مبارک ہو! اس حلفِ غلامی میں ہم سب ایک ہیں  


قومی اسمبلی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین برس تک پاک فوج کا سربراہ برقرار رکھنے کے قانون کی حمایت کردی ہے۔ اس طرح ملک کے سب سے برتر ایوان نے ایک شخص کی سرفرازی کے لئے ہر پارلیمانی روایت اور جمہوری طریقے کو ترک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر ملک میں سول بالادستی کا اصول منوانے اور فوج جیسے طاقت ور ادارے کو آئینی حدود کے اندر رہنے پر مجبور کرنے کا سنہرا موقع گنوا دیا ہے۔

یوں تو قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کروائے گئے قانون کو فورسز کے چیفس کے علاوہ چئیرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ کی مدت ملازمت ، ریٹائرمنٹ اور توسیع کو ریگولیٹ کرنے کا نام دیاگیا ہے لیکن ہر کس و ناکس کو علم ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین برس کے لئے آرمی چیف مقرر کرنے کی توثیق حاصل کرنا تھا کیوں کہ سپریم کورٹ نے نومبر میں حکومت کے حکم نامہ کو ناقص اور کسی اختیار کے بغیر قرار دے کر 6 ماہ کے اندر قانون سازی کرنے اور آرمی چیف کی تقرری ، توسیع اور مراعات کے لئے قانون سازی کا حکم دیا تھا۔ گو کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ قانون کا علم بلند رکھنے کی پابند ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جس حق کو وزیر اعظم کے اختیار سے ماورا قرار دیتے ہوئے جنرل باجوہ کی توسیع کا حکم مسترد کیا تھا، وہ حق آئین کی کون سی شق اور قانون کی کون سی وضاحت کے تحت ازخود حاصل کرلیا۔

28 نومبر کے فیصلہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کے نوٹی فیکیشن کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے اس معاملہ پر قانون سازی کا حکم دیتے ہوئے جنرل باجوہ کو ان کے عہدے میں 6 ماہ کی توسیع دے دی تھی۔ یعنی جو حق وزیر اعظم کو حاصل نہیں تھا ، حالانکہ یہ حق پیپلز پارٹی کے دور میں یوسف رضا گیلانی بطور وزیر اعظم استعمال کرچکے تھے اور اسی حق کو ماضی میں بزور شمشیر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیل بھی تواتر سے استعمال کرتے آئے تھے ۔۔۔ اس حق کے بارے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس کا استعمال آئین کی روح کے منافی ہے۔ پھر اسی سانس میں نہ جانے کس روایت، قانونی رعایت اور عدالتی طریقہ کے مطابق خود وہی ’اختیار‘ حاصل کرتے ہوئے ایک روز بعد ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کو مزید6 ماہ تک کام کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی۔ حالانکہ اگرملک کا آئین یا قانون وزیر اعظم یا صدر کو کسی آرمی چیف کے عہدہ کی مدت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا تھا تو یہ اختیار سپریم کورٹ کو کیسے حاصل ہوسکتا تھا۔ سپریم کورٹ حاضر آرمی چیف کو ریٹائر ہونے کا حکم نہ دے سکی لیکن اس نے امید باندھ لی کہ پارلیمنٹ یہ بھاری پتھر اٹھالے گی۔ آج پارلیمنٹ نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے۔

اس معاملہ پر یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ سپریم کورٹ نے وسیع تر قومی مفاد میں یا نظریہ ضرورت کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان متعدد مواقع پر یہ ریمارکس دے چکے ہیں کہ نظریہ ضرورت دفن کردیا گیا ہے یعنی قانون کی کوئی ایسی تشریح واجب نہیں ہوگی جس کا کوئی جواز موجود نہ ہو اور جو صرف ایک خاص حاکم کی مرضی و منشا کو پورا کرنے کے لئے عذر کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی محال ہے کہ سپریم کورٹ نے کسی وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہوگا۔ کیوں کہ اس کا استحقاق ملک کے سیاست دانوں نے ’پیٹنٹ‘ کروایا ہؤا ہے۔ جب بھی ان کے کسی مفاد کو زک پہنچتی ہے تو عوام دشمن فیصلے کرتے ہوئے وسیع تر قومی مفاد کی دہائی دی جاتی ہے۔

 پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے آج قومی اسمبلی میں یہی عذر پیش کرتے ہوئے ان ترامیم کو واپس لے لیا جو ایک روز پہلے ہی چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے منظور کی تھیں۔ ان میں اس قانون میں سے یہ شق نکالنے کا کہا گیا تھا کہ اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کو اس بات کا پابند کرنے کی بات کی گئی تھی کہ توسیع سے پہلے وہ بنفس نفیس پارلیمانی کمیٹی کو ان وجوہ سے آگاہ کرنے کا پابند ہوگا کہ فورسز کے کسی چیف کو اس کے عہدے کی مدت میں توسیع دینا کیوں ضروری ہے۔ آج قومی اسمبلی میں کسی تکرار کے بغیر ان ترامیم کی تجویز واپس لیتے ہوئے نوید قمر نے وسیع تر قومی مفاد کے علاوہ تازہ ترین علاقائی صورت حال کو بھی پیپلز پارٹی کے فیصلہ کی وجہ قرار دیا۔ گویا اگر جمعہ کی صبح امریکی ڈرون ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک نہ کرتا اور ایران اور امریکہ کے درمیان تند و تیز دھمکیوں کا تبادلہ نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی اپنی پیش کردہ ترامیم کو منظور کروانے کے لئے ’پورا زور ‘ لگاتی۔

آج قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے جس ’کارکردگی‘ کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کی روشنی میں مکرر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے 28 نومبر کے حکم میں جنرل باجوہ کو مزید6 ماہ اپنے عہدے پر فائز رہنے کا حق دے کر اگرچہ ماورائے آئین و قانون اقدام کیا تھا لیکن یہ نہ تو نظریہ ضرورت کے تحت تھا کیوں کہ اسے’ دفن‘ کیا جاچکا ہے اور نہ قومی مفاد کی وجہ سے تھا کیوں کہ ثابت ہوچکا کہ اس کا خیال رکھنا ملک کے سیاست دانوں کا استحقاق ہے۔ یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ مستقبل میں کسی مقدمہ کی سماعت یا اسی معاملہ پر نظر ثانی اور حکم امتناع کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا کوئی دوسرا بنچ سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جنرل باجوہ کو عارضی مگر ’غیر قانونی‘ توسیع دینے کے فیصلہ کی قانونی بنیادوں کو کھنگالتا اور ریکارڈ کی درستی ہی کے لئے سہی اس فیصلہ کو ری وزٹ کرتے ہوئے یہ طے کیا جاتا کہ جو کام وزیر اعظم کے لئے غیر قانونی ہے وہی کام سپریم کورٹ کے ججوں کے لئے بھی کسی قانونی جواز کے بغیر ہوگا۔

تاہم اب اس کا امکان بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیوں کہ جس قانون کے تحت جنرل قمر جاوید باجوہ کو 29 مئی سے تین سال کی توسیع دی جائے گی،اس میں یہ بھی درج کردیا گیا ہے کہ اس قانون یا اس کے تحت فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی عوام کے منتخب نمائیندوں نے نہ صرف اپنے ہاتھ قلم کرکے “پھول ، چاند ستارہ” سرکار کے حوالے کردیے ہیں بلکہ عدالتی اختیا رکو بھی محدود کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ جنرل باجوہ کے لئے آج کا دن دوہری خوشی کا سبب ہوگا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے پہلے انہیں تین برس کی توسیع دی گئی تھی۔ اسے مسترد کرتے ہوئے عدالت نے انہیں 6 ماہ کی توسیع دے دی۔ اب پارلیمنٹ انہیں تین سال کی توسیع دینے کا قانون منظور کررہی ہے۔ اس طرح وہ 30 مئی 2020 سے تین سال کی توسیع کے ’مستحق ‘ ہوں گے۔ گویا تین کی بجائے وہ ساڑھے تین برس تک ’قوم کی خدمت‘ انجام دیتے رہیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری شاید کسی شرمندگی کی وجہ سے ووٹنگ کے دوران قومی اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔ یا پھر ہوسکتا ہے چند برس بعد کسی سیاسی اجتماع میں حلفاً یہ کہنا پڑے کہ ’ الحمد للہ میں نے تو اس کالے قانون کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا‘۔ سیاست دان دیوار میں سے بھی امکان کا کوئی راستہ نکال لیتا ہے اس لئے امیدرکھنی چاہئے کہ قومی سیاست کے کسی مرحلہ پر نواز شریف اور مریم نواز پھر سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے یہ دلیل دینے لگیں کہ آرمی ایکٹ کی حمایت کرکے دراصل ملک میں جمہوریت کو بچا لیا گیا تھا ورنہ سب کچھ تباہ ہوجاتا۔ اسی قسم کے غیر واضح دعوؤں اور ناقابل فہم دھمکیوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے دراصل ملک کے سیاست دانوں نے جمہوریت کو مذاق اور پارلیمنٹ کو عضو معطل بنایا ہے۔

سول ہے کیا عوام مسلسل ان کے دھوکہ میں آتے رہیں گے؟ فوری طور سے شاید اس کا جواب ہاں میں ہو لیکن اب بیداری اور شعور کی جو لہر ابھر رہی ہے،اس کی وجہ سے یہ امید قائم رکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں کہ سیاست دان تادیر عوامی خواہشات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرسکیں گے۔

اس مرحلے پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف سیاست دانوں کو الزام دے کر آگے بڑھا جاسکتا ہے ۔ کیا سیاست دانوں کو ہر بے اصولی پر آمادہ کرنے اور جمہوری نظام میں نقب لگانے والی قوتوں سے بھی کوئی سوال کرے گا کہ وہ کیوں کر عوامی استحقاق پر اپنی مرضی ٹھونسنے کو قومی مفاد قرار دے سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سوال کسی نہ کسی صورت سامنے آنے لگا ہے۔ خاطر جمع رکھی جائے آنے والے وقت میں اس سوال کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ اب ہمیشہ کے لئے قومی مفاد کے نام پر ذاتی اختیار مسلط کرنے یا گروہی مفاد حاصل کرنے کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

یہ مشکل اور جاں گسل سفر ہے۔ ملک کے سیاسی لیڈر اس آزمائش میں عوام کے ساتھ کھڑے ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں مٹھی بھر اراکین نے واک آؤٹ کرکے اس عمل سے ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا ہے لیکن ارکان کی واضح اکثریت نے عسکری قیادت کی غیر مشروط اطاعت کے ذریعے غلامی کا اجتماعی حلف لیا ہے۔ یہ دن ملک کی پارلیمانی تاریخ کے تاریک ترین دنوں میں شامل ہوگا۔ یہ دن ان ایام سے بھی زیادہ المناک ہے جب فوجی آمر منتخب پارلیمنٹ توڑنے اور حکومت کو معزول کرنے کا اقدام کرتے رہے ہیں۔ آج منتخب نمائیندوں نے رائے دہندگان کے اعتماد اور بھروسہ کا خون کیا ہے ۔

آنے والے دنوں میں یہ دلیل کافی نہیں ہوگی کہ سیاست دان آخر کیا کرتے۔ پیپلز پارٹی محض چالیس ووٹوں کے ساتھ کتنی مزاحمت کرسکتی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ تین برس میں قربانی دینے کا ریکارڈ قائم کیا۔ تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ جب فیصلہ کا وقت آیا تو سیاست دان عوام کی خواہشات کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکے۔ کوئی طاقت لازوال نہیں ہوتی۔ استبداد اور جمہوریت کشی کا موجودہ وقت بھی عارضی ثابت ہوگا۔ عوام کی حکمرانی کا راستہ روکا تو جاسکتا ہے لیکن اس راستے پر چلنے کی خواہش کو دبایا نہیں جاسکتا۔ جب تک اہل پاکستان میں یہ خواہش موجود ہے، جبر اور ناانصافی کو للکارا جاتا رہے گا۔

عدالت بہری ہوسکتی ہے، پارلیمنٹ کے ارکان مفاد یا خوف میں اندھے ہوسکتے ہیں لیکن آزاد، جمہوری، پر امن اور خوش حال پاکستان کی خواہش کچلے جانے کے باوجود سر اٹھاتی رہے گی۔ اس خواہش کو جتنا دبایا جائے گا یہ اتنی ہی توانا ہوگی۔ جاننا چاہئے حقوق سلب کرنے والوں کو ایک انسانی حیات نصیب ہوتی ہے۔ قوموں کی زندگی دہائیوں اور صدیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ پاک سرزمین کے باسیوں کے اچھے دن نگاہوں سے اوجھل مستقبل کے کسی پنّے میں سر نہواڑے موجود ہیں۔ وہ وقت آنے پر حقوق سلب کرنے والے غاصبوں میں شمار ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments