پارلیمانی طرز جمہوریت اور سول سپریمیسی کے انقلابی


شہید بھٹو نے 1969 میں پاکستان پیپلز پارٹی بنائی۔ ملک کے ٹوٹنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو 71 میں اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ سب سے پہلا کام جو پی پی پی حکومت یا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ذمہ لگایا گیا وہ ملک کا آئین بنانا تھا۔ بھٹو کا دوسرا مدمقابل مجیب الرحمٰن تھا جو پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتا تھا۔ مگر بدقسمتی سے ملک ٹوٹنے کی وجہ سے مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے وزیراعظم بن چکے تھے۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کے تمام مخالف انجمن شوکت اسلام نامی ایک اتحاد کے ارکان تھے جن کے خیال میں مغربی جمہوریت کا تصور ہی کفر تھا اور وہ پاکستان میں خلافت کا ادارہ بنانے پر تلے ہوئے تھے۔

آئین سازی کی جدوجہد شروع ہوئی تو بھٹو نے واضح اکثریت کے باوجود آئین بنانے کے لیے مذہبی جماعتوں کے گروہ کی بہت سی ناخوشگوار اور نا قابل تعریف باتوں کو آئین میں شامل کیا اور اس طرح بھٹو پاکستان کے پہلے آئین کو متفقہ ترین آئین کا درجہ دلانے میں کامیاب ہوگئے۔

اب یاد رکھیں کہ بھٹو شہید کو آج تک لبرل سیکولر اور جمہوریت پسند طبقہ اس بات پر مطعون کرتا ہے کہ انہوں نے ملاؤں کی بہت سی ناقابل برداشت چیزوں کو آئین کے اندر شامل کر لیا تھا۔ میں خود ان تمام آرٹیکلز کا سخت مخالف ہوں۔ بطور جمہوریت پسند کے میں مذہب کا آئین سازی اور قانون سازی میں کوئی کردار نہیں دیکھتا۔ میری نظر میں دنیا کا بہترین امریکہ کا آئین ہے۔

بہرحال بھٹو کا آئین بار بار توڑا گیا۔ معطل کیا گیا۔ مگر وہ زندہ رہا اس کی زندگی کے پیچھے پیپلزپارٹی کی قربانی سے زیادہ اس سے متفق علیہ ہونے کی علامت کی وجہ تھی۔

شہید بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی پی کے اندر اور بھٹو خاندان کے اندر دو طرح کی سوچ تھی۔ شہید بھٹو کے بیٹے انقلاب کے راستے پر چلے اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کا علم اٹھایا۔

1986 میں اپنی لاہور آمد کے وقت بے نظیر بھٹو اس قدر طاقتور لیڈر کے روپ میں تھیں کہ وہ حکومت کو اپنی انگلی کے اشارہ سے گرا سکتی تھی۔ مگر انہوں نے انقلاب لانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور مروجہ آئین، قواعد، قوانین اور ضابطہ کے مطابق الیکشن میں حصہ لے کر بدترین دھاندلی کا شکار ہوتے ہوئے بھی قومی اسمبلی میں بیٹھنا اور اسٹیبلشمنٹ کی شرائط کے ساتھ اقتدار قبول کیا۔

شہید محترمہ کو زندگی میں دوبار عدالتوں اور فوج کی جانب سے شدید مزاحمت اور مقابلہ کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بار تو ان کے ساتھ دھاندلی کی اس قدر بڑی شرح استعمال ہوئی کہ محض سترہ نشستوں کے ساتھ نے قومی اسمبلی میں بیٹھنا پڑا۔

اب آپ اپنے دل میں خیال لائیں کہ کیا شہید محترمہ نے سترہ اسمبلی سترہ نشستوں والی قومی اسمبلی میں مریم نواز یا میاں نواز شریف کی طرح کا کوئی بیان دیا تھا یا تقریر کی تھی؟

شہید محترمہ ہمیشہ مقتدر پارٹیوں کے قیادت کو سمجھاتی رہی کہ کبھی آپ اس طرف اور کبھی ہم اس طرف ہمیں مل جل کر پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہیے۔

آج تک پی پی پی کی قیادت کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہر وقت شراکت اقتدار کی پیشکش موجود رہتی ہے۔ لیکن پی پی پی نے ہمیشہ الیکشن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑا ہے اور آج تک کسی الیکشن میں بھی پی پی پی کی نشستیں بڑھانے کا کبھی کسی اسٹیبلشمنٹ کے ادارے نے دعویٰ نہیں کیا ہے۔

اسی طرح جب آصف علی زرداری حکومت میں تھے تو سپریم کورٹ اور فوج کی طرف سے سخت ترین دباؤ کے باوجود انہوں نے پارلیمانی جمہوریت پر اپنے یقین کو قائم رکھا۔

پی پی پی قیادت کا کہنا یہ ہے کہ فوج ہمارے بچوں اور ہماری اولاد پر مشتمل ہے۔ 70 سال میں ان کی سوچ مسخ کی گئی ہے انہیں وقت دیا جائے کہ وہ سیاست جمہوریت اور بین الاقوامی معاملات کو سمجھ لیں۔ پی پی پی کی قیادت ہمیشہ فوجی مقتدرہ کو اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر کسی بات پر اختلاف ہوجائے تو پی پی پی قیادت کی جانب سے یہ بات کبھی میڈیا کو نہیں دی جاتی۔ پی پی پی حکومت کے ساتھ اختلافات ہمیشہ جرنیل بیان کرتے ہیں۔ پی پی پی حکومت کی جانب سے کبھی کوئی ڈان لیکس کرنے کی کوشش نہیں ہوئی۔

میاں محمد نواز شریف نے جب پاکستان پروٹیکشن آرڈر جاری کیا تو یہ براہ راست اٹھارویں ترمیم کے متصادم اور سندھ حکومت کے اختیارات اور دائرہ کار میں مداخلت کا ایک سنگین حملہ تھا۔ اس وقت پی پی پی سینٹ میں اپنی اکثریت کی وجہ سے اس قانون کو رکوا سکتی تھی۔ اسی طرح دوسری قانون سازی جو نواز شریف کے دور میں سائبر کرائم ایکٹ کے نام سے ہوئی اس کی بھی پی پی پی نے مزاحمت کی اور اور پی پی پی قیادت نے بتایا کہ یہ غلط اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ پی پی پی نے اس کے باوجود روتے چیختے ہوئے نواز شریف کے حکم پر اسے ووٹ دیا۔ پی پی پی پی قیادت کا درجہ پارلیمان میں استاد اور اتالیق کا سا ہے۔

پی پی پی کی قیادت نئے آنے والوں کو قانون سازی کی اہمیت سکھانے کے لیے قربانیاں دیتی ہے۔

موجودہ قانون سازی میں بھی یہی کچھ تھا اور ناچیز نے پہلے روز ہی عرض کیا تھا کہ اگر عمران خان اس قانون کو یعنی ایکسٹینشن دینے کے اختیار کو قانون کی شکل میں پیش کریں گے تو پی پی پی کی قیادت اپنے اختلافات کو سامنے لاکر ظاہر کرکے بالآخر انہیں ووٹ دے دے گی۔

اس اچھے رویہ کا مظہر کی وجہ آپ یہ بھی سمجھ لیں کہ پی پی پی قیادت دوسری سیاسی جماعتوں کو یہ سکھانا چاہتی ہے کہ جب وہ اقتدار میں ہوں تو اس کی خواہشات کے مطابق قانون سازی کے لئے وہ بھی تعاون کرنے کا سوچ لیا کریں۔

پارلیمانی قانون سازی جماعتوں کی اپنی ترجیحات اور ان کے منشور کے مطابق ہوتی ہے۔ نوازلیگ کس طرح کی قانون سازی اقتدار میں آنے کے بعد کرتی ہے یا کرنا پسند کرتی ہے۔ یقینی طور پر آپ اس سے آگاہ ہوں گے کہ نواز شریف جو بھی قانون بناتا ہے وہ الیکشن سے پہلے کبھی اس نے نہ سوچے ہوتے ہیں نہ اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح عمران خان نے بھی اپنے منشور کے مطابق ایک بھی قانون آج تک نہیں بنایا۔

اس کے برعکس پی پی پی کی قیادت پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ پی پی پی کی قیادت میں الیکشن منشور میں پیش کیے گئے تصورات سے متصادم کبھی بھی کوئی قانون بنایا ہو۔

آج منظور کیے جانے والے قانون کو میں ذاتی طور پر پسند نہیں کرتا لیکن بلاشبہ وزیراعظم کامل اختیار اور اقتدار کا مالک ہونا چاہیے۔ میں سپریم کورٹ کی طرف سے اس موضوع پر قانون سازی کے حکم کو احمقانہ اور اور تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی سمجھتا ہوں۔ قانون بناتے وقت انسان مستقبل کو کبھی فورکاسٹ نہیں کرسکتا کہ کل کیا حالات ہوجائیں۔ آج یقینی طور پر یہ ایک بے فائدہ اور بے ثمر اور ایک شخص کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن کل کلاں کو ایسی صورتحال کبھی بھی درپیش ہو سکتی ہے کہ کسی ایک جرنیل کی پاکستانی فوج کو واقعتاً ضرورت ہو۔

آج کے قانون کی منظوری میں بھی نواز لیگ کا رویہ اس پہلو سے افسوسناک ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے قیام کے بعد نواز لیگ نے بارگیننگ کی صلاحیت بہتر کی اور آزادی حاصل کی۔ لیکن اس قانون کے بنانے پر انہوں نے متحدہ اپوزیشن میں یہ معاملہ لانا مناسب نہیں سمجھا اور چور راستے سے اس پر حامی بھر دی۔

بلاشبہ نواز لیگ کی حمایت کے غیر مشروط اعلان کے بعد جمہوریت اور سول سپریمیسی کی منزل میں بارگیننگ کی صلاحیت اپوزیشن کی بہت کمزور ہوگئی۔ اس وقت پی پی پی کی اس قانون کی مخالفت محض ایک علامتی سٹنٹ یا سستی شہرت کی حیثیت تو رکھ سکتی تھی۔ اس سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔

لیکن اگر اس ووٹ دینے کے عمل سے مجھے فوج سے بطور ادارہ اگر کچھ سیاسی آزادیوں کی یقین دہانی حاصل کی گئی ہے تو بلاشبہ یہ ایک بہتر اور مثبت عمل ہوگا۔

کسی بھی ایک ایشو پر میڈیا کی چیخ و پکار کے بعد قیادت کی تاریخ اور قربانیاں دینے کے عمل کو یکسر انکار کر دینا مجھے کبھی بھی مثبت اور معقول رویہ نہیں دکھائی دیا۔ اور میڈیا کو میں نے ہمیشہ پاپولر اسٹانس یا ہوا کے رخ پر بہتے ہی پایا ہے۔ میڈیا میں بہت کم لوگ دانشور یا عقلی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ پی پی پی قیادت ہمیشہ تاریخ کو جوابدہ ہونے کا تصور سامنے رکھتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments