غلام عباس کا جواری اور نمبردار کا نیلا


غالب نے عجب طرفہ طبیعت پائی تھی۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ واقعہ سخت ہے اور جان عزیز، چنانچہ تاب لاتے ہی بنے گی۔ دوسری طرف کہتے ہیں ، دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں۔ چھوڑیئے بھائی، دلی کے کوچہ قاسم جان میں رہنے والے اسد اللہ خان کو کبھی اقلیم،حریم، تکریم اور ترمیم کی گھاٹیوں سے واسطہ پڑا تھا؟ ہمارے دکھ کا بیان تو ڈلہوزی میں پیدا ہونے والے عدیم ہاشمی کے حصے میں آیا۔ آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر۔ آخر ہوا کیا ہے؟ یہی تو ملال ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ صدیق سالک نے لکھا تھا۔ ’ڈھاکہ یوں چپ چاپ سو گیا جیسے اچانک حرکت قلب بند ہو گئی ہو۔ وہاں کوئی ہاؤہو نہ ہوئی، کوئی مار کٹائی نہ ہوئی، سنگاپور، پیرس یا برلن کے سقوط کی کوئی کہانی نہ دہرائی گئی۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈھاکہ غلامی میں ڈوب گیا۔‘ ہتھیار ڈالنے کے لئے ریس کورس میدان کا اہتمام ضروری نہیں۔ قومے فروختند تو شہر پناہ کے دروازوں پر منعقد ہونے والی ایک رسم ہے، قوموں کا دفاع ضمیر کی تنہائی میں کیا جاتا ہے۔ جنہیں لڑنا ہو، وہ خالی ہاتھ لڑ لیتے ہیں، جنہیں ہارنا ہو، وہ سینٹ کا انتخاب جیت لیتے ہیں۔ جو ضمیر کا کانٹا نکال پھینکتے ہیں، وہ توپ کاپی کی اونچی فصیلوں کی اوٹ میں کاتک کے کپکپاتے چاند تلے پیچ کھاتی دھند کی مانند آنکھ اوجھل ہو جاتے ہیں۔ جنہیں قوم کی لاج رکھنی ہو، وہ 20 جون 1789ء کی سہ پہر ٹینس کورٹ کے احاطے میں حلف اٹھاتے ہیں کہ آئین کی بالادستی قائم ہونے تک ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے رہیں گے۔

ہماری روایت ہے کہ دکھ کی کاٹ زیادہ ہو تو اسے دیر تک آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھا جاتا، بیوہ کا سکتہ توڑنے کے لئے اس کی گود میں شیر خوار بچہ ڈال دیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے آسٹرین مصور مورٹز فان شونڈ (Mortiz Van Schwind) کی پینٹنگ ’قیدی کا خواب‘ تو آپ کو یاد ہو گی؟ کالم نگار کے بس میں ہے ہی کیا؟ ادھر ادھر کی حکایات اٹھا کے اس امید پر پڑھنے والوں کی جھولی میں ڈال دیتا ہے کہ یہ بالشتیا فرشتے ایک دوسرے کے کندھوں پر پاؤں دھرتے ایک روز بندی خانے کے اس اونچے روزن تک جا پہنچیں گے جہاں سے ایک نئے دن کا سورج طلوع ہوتے دیکھا جا سکے گا۔

وزیر مملکت علی محمد خان فرماتے ہیں کہ عمران خان پر ہنسنے والوں پر تقدیر ہنس رہی ہے۔ علی محمد خان بھلے آدمی ہیں۔ پرہیز گاری کی شہرت رکھتے ہیں۔ مسلم تاریخ تو پڑھ رکھی ہو گی۔ جبر و اختیار کے رموز سے شناسا ہوں گے۔ مورخ لکھتا ہے کہ مولا علی مرتضیٰ پر زہر آلود خنجر سے حملہ آور ہونے والا ابن ملجم ایک بڑھیا کے صحن میں جا چھپا۔ بڑھیا نے دیکھ لیا۔ دن کا اجالا پھیلا تو ابن ملجم سے مخاطب ہو کر بولی، اب صبح تری تضحیک کرے گی۔ اردو کے ایک مترجم نے اس کا ترجمہ کیا۔ اب صبح تجھ پر ہنسی۔ استاذی داؤد رہبر اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ لغت میں دونوں مفاہیم موجود ہیں لیکن سہ حرفی مادہ ضحک تو ایک ہی ہے۔ ستم ظریف مترجم مفہوم کی نشست نہیں سمجھتا تھا۔ وہ غریب تو مترجم تھا، یہاں مملکت کے وزیر ہنسنے کی نشست اور تضحیک کے امکان کا ادراک نہیں رکھتے۔

اہتزاز اور خجالت میں خط امتیاز جاننے کے لئے غلام عباس کا افسانہ ’جواری‘ پڑھیے۔ جوئے کی پھڑ چلانے والے ایک پختہ کار بدقماش نکو کے ٹھکانے پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے۔ گرفتار ہونے والے بہت سے سفید پوش اڈا چلانے والے کو کوس رہے ہیں جو انہیں تسلی دیتا ہے کہ تھانیدار اس کا قدیمی شناسا ہے اور کسی کی ناموس پر حرف نہیں آئے گا۔ قصہ کوتاہ، یہ سب معززین حوالات میں برہنہ تن کفش کاری کی آزمائش سے گزر کر نہایت پژمردہ حالت میں برآمد ہوتے ہیں۔ ادھر تھانے کچہری کی دھوپ چھاؤں سے آشنا جواری نکو ہنستے ہنستے دوہرا ہو رہا ہے، ’کیوں دیکھا! نہ چالان، نہ مقدمہ، نہ قید، نہ جرمانہ۔ میں نہ کہتا تھا، اسے مذاق ہی سمجھو!‘۔ یہ تو رہا ان پرندوں کی تڑپ کا احوال جن کے پاؤں میں رشتے کا دھاگہ بندھا ہے۔ طپیدن رگ مرغان رشتہ بر پا را۔ اب اگر بام حرم کے خوش رنگ کبوتروں کا مآل جاننا ہو تو سید محمد اشرف کی کہانی ’نمبردار کا نیلا‘ پڑھیے۔ ایک زور آور کی حکایت ہے جس نے ایک نیلا پال رکھا تھا۔ گاؤں والوں کی مجال نہیں تھی کہ نمبردار کے لاڈلے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکیں۔ غریب گاؤں والوں کی کھیتی اجاڑتے اجاڑتے نیلے کا حوصلہ ایسا بڑھا کہ نمبردار کی حویلی کے دروازوں تک پہنچ گیا۔ اس کہانی کا اختتام اچھا نہیں ہے لیکن درویش کی درخواست ہے کہ آپ یہ کہانی ضرور پڑھیے، یہ سوچنے کے لئے کہ اس کہانی کا کوئی خوشگوار انجام ہو سکتا تھا؟ گاؤں والوں کے احترام کی لڑائی سیاست ہے۔ اور نیلے کی چیرہ دستیاں استبداد کے کرشمے ہیں۔ گھبرائیے نہ دیکھ کے پیدل گھرا ہوا۔

3 مارچ 1953 کو فرقہ ورانہ فسادات میں ایک مشتعل ہجوم نے مسلم لیگ سیالکوٹ کے صدر خواجہ صفدر کو آ لیا۔ طفلان گلی کوچہ کی ہنگامہ آرائی سے مگر خواجہ مرحوم کی توقیر کم نہیں ہوئی۔ یہ حادثہ تو دسمبر 1981 میں گزرا جب خواجہ محمد صفدر نے جنرل ضیاالحق کی تشکیل کردہ مجلس شوریٰ کی نظامت سنبھالی۔ خواجہ صفدر کے صاحبزادے خواجہ محمد آصف ٹھیک 65 برس بعد 18 مارچ 2018 کو اس افتاد سے گزرے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ پر سیاہی پھینکنے والے مگر ان کا دامن داغدار نہیں کر سکے۔ 2 جنوری 2020 کا مورخ البتہ ششدر رہ گیا جب محترم خواجہ آصف نے فرمایا کہ ریاست کے ایک اعلیٰ منصب کو متنازع نہیں بنانا چاہتے۔ ارے بھائی! یہ منصب تو کبھی متنازع نہیں تھا۔ یہ اعزاز تو ہمیشہ منتخب وزرائے اعظم کے حصے میں آیا۔ کیا خواجہ صاحب اتنا بھی نہیں جانتے؟

The dream of the prisoner – Moritz von Schwind


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments