل اور پر خطر سفر کے دوران آنے والا ایک نا پسندیدہ اور کریہ مرحلہ یا پڑاٶ ہے، منزل نہیں ہے۔ یہ امر نظریہ پر نظریہٕ ضرورت ترجیح دینا ہر گز نہیں بلکہ نظریہٕ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کا کامیاب مرحلہ ہے۔

تیسرا نقطہٕ نظر شاید زیادہ حقیقت پسندانہ اور صائب ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول بالادستی کا سورج طلوع ہونے میں ابھی بہت وقت باقی ہے۔ یہاں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں اسٹیبلشمنٹ ہی ہو گی۔ حق حکمرانی عوام کو کبھی نہیں مل سکتا۔ نواز شریف، زرداری، بلاول، مریم اور ووٹ کی تکریم کے تمام دعویداروں نے زمینی حقائق کو تسلیم کر لیا ہے۔ مقتدرہ کو چیلنج کرنے کا بھاری پتھر اٹھانے کا کسی میں حوصلہ نہیں۔ دیوار سے سر ٹکرانے سے لہولہان سر ہوتا ہے دیوار کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پارلیمان میں معمولی باتوں پر لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے کی سات پشتوں کو رنگنے والے آج جادو کی چھڑی کے اشارے پر فرمانبردار اور مہذب بچے بن گئے ہیں۔ سب جمہوریت پسند ایک وردی پوش ہتھیار بند طاقتور کی ذاتی خواہش کو قانون بنانے کے لیے مضطرب ہیں۔ انا کی جنگ پہلے ہی مرحلے میں اسٹیبلشمنٹ نے جیت لی ہے۔ وردی والوں نے بچہ جمہورے کو وہ دھوبی پٹخا دیا ہے کہ آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔ نواز شریف نے ہماری آنکھوں کو سہانے خواب دکھا کر ان میں مرچیں ڈال دی ہیں۔ نواز شریف خود بھی برباد ہو گیا اور جمہوریت پسندوں کے حوصلوں کو بھی شل کر گیا۔ سول بالادستی کی اس جدوجہد میں اگر کوئی مرد درویش مقتدرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمٰن ہے۔ بے شمار سیاسی و نظریاتی اختلاف کے باؤ جود میں اسے سلام پیش کرتا ہوں۔

نواز شریف کو چاہیے کہ وہ سول بالادستی کی جنگ میں ہتھیار ڈالنے سے قبل جمہوریت پسندوں کو یہ بتادیں کہ وہ 2017 میں درست تھے یا آج درست ہیں؟ جس شخص پر آپ نے ملک کی جمہوریت اغوا کرنے، اداروں کو تباہ کرنے، سیاسی انتقام کی سرپرستی کرنے، ملک کو ترقی کے راستے سے ہٹانے، سلیکٹڈ حکومت کو لانے، ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرنے، سی پیک کو رول بیک کرنے، چین کے اعتماد کو پاش پاش کرکے امریکہ اور بھارت کی بالا دستی قبول کرنے، کشمیر کا سودا لگانے، عدل و انصاف کا جنازہ نکالنے، سفارت کاری کے محاذ پر ذلت آمیز ہزیمت دکھانے اور ووٹ چوری کے الزامات لگائے اس کے حق میں ووٹ دے کر مزید تین سال تک اسے ملک پر مسلط کرنے کے فیصلے کے پسِ پردہ کیا مبجوریاں ہیں؟

یہ ناممکن ہے کہ نواز شریف بھی عمران نیازی کی طرح دونوں موقعوں پر ٹھیک ہوں۔ یو ٹرن سے پہلے بھی اور یو ٹرن کے بعد بھی۔ پارلیمان میں ایک سلگتے ہوئے قومی مسئلے پر آئین سازی کے وقت محکمہٕ دفاع کے سپہ سالار کے اقتدار و اختیار کے تسلسل کی برہنہ خواہش کے خلاف ووٹ دینا فوج کے پورے ادارے کی بے عزتی اور اسے متنازع بنانا کیسے ہو گیا؟ پھر تو آپ جنرل مشرف کے خلاف بھی آرٹیکل سکس کے تحت کارروائی نہ کرتے۔ اگر توسیع پسند جنرل کی اختیار کی بے لگام خواہشات کے آگے بند باندھنے کی کوشش ملک دشمنی، غداری، فوج دشمنی اور بے حمیّتی ہے تو لگے ہاتھوں ایک ہی بار آئین میں ترمیم کر کے اس محکمے کے تمام لوگوں کو مقدس کا گائے کا درجہ دے کر انہیں آئین و قانون سے ماورا قرار دے دیا جائے۔

میاں نواز شریف کی جمہوریت کی بحالی اور ووٹ کے وقار کے لیے کی جانے والی جدوجہد اپنی جگہ مگر عصر کے وقت روزہ توڑنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اب جب جمہوریت کے لیے وقت قیام آیا ہے تو آپ مقتدرہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو کر ہمیں ارزاں قسم کے لولی پاپ دے رہے ہیں؟ کل کو اگر آپ دوبارہ حکومت بنا بھی لیتے ہیں تو کون یقین کرے گا کہ یہ اقتدار ڈیل کا شاخسانہ نہیں ہے؟ نواز شریف کی آمریت کے خلاف مستقل مزاجی آج اس سطحی مقام پر آچکی ہے کہ بل کی منظوری میں کسی ”جلد بازی“ کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

اور جلد بازی کا پیمانہ شاید یہ ہے کہ بل چوبیس گھنٹے میں ہی منظور نہ ہونے پائے۔ آمریت کے خلاف بھرپور ”مزاحمت“ کی ادا کاری کم ازکم 72 گھنٹے تو چلے۔ دوسری طرف آمریت کی سیاہ رات کے خلاف اپنی جان والے ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے سیاسی وارث کو شکوہ یہ نہیں کہ نواز لیگ نے ووٹ دینے کی غیر مشروط حامی کیوں بھری شکایت فقط یہ ہے کہ ن والوں نے یہ فدویانہ اور برخوردارانہ نیاز مندی ان سے مشاورت کے بغیر کیوں دکھائی اور پی پی پر اس سلسلے میں بازی کیسے لے گئے؟ آج پاکستان پچاس سال پیچھے چلا گیا۔ مجھے کہنے دیجیے کہ ن لیگ اور پی پی کا یہ فیصلہ سقوط ڈھاکہ سے بڑا سانحہ ہے۔ جمہوریت ہو تو ایسی کہ جہاں نواز، نیازی اور زرداری ایک پیج پر جلوہ آرا ہیں۔ ”تیری“ سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments