کھلاڑیوں کے کھلاڑی
بھولا آج پھر رو رہا ہے۔
”اؤ بھولے کیوں رو رہا ہے؟ تجھے میں نے کتنی مرتبہ کہا ہے کہ اس طرح باگا اَڈ کے نہ رویا کر۔ تُو تو سادہ اچھا نہیں لگتا اوپر سے۔ آہو۔ “
”سر جی آپ کرلیں مخول۔ کریں، جرور کریں بلکہ ایک آدھ ریپٹا بھی لگائیں۔ لگائیں، کر لیں سینہ ٹھنڈا پر یہ نہ پوچھئیے گا کہ بھولے رو کیوں رہا ہے۔ “
” اوئے نہ میری جان، اتنا جذباتی نہ ہو، تو جانتا ہے کہ میں تیرے ساتھ لاڈ کرتا ہوں۔ بتا کیا ہوا ہے؟ “
”ارمان جل بل گئے ہیں، امیدیں مُک گئیں ہیں، سینہ سڑ کے سواہ ہو گیا ہے۔ “
”اؤ بس وئی بس، حوصلہ۔ حوصلہ“
’اؤ نئیں ہو رہا سر جی ”
”کھل کر بات کر بھولے، پہیلیاں نہ بھجوا“
” پہلی بار لگ رہا تھا کہ حکم اب ان کا چلے گا جن کا حق ہے۔ جنہیں ہم حق دیتے ہیں کہ مُلخ کے فیصلے کرو۔ پر فیر وہی ہوا۔ وہی جو ہمیش سے ہوتا آیا ہے۔ فیر وہی ہوا“
”اؤ کیا ہو گیا“
”وہی“
” او کیا وہی؟ “
” وہی سر جی جو ہم جیسے مُلخوں کی تقدیر ہے، میں نے کچھ بوہتی ای امیدیں لگا لی تھیں کہ اس بار حکم کے حقدار آکڑے رہے گے اپنا حق مارنے والوں کے آگے۔ اب کے حقدار تو پہلے ہی حق مارنے والوں کے آگے بِشے ہوئے تھے پر پچھلے حقداروں سے بڑی آس تھی کہ وہ اپنا اور ہمارا سر اس وار نیواں نئیں ہونے دیں گے۔ میں نے خوامخواہ کی آس لگا لی تھی ان سے اور سوچنا شروع کردیا تھا کہ اب ویلا آ گیا ہے کہ بہتّر سال سے پہنی زنجیریں کاٹ دی جائیں۔ پر نئیں سر جی۔ ابھی نئیں۔ اب تو یہ زنجیریں اپنے جُثے کا حصہ مَلُوم ہونے لگی ہیں۔ “
”اوئے سادہ اکھروں میں بتا کیا موت پڑ گئی ہے؟ “
” کیوں آپ نے آج ٹی وی نئیں دیکھا، اخبار نئیں پڑھا۔ اگلے پچھلے سارے حقدار باجماعت حق مارنے والوں کا دفاع کرنے اَپڑ گئے ہیں۔ دفاع کرنے والوں کا دفاع، ابھی بھی قیامت نئیں آنی تو کب انی ہے۔ “
” تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ او سارے اپنے پچھلے قرضے اتار رہے ہیں اور آئیندہ کے لئے نیوندرے ڈال رہے ہیں۔ کچھ کے پچھلے گناہ بخشے جانے ہیں کچھ کے نامہُِ اعمال میں مزید نیکیاں لکھی جانی ہیں۔ جو حقداروں اور ان کی اولادوں کے کام آنی ہیں۔ اور پھر اگلی باری حکم دینے کا حق نہیں لینا۔ اوئے بھولے بادشاہ اصل میں حق مارنے والے ہی حکم دینے کا حق بھی دیتے ہیں۔ تُوں ایسے نہ تِڑ کہ یہ حق ہم دیتے ہیں۔ ہمیں صرف یقین دلایا جاتا ہے کہ ہم بھی اس کھیل کا حصہ ہیں جو کھیلتے فقط یہ خود ہیں۔ ہم وہ نمانے تماشائی ہیں جو تالیاں مارتے مارتے خود کو کھلاڑی سمجھنے لگتے ہیں۔ تُو ایویئں نہ پریشان ہو۔ “
”تو سر جی فیر یہ ظالم اتنی امیدیں کیوں دلاتے ہیں ہم مسکینوں کو۔ آپ ہی کھیڈیں، ہاریں، جیتیں، کھسماں نوں کھائیں۔ “
” او مورکھا، تماشائیوں کے بغیر کوئی کھیل بھلا کھیل رہتا ہے۔ یہ کھلاڑیوں اور کھلاڑیوں کے کھلاڑی کا میچ ہے۔ تماشائیوں کا کام صرف تالیاں بجانا ہے۔ صرف اور صرف تالیاں بجانا۔ اور وہ بھی ویلا کویلا دیکھ کے۔ آہو۔ “
” میں نے نئیں ویکھنا ایسا چول کھیڈ آج کے بعد“
” تو نا دیکھو، جب دکھانا ہوگا دکھانے والے خود ہی دکھا لیں گے، تو اتنی چنتا نہ کر۔ چل اب اس مسئلے سے نکل اور بازار جا کر جلدی سے سودا سلف لے آ۔ میں سمجھ رہا تھا کہ پتہ نہیں کتنی سنجیدہ بات ہو گی۔ یہ تو روز کا کنجر خانہ ہے۔ چل چھیتی جا، کیوں بیگم سے لڑائی کرانی ہے۔ آتی مرتبہ پتہ کر کے آنا کہ ٹماٹر سستے ہوئے ہیں کہ نہیں۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).