سِتار نواز، ارینجر، فلم اور ٹیلی وژن موسیقار جاوید اللہ دتّہ


اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹیلی وژن پر جب کبھی بھی کوئی موسیقی کی بات ہوتی ہے تو تین ہی لوگوں کا تذکرہ آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلوکار، گیت نگار اور موسیقار۔ حقیقت یہ ہے کہ فلم، ریڈیو یاٹیلی وژن ہر جگہ کی موسیقی میوز یشنوں یا سازندوں کے بغیر صفر ہے۔ میوز یشن موسیقی کی لازم اکائی ہے اس کے بغیر دھن لاکھ اچھی ہو، پھیکی ہی رہے گی۔ فلم، ریڈیو، ٹی وی، آرٹس کونسلوں کے موسیقی کے پروگرام ہوں یا کوئی گھریلو محفلِ موسیقی، میوز یشنوں کے بغیر سب کچھ بے رنگ نظر آئے گا۔

میوز یشن موسیقی کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں لیکن اُن کو میڈیا وہ مقام نہیں دیتا جس کا وہ حق رکھتے ہیں۔ مجھے چونکہ خود بھی موسیقی کا بہت شوق ہے لہٰذا پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے شعبہ پروگرامز سے منسلک ہوتے ہی سب سے پہلے میں نے موسیقی کے پروگرام کیے۔ پی ٹی وی چھوڑے ایک زمانہ ہوا لیکن ماشاء اللہ تب سے اب تک موسیقاروں اورمیوز یشنوں سے تعلق قائم ہے۔

پچھلے دنوں موسیقی کی دنیا کی ایک قابلِ احترام اور معتبر شخصیت سِتار نواز، ارینجر اور موسیقار جاوید اللہ دتّہ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ 1980 سے میری اِن کی ملاقات تھی لیکن نہ جانے جاوید بھائی میں ایسی کیا بات تھی کہ علاوہ سلام دعا کے اُن سے بات کرنے کا کبھی حوصلہ نہیں ہوا۔ حالاں کہ اُن کے چھوٹے بھائی اختر اللہ دتہ سے راقم کی دوستی تھی جو ماشاء اللہ آج تک قائم ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں جاوید بھائی سے اکثر ملاقات ہوا کرتی تھی۔

یہ کم گو، کام سے کام رکھنے والے واقع ہوئے تھے۔ اب ایک زمانے بعد جب اُن کے ہاں بیٹھ کر بات چیت کی تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو علم ہوا کہ میں تو سراسر گھاٹے میں رہا۔ اتنے باصلاحیت شخص سے استفادہ نہ کر سکا۔ کاش کہ میں نے اِن سے بھی اپنے پروگرام کروائے ہوتے۔ بہر حال پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لئے اُن سے بات چیت کی خاص خاص باتیں پیشِ خدمت ہیں :

” میں نے ستار نواز کی حیثیت سے 16 سال کی عمر میں اپنا پہلا فلمی گیت 1964 میں فلم“ ہیڈ کانسٹیبل ”کے لئے ریکارڈ کروایا۔ اسے قتیلؔ شفائی نے لکھا تھا۔ نثار بزمی کی موسیقی اور میڈم نورجہاں کی آواز تھی۔ گیت یہ تھا“ :

اے کا ش میرے لب پہ تیرا نام نہ آتا

دنیا میں وفا پر کوئی الزام نہ آتا

” میرے پیس اور میری جانب سے کوئی ایک بھی ری ٹیک نہیں ہوا۔ بزمی صاحب اور میڈم نے مجھے شاباشی دی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب ہر ایک میوزیشن، گلوکار اور فنکار کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ریڈیو پاکستان پہنچ جائے۔ لہٰذا میں نے بھی بہت محنت کی اور 150

روپے ماہوار تنخواہ پر 1965 میں ریڈیو پاکستان کراچی میں ستار نواز کی حیثیت سے منسلک ہو گیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بلیک آؤٹ کے زمانے میں ریڈیو اسٹیشن کی کھڑکیوں اور روشن دانوں پر ہم لوگوں نے کاغذ لگا ئے اور پھر یہاں ریکارڈ ہونے والے تقریباً تمام مِلّی نغموں میں ستار میں نے بجائی۔ موسیقار اور کمپوزر اُستاد وحید خان صاحب ایک دِن میں 4 مِلّی نغمے کمپوز کیا کرتے۔ بہت سے توبراہِ راست یعنی لائیو بھی نشر ہوتے ”۔

” جلد ہی میں نے سِتار کے ساتھ گِٹار بھی بجانا شروع کیا۔ جِس کی سہیل رعنا نے بہت حوصلہ افزائی کی۔ گیت نگار اور فلمساز حمایتؔ علی شاعر نے فلم“ لوری ” ( 1966 ) کی گولڈن جوبلی کامیابی کے بعد فلم“ گُڑیا ”شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اِس کے گانے لاہور میں ریکارڈ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ فلم“ لوری ”کے موسیقار خلیل احمد تھے۔ اب کی مرتبہ حمایتؔ صاحب نے خلیل احمد کے بجائے سہیل رعنا کو چُنا۔ سہیل مجھے اپنے ساتھ لاہور لے گئے۔ مذکورہ فلم تو بعض وجوہات کی بِنا پر مکمل نہیں ہو سکی البتہ سِتار پلیئر کے طور پر میر ے لئے لاہور جانا مبارک ثابت ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ فلمی صنعت کے عروج کا دور تھا“۔

دائیں سے بائیں لال محمد، کھڑے ہوئے، ستار پر جاوید اللہ دتہ اور بلند اقبال اور دوسرے

بر سبیلِ تذکرہ فلم ”لوری“ کے لئے چند جملے لکھتا چلوں۔ اس فلم کی اہمیت یہ ہے کہ اس کی کہانی احمد ندیم قاسمیؔ نے لکھی جنہوں نے بہت کم فلموں کے لئے لکھا۔ اس کے ہدایتکار ایس سلیمان تھے۔ مذکورہ فلم کے یہ گیت بے حد مقبول ہوئے اور اب بھی ریڈیو اسٹیشنوں سے سنوائے جاتے ہیں :

خدا وندا یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینے میں

تمنا جو نہ پوری ہو وہ کیوں پلتی ہے سینے میں

آواز مہدی حسن اور کلام خود حمایتؔ علی شاعر کا۔

میں خوشی سے کیوں نہ گاؤوں میرا دل بھی گا رہا ہے

یہ فضا حسیں ہے اتنی کہ نشہ سا چھا رہا ہے

آواز مجیب عالم۔

ہوا نے چپکے سے کہہ دیا کیا

کہ پھول لہرا کے ہنس پڑے ہیں

آواز مالا۔

باتوں باتوں میں جاوید بھائی نے ایک بہت دلچسپ واقعہ سُنایا: ”موسیقار خواجہ خورشید انور سے کون واقف نہ ہوگا۔ ایک روز ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ خواجہ صاحب کا پیغام ہے کہ جاوید کو فُلاں روز براہِ راست میرے گانے کی ریکارڈنگ پر بلوالو۔ اگر وہ اُس تاریخ کو مصروف ہوا تو پھر جو ستار نواز میسّرہو، اُس کے لئے ریہرسل ضروری ہو گی۔ میں خواجہ صاحب والی ریکارڈنگ کے دِن پہلے ہی کسی اور موسیقار کو ہاں کر چکا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح سے میں خواجہ خورشید انور صاحب کی ریکارڈنگ کر لیتا مگر یہ نہ ہو سکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواجہ صاحب کا مجھے اِس طرح سے بُلوانا ہی میرے لئے ایک بہت اعزاز کی بات ہے“۔

” لاہور میں موسیقار ایم اشرف کے لئے جس فلم میں، میں نے پہلی دفعہ ستار بجائی وہ 1971 میں بننے والی فلم“ یادیں ”تھی۔ اس کے گیت نگار تسلیمؔ فاضلی تھے۔ اسے گلوکار رجب علی اورمیڈم نورجہاں نے گایا“ :

مجھ سا تجھ کو چاہنے والا اِس دنیا میں کوئی اور ہو اللہ نہ کرے

تجھ سا مجھ کو چاہنے والا اِس دنیا میں کوئی اور ہو اللہ نہ کرے

لاہور میں جاوید بھائی نے بہت سے نامور میوزیشن کے ساتھ کام کیا جیسے مظہر حسین گِٹارسٹ المعروف ’پوپا‘ اور اختر حسین پیانِسٹ۔ اختر صاحب بہت ہی لاجواب پیانِسٹ تھے۔ سہیل رعنا کے کئی ایک مقبول ترین گیتوں میں اِنہوں نے پیانو بجایا، مثلاً 1967 میں بننے والی فلم ”دوراہا“ میں مسرورؔ انور کا لکھا اور مہدی حسن کی آواز میں یہ مشہور گیت:

مجھے تُم نظر سے گرا تو رہے ہو مجھے تُم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے

نہ جانے مجھے کیوں یقین ہو چلا ہے میرے پیار کو تم مِٹا نہ سکو گے

خاکسار کے مطابق آج بھی جب 3 : 33 منٹ کے اصل گیت کو سنیں توایک لطف محسوس ہوتا ہے۔ جنہوں نے اختر حسین صاحب کو پیانو بجاتے ہوئے دیکھا اور سُنا ہے، جب وہ اس گیت کو سنتے ہیں تو پیانوکے انٹرو، باریں، فلرز اور انٹرول میوزک سُن کر اُن کو ایسا لگتا ہے گویا اختر صاحب اُن کی نظروں کے سامنے بیٹھے پیانو بجا رہے ہیں۔

جاوید اللہ دتہ جاپان کلچرل سینٹر میں

بات چیت کے درمیان راقِم نے پاکستانی فلمی صنعت کے ایک نامورپلے بیک ساؤنڈ ریکارڈسٹ جناب سی منڈوڈی صاحب کا ذکر کیاتو جاوید بھائی نے کہا: ”لاہور میں ایک ہی فلور کا اسٹوڈیو ’یو بی اسٹوڈیو‘ تھا۔ اِسی میں ساؤنڈ ریکارڈنگ بھی کی جاتی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ صرف چلتا ہی جناب سی منڈوڈی کے نام پر تھا“۔

جاوید بھائی نے ریڈیو پاکستان کراچی اور کراچی کی فلمی صنعت میں موسیقار لال محمد اور بلند اقبال المعروف لال محمد اقبال، نذر اور صابر صاحبان المعروف نذر صابر اور دیبو بھٹّہ چاریہ کے ساتھ کام کیا۔

میوزیشن سے میوزک کمپوزر بننے کے سفر کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”مجھے کمپوزیشن کا بالکل بھی شوق نہیں تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسرشعیب منصور نے پروگرام“ سِلور جوبلی ” ( 1983 ) کے لئے پاکستانی فِلمی مِلّی گیتوں کو ’ری ڈو‘ Re۔ doکرنا تھا جیسے شوکت تھانوی صاحب کا لکھا، منور سلطانہ کی آواز ا ور قادر فریدی کی موسیقی میں یہ مِلّی نغمہ:

چاند روشن چمکتا ستارہ رہے

سب سے اونچا یہ پرچم ہمارا رہے

اس کام کے لئے شعیب منصور نے مجھ سے بات کی۔ میں نے ہامی بھر لی۔ میں نے تو صرف ارینج ہی کرنا تھا۔ میں نے بڑی محنت سے تمام گیت ریکارڈ کروائے۔ میری اِس کاوش کی پروڈیوسرشہزاد خلیل صاحب نے تعریف کی۔ میں بھی اِس Re۔ do سے اپنے دل میں مطمئن تھا۔ اس سے مجھے حوصلہ ہوا اور میں نے خود بھی کمپوزنگ شروع کر دی ”۔

جاوید بھائی نے یہاں ری ڈو کی اصطلاح استعمال کی تو مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے سوال کیا: ”جاوید بھائی! آج کل جو

’ ری مِکس‘ Re۔ mix کی وبا چل رہی ہے کیا وہ Re۔ do سے الگ ہے؟ ”

اُنہوں نے جواب دیا: ”ری ڈو بالکل اصل کے مانند ہے۔ ویسا ہی میوزک، ویسی ہی چال۔ اصل کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ سے پیس، باریں، فلر، انٹرول میوزک سب اصل کے مانند ریکارڈ کیا جاتا ہے صرف گانے والے /والی کی آواز دوسری ہوتی ہے۔ جبکہ ری مِکس میں میوزک کی قطع برید بھی کی جاتی ہے“۔

خاکسار کے خیال میں جب ہی تو کوک اسٹوڈیو میں معروف پاکستانی فلمی گانوں کے ری مِکس پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے جبکہ دوسرے کے مطابق یہ اصل گیت کا قتل ہے۔

جاوید اللہ دتہ فریدہ خانم کے ساتھ

” جاوید بھائی آج کل ایک اور اصطلاح بھی سننے کو مل رہی ہے ’فیو ژن‘ ! یہ کیا ہے؟ “

” ہا ہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے بھی فیوژن والا کام کیا۔ لیکن اُس وقت یہ پتا ہی نہیں تھا کہ جو کام کر رہا ہوں، جدید موسیقی کی اصطلاح میں وہ ہے کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

میں بے ساختہ بول اُٹھا ”کیا آپ کا اشارہ 1986 میں پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کے موسیقی کے پروگرام

” رنگ ترنگ“ میں ساحرہ کاظمی کی پروڈکشن اور شبی ؔفاروقی کا لکھاہوا وہ گیت ہے جو الّن فقیر اور محمد علی شہکی کی آواز میں بہت مقبول ہوا تھا ”:

تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا اُسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا

” ہاں! یہ خاصہ مشکل کام تھا۔ بعد میں کہیں جا کر علم ہوا کہ یہ جو کام ہواوہ ’فیوژن‘ تھا۔ یعنی دو چیزوں کا ملاپ۔ مشرقی یا علاقائی فوک موسیقی کا مغربی موسیقی کے ساتھ خوشگوار امتزاج۔ مزے کی بات یہ کہ شبیؔ فاروقی سندھی بولوں کے میٹر پر اُردو میں بول پہلے ہی لکھ چکے تھے۔ ویسے یہ بھی کمال کے آدمی تھے۔ میں نے اِن کے ساتھ بعد میں بھی کافی کام کیا ’‘ ۔

شبیؔ فاروقی کا ذکر آیا تو بتاتا چلوں کہ میں نے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں سب سے زیادہ کام موسیقار کریم بھائی المعروف کریم شہاب الدین کے ساتھ کیا۔ کریم بھائی نے میرے سامنے کئی گیت نگاروں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی دھنوں پر بول لکھوائے۔ ان میں شبیؔ فاورقی بھی تھے۔ دونوں اِس قدر برق رفتاری سے کام کرتے کہ میری عقل چکرا جاتی۔ لگتا تھا کہ دونوں جِن ہیں۔ کئی کئی گھنٹے کام کرتے اور کام ختم ہونے کے بعد اگلے کام پر دوبارہ نئی تازگی کے ساتھ حاضر۔

۔ ۔ ۔ ۔ کریم بھائی کی موجودگی تو ریہرسل سے لے کر ریکارڈنگ اور پھر آڈیو ایڈیٹنگ تک سمجھ میں آتی ہے کہ وہ میوزک ڈائریکٹر تھے اور اُن کی ذمہ داری بھی تھی لیکن شبیؔ فاروقی ریہرسل اور ریکارڈنگ میں لازمی ہوتے تھے۔ یہ بات میں نے ان کے علاوہ مسرورؔ بھائی المعروف مسرورؔ انور میں دیکھی۔ دونوں حضرات کی دلیل دل کو لگتی تھی کہ ریکارڈنگ میں گیت نگار موجود ہو تو بعض اوقات محض ایک لفظ کی تبدیلی گیت کو سنوار دیتی ہے۔

جاوید اللہ دتہ نے ایک بینڈ بنایاتھاجنہوں نے صرف سازینوں کا ایک گراموفون ریکارڈ ریلیز کیا۔ اس سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا : ”ا نجم آفندی، اعظم شیخ، منصوراور میں نے سِلوِٹ silhouette نام کا ایک بینڈ بنایا۔ بینڈ کی باقاعدگی سے ریہرسل ہوا کرتی تھی۔ ہم نے اِس پلیٹ فارم سے ایک لانگ پلے گراموفون ریکارڈ LP ریلیز کیا۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ بعد ہم نے رونا لیلیٰ کی آواز میں 45 RPM کا EP ریلیز کیا۔ یہ بنگالی فوک فیوژن تھا۔ پھر محمد علی شہکی کے ساتھ بھی بینڈ کے طور کام کیا“۔

ایک اور سوال کے جواب میں کہنے لگے : ”بینجمن سسٹرز کو میں نے اور شعیب منصور دونوں نے متعارف کرایا۔ اِن تینوں بہنوں میں شبانہ بہت جلدی دھن یاد کر لیا کرتی تھی۔ اِن کے والد جناب وِکٹر بنجمن جلترنگ، وائبروفون اور سنتور کے بہترین میوزیشن تھے۔ جلترنگ اِن کی پہچان تھی۔ اب تو جلترنگ خواب و خیال ہو کر رہ گیا ہے“۔

واضح ہو کہ یہ خالصتاً پاک و ہند کا ایک قدیم سا ز ہے جو چینی کی پیالیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اِن میں مختلف مِقدار میں پانی موجود ہوتا ہے، گویا اِن کے سُروں کو پانی اور اُس کی مقدار سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہلال کی صورت میوزیشن کے سامنے رکھے ہوئے پیالوں کے کنارے پر ہلکی ضرب لگانے سے پانی میں ارتعاش کے ذریعہ سُرپیدا ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں بنجمن صاحب کے بارے میں جاوید بھائی نے کہا: ”ہم لوگ جب پی آئی اے آرٹس اکیڈمی میں تھے تب ایک مرتبہ وکٹر بنجمن نے میڈیسن اسکوائر، نیویارک میں جلترنگ کے انفرادی فن کا مظاہرہ کیا۔ یہاں ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے۔ لوگ حیران ہو گئے کہ جلترنگ بھی کیا غضب کا ساز ہے“۔

دائیں سے بائیں محمد علی شہکی، الن فقیر اور جاوید اللہ دتہ

جاوید بھائی نے پاکستان میوزک کارپوریشن، کراچی PMC والوں کے لئے بنجمن سسٹرز اور محمد علی شہکی کے نئے گانوں کی دھنیں بنائیں۔ یہ کیسٹ عوام میں بہت مقبول ہوئے۔

لاہور میں اُنہوں نے جِن مشہور فلمی گانوں میں ستار بجائی اب کچھ اُن کا ذکر ہو جائے :

1972 میں نمائش کے لئے پیش کی جانے والی ایس سلیمان کی فلم ”محبت“ میں احمد فرازؔ کی 3 : 42 منٹ کی غزل، جِس کی دھن نثار بزمی نے بنائی تھی، بہت مشہور ہوئی:

رنجش ہی سہی دِل ہی دُکھانے کے لئے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ

اِ س غزل میں ستار کا انٹرو سننے کے لائق ہے۔ پھر تینوں انتروں میں جاوید اللہ دتّہ صاحب نے کمال ستار بجائی ہے۔

1976 میں بننے والی فلم ’‘ خریدار ”میں موسیقار ایم اشرف کی موسیقی اور (غالباً) منیرؔ نیازی کی غزل ناہید اختر کی آواز میں بے حد مقبول ہوئی:

زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا

دنیا سے خا مشی سے گزر جائیں ہم تو کیا

اِ س پر اثر اصل فلمی غزل کو اطمینان سے بیٹھ کر سُنا جائے توجاوید بھائی کی سوز میں ڈوبی سِتار دِل کی تاروں کی چھیڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

1972 میں بننے والی فلم ”ایک رات“ کا ایک گیت زبان زدِ عام ہو گیا تھا جس کو تسلیم ؔفاضلی نے لکھا اور موسیقارناشاد نے طرز بنائی۔ اِسے مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا:

پھر آ کے چلے جانا

اک بار چلے آؤ

صورت تو دکھا جاؤ

اِس التجائی شاعری اور دھن پر جاوید بھائی کی بجائی ہوئی المیہ ستار سُننے سے تعلق رکھتی ہے۔ 3 منٹ میں یہ گیت ختم بھی ہوجاتا ہے اور سُننے والا محسوس کرتا ہے کہ ابھی تو شروع ہوا تھا۔ اس تاثر کو ستار نے قائم کیے رکھا۔

پاکستان فلمی صنعت میں سیف الدین سیفؔ کی معرکتہ الآرا فلم ”اُمراؤ جان ادا“ ( 1972 ) کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ بھارت میں اِس کے کہیں بعد 1981 میں اِسی نام سے فاروق شیخ، ریکھا، نصیر الدین شاہ، راج ببر، بھارت بھوشن اور مکری وغیرہ جیسی بڑی کاسٹ کو لے کر مرزا ہادی رُسوا کے اِسی ناول ”اُمراؤ جان اد ا ’‘ پر فلم بنائی گئی۔ اس کے ہدایت کار مظفر علی اور منظر نامہ مظفر علی، جاوید صدیقی اور شمع زیدی نے لکھا۔

تمام گیت شہریارؔ نے لکھے اور دھنیں موسیقار خیّام نے ترتیب دیں۔ واضح ہو کہ موسیقار خیام پاکستانی فلمی صنعت کے نامور موسیقار رحمان ورما کے سگے بھائی ہیں۔ کبھی اِن بھائیوں پر بھی انشاء اللہ تفصیلاً لکھوں گا۔ بات سے بات نکلتی ہے، ذکر ہو رہا تھا پاکستانی اور بھارتی فلم ’امراؤ جان ادا‘ کا۔ غیر جانبداری سے دونوں فلموں کا مقابلہ کیا جائے تو سیف ؔصاحب اور حسن طارق کی فلم ہر لحاظ سے اُن سے افضل ہے۔ اِس فلم میں سیف الدین سیف ؔکے باقاعدہ 5 گیت، ایک نوحہ اور ایک احمد رُشدی کی تحت اللفظ توصیفی نظم ہے۔ اِن پانچ گیتوں میں 3 میں جاوید بھائی نے سِتار بجائی:

کاٹیں نہ کٹیں رے رتیاں سیّاں انتظار میں

اے ہے میں تو مر گئی بیدردی تیرے پیار میں

رونا لیلیٰ کی آواز میں اِس گیت میں بزمی صاحب نے ستار کا بھرپور استعمال کروایا ہے جِس سے گیت مزید روشن روشن محسوس ہوتا ہے۔

جھومیں کبھی ناچیں کبھی گائیں خوشی سے

جی چاہتا ہے آج مر جائیں خوشی سے

رونا لیلیٰ کے اِس گیت میں دوسرے انترے میں انٹرول میوزک میں ستار بجائی گئی ہے۔ انتروں میں ستار کی باریں بہت خوبصورت محسوس ہوتی ہیں۔

مانے نہ بیری بلما

ہو مورا مَن تڑپائے

جیا را جلائے

رونا لیلیٰ، آئرین پروین اور نذیر بیگم کی آوازوں میں اِس گیت کا انٹرو، راگ ایمن اور گونڈ سارنگ کے خوبصورت امتزاج سے جاوید بھائی نے بجا یا۔

۔ ۔

1974 میں لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان ٹیلی وژن کا تیار کردہ مِلّی نغمہ ”ہم مصطفوی ہیں“ بہت مقبول ہوا تھا۔ اِس کو جمیل الدین عالی ؔنے لکھا اور پاکستان کے نامور موسیقار سہیل رعنا نے اِس کی طرز بنائی۔ اور سونے پہ سہاگہ مہدی ظہیر صاحب کی ولولہ انگیز آواز۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس پس منظر میں بات کرتے ہوئے جاوید بھائی نے کہا : ’‘ اِس نغمے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے سہیل رعنا نے ایک روز مجھ سے کہا کہ میں لاہور جا کر اصل نغمے کے ٹریک پرپورا نغمہ صرف ستار پر ریکارڈ کروا کر لے آؤں۔ یہ خاصا مشکل کام تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ بھی میرے ساتھ چلیں لیکن وہ کہنے لگے کہ تمہیں بھیج ہی اسی لئے رہا ہوں کہ تُم یہ کام اکیلے ہی کر اور کروا سکتے ہو۔ الحمدﷲ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کام بخوبی ہو گیاجو میرے لئے ایک اعزاز ہے۔ اِس کے بعد سہیل رعنا کے ساتھ ڈپارٹمنٹ آف فلم اینڈ پبلی کیشن کی بہت سی فلموں کا بیک گراؤنڈ کیا ”۔

دنیا بھر میں میوزیشن اپنے سازوں میں اختراع کرتے رہتے ہیں۔ میں نے ایسا ہی سوال جاوید بھائی سے بھی کیا کہ کیا کبھی ستار میں کوئی ”نئی بات“ پیدا کرنے کی کوشش کی؟ اس کا اُنہوں نے دلچسپ جواب دیا : ”میں جب silhouette بینڈ میں تھا تو خیال آیا کہ میں بھی اپنے ستار میں ایک ’پِک اَپ ہیڈ‘ Pick۔ up head لگا کر آواز کو تھوڑا بہت بدل کر دیکھوں۔ ہم نے اِس“ الیکٹرک سِتار ”کے ساتھ بنگالی فوک دھن“ بھوّیہ ”ریکارڈ کرائی جو بہت مقبول ہوئی“۔

وہ گراموفون ریکارڈوں کا زمانہ تھا۔ عوامی ہوٹلوں تک میں گراموفون ریکارڈ بجائے جاتے تھے۔ یہ بھویہ اُس زمانے میں ریڈیو اسٹیشنوں، سنیما گھروں میں بہت بجتا تھا۔ مجھے بھی یاد ہے کہ کراچی کے اکثر سنیما گھروں میں جب انٹرول ختم ہونے والا ہوتا تھا تو بھویہ کا ریکارڈ بجایا جاتا تھا۔ لوگ سمجھ جاتے تھے کہ بھویہ بج رہا ہے ہال میں چلو۔

راقم جاوید بھائی کے ساتھ

ضیاء محی الدین کی سربراہی میں پی آئی اے نے ایک آرٹس اکیڈمی بنائی جس کے ذمے مختلف ممالک میں ثقافتی طائفے لے کر جانا تھا۔ جاوید بھائی بھی اس اکیڈمی کے رکن تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا : ”اللہ کے فضل سے میں نے بہت سے ممالک میں ستار پر راگ راگنیاں سولو پرفارم کیں۔ یہ اکیڈمی 1974 تک چلی پھر اس کو بعض وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ

ضیاء محی الدین صاحب کی سربراہی میں اِس اکیڈمی نے دن رات کی محنت سے بین الاقوامی طور پر پاکستان کا نام روشن کیا ”۔

اپنے ریکارڈنگ اسٹوڈیو کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: ”ہر ایک کمپوزر کوشش کرتا ہے کہ اُس کا بھی اپنا ریکارڈنگ اسٹوڈیو ہو جہاں وہ اپنی مرضی، وقت اور موڈ کے لحاظ سے تخلیق کا کام کر سکے۔ مجھے بھی اللہ نے توفیق دی اور 1980 کی دہائی میں یہ بنا لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یہ کمرشل نہ ہو سکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

اپنے بچپن سے متعلق بتایا: ”میرے والد بہت سخت تھے، کسی حد تک یہ سختی مجھ میں بھی آئی ہے۔ لیکن ظاہر ہے میرے والد ہم سب سے بے حد پیار کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اَن کے انتقال پر ریڈیو پاکستان سے سہیل رعنا نے خاص طور پر تعزیت کی تھی“۔

گو کہ آج کل بے شمار ٹی وی چینل وجود میں آ چُکے ہیں لیکن اِن میں زیادہ تر صرف نیوز چینل ہیں۔ اِس سلسلہ میں اُنہوں نے کہا: ”آج کل انٹرٹینمنٹ چینلوں کے دروازے موسیقی کے لئے مکمل طور پر بند ہیں“۔

جاوید بھائی نے کئی مشہور ڈراموں کے ٹائٹل سونگ کمپوز کیے، جیسے ”چاند گرہن“، ’‘ شی جی ”، “ ستارہ اور مہر النساء ’‘ ۔ موخر الذکر ڈرامہ کے ٹائٹل سونگ کے بارے میں انہوں نے ایک دلچسپ بات بتلائی۔ کہنے لگے : ”ایک محفل میں نیرہ نور اِس ڈرامے میں اپنا گایا ہوا یہی ٹائٹل گیت سُنا رہی تھیں جومیں نے راگ دیس میں ترتیب دیا تھا۔ سامنے سُننے والوں میں مہدی حسن بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ ایسا اثر ہوا کہ مہدی حسن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ہے تو یہ عجیب سی بات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یہ بھی میرے لئے ایک اعزاز ہے۔ اِسی محفل میں یہ گیت سُن کر 1993 میں مجھے فلم ”خواہش“ میں موسیقار کی پیشکش کی گئی۔ اِس کے ہدایت کار نذرالاسلام تھے۔ اِ س سے پہلے ڈرامہ پروڈیوسر اور فلمساز فرقان حیدر کی فلم ”دشمنوں کے دشمن“ میں موسیقار کی حیثیت سے کام کر چکا تھاجو 1989 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اِس فلم میں میڈم نورجہاں کے 4 عدد گانے بھی تھے ”۔

لاہور میں اپنے قیام کی ایک اور دلچسپ بات بتلائی۔ اِس کا پس منظر یہ ہے کہ کسی وجہ سے اُن کے سر کے بال نوجوانی ہی سے خاصے سفید تھے اِس پر وہاں کے ایک بہترین وائلن نواز الیاس خان نے کہا: ”بھئی تم نے ستار پر اپنے پیس بہترین بجائے آج پتا چلا کہ یہ بال ایسے ہی دھوپ میں سفید نہیں کیے“۔

اپنی جدو جہد میں آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا : ”بندر روڈ، کراچی پر ریڈیو پاکستان کے قریب ہمارا گھر تھا۔ کئی مرتبہ میں گھر سے ایسٹرن اسٹوڈیو پیدل گیا“۔ واضح ہو کہ یہ فاصلہ اچھا خاصا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں جاوید بھائی نے کہا: ”میں نے سوچا کہ آسان ساز سیکھنا چاہیے، تو ستار سیکھنے کا خیال آیا۔ اُستاد مچھو خان، اُستاد امداد حسین، اُستاد شریف خان پونچھ والے اور اُستاد رئیس خان میرے اساتذہ ہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ میں نے پی ٹی وی کے لئے حمد و نعت کی بھی طرزیں بنائیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز میں قاسم جلالی کے ڈرامہ ”ٹیپو سلطان ’‘ میں صہبا ؔ اخترکی لکھی ہوئی حمد کی طرز بنائی جو گلوکار محمد افراہیم کی آواز میں ریکارڈ ہوئی۔ جب میں نے خود کمپوزنگ شروع کی تومسرورؔ انور، قتیلؔ شفائی“ حسنؔ اکبر کمال، شبیؔ فاروقی، محمد ناصرؔ، صابرؔ ظفروغیرہ کے ساتھ کام کیا ”۔

” میں اللہ تعالیٰ اور آلِ نبی ﷺکا شکر گزار ہوں کہ اُس نے اتنا نوازا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرے چار بیٹے ہیں : پہلا احسن ہے جو دبئی میں ایک بینک کے ذمہ دار عہدے پر فائز ہے۔ اِس کی ماشاء اللہ دو بیٹیاں ہیں۔ دوسرا بیٹا مُحسن ہے۔ یہ یہاں ڈراموں کا بیک گراؤنڈ میوزک اور تھیم سونگ کمپوز کرتا ہے۔ اِس کی ماشاء اللہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ تیسرا بیٹا حسن ہے جو ایک مقامی ٹیلی وژن چینل میں مارکٹنگ کے شعبے سے منسلک ہے۔ اِس کا ماشاء اللہ ایک بیٹا ہے۔ چوتھا بیٹا عباس ہے جو ایک شپنگ کمپنی کے مارکٹنگ کے شعبے میں ذمہ دار عہدے پر فائز ہے۔ اِس کا بھی ماشاء اللہ ایک بیٹا ہی۔ “۔

آج کل جاوید بھائی نے خرابیء صحت کی بنا پر موسیقی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اللہ اُنہیں صحت وعافیت عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments