ایران کا حملہ اصلی تھا یا نمائشی؟


گزشتہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں ایرانی سٹریٹجی کے معمار جنرل قاسم سلیمانی کو میزائل حملے میں ہلاک کر دیا۔ جنرل قاسم کو ایران میں ایک ہیرو کی حیثیت حاصل تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اتنے اہم تھے کہ گزشتہ امریکی صدور ان کے کارناموں پر دانت تو خوب پیستے تھے مگر ان کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے انہیں چھونے کا حوصلہ نہیں کر پاتے تھے۔ ایران میں بجا طور پر اس قتل کے خلاف بے تحاشا غصہ پایا جاتا تھا۔

ایسے میں ایران نے جوابی حملہ کر دیا اور امریکی تنصیبات پر کوئی دو درجن میزائل داغ دیے۔ حملے کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے ٹویٹر کا محاذ سنبھالتے ہوئے آغاز ان الفاظ سے کیا کہ سب اچھا ہے، ایرانیوں نے عراق میں دو امریکی اڈوں پر میزائل حملہ کیا ہے، ہلاکتوں اور مالی نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، اب تک سب ٹھیک ہے۔

اگر دو چار امریکی اہلکار بھی مرے ہوتے تو امریکی صدر ”سب اچھا ہے“ وغیرہ ٹائپ الفاظ نہ لکھتا۔ ان الفاظ سے اندازہ ہو گیا تھا کہ امریکہ کا جانی نقصان نہیں ہوا یا کم از کم انہیں ابھی تک اس کا علم نہیں ہے۔ جبکہ ایرانی حکومت نے ”موقع واردات پر موجود قابل اعتماد ذرائع“ کے حوالے سے اسی افراد کے ہلاک ہونے اور دو سو کے زخمی ہونے کا اعلان کر دیا۔ اب ظاہر ہے کہ یا تو امریکی جھوٹ بول رہے ہیں یا ایرانی مار کھانے کے بعد اخلاقی فتح کا اعلان کر رہے ہیں۔

ہماری رائے تھی کہ ایران نے بہت احتیاط سے میزائل مارے ہیں اور خوب خیال رکھا ہے کہ کہیں کوئی میزائل کسی امریکی کو نہ جا لگے۔ جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کرنے کے پیچھے بھی یہی منطق بیان کی جا رہی ہے کہ امریکہ نے ایران کو پیغام پہنچایا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں ایرانی کارگزاری سے کوئی امریکی نہیں مرنا چاہیے، مگر اس کے باوجود ایک حملے میں چند امریکی ٹھیکیدار مارے گئے تو ٹرمپ نے جنرل قاسم کو ہدف بنانے کا حکم دے دیا۔ ایسی صورت میں باقاعدہ امریکی فوجی کو مارنے پر امریکہ کے بہت زیادہ برا منانے کا امکان تھا۔ براہ راست جنگ کی صورت میں ایرانی تنصیبات، میزائل اور ہوائی اڈے دو چار گھنٹوں میں خاک میں مل جاتے۔

لیکن امریکی بھی یہ بات جانتے تھے کہ ایرانی حکومت نے اپنے عوام کو منہ دکھانا ہے۔ اس لئے بعض خبروں کے مطابق ایران کو دوستوں کے ذریعے پیغام پہنچایا گیا کہ بھیا تمہارا ردعمل حد میں ہونا چاہیے۔ ایرانی بہت لحاظ مروت والے لوگ ہیں، اس لئے انہوں نے بھی عراق میں امریکی اڈوں پر حملے سے پہلے عراقی حکومت کو بتا دیا گیا کہ ہم امریکی اڈوں پر حملہ کرنے لگے ہیں۔ جب امریکی خوب چھپ چھپا گئے تو پھر حملہ ہوا۔ وہ بھی اس احتیاط سے کہ جن علاقوں میں امریکی تھے ان سے دور دور میزائل پھینکے۔

بعض امریکی حکام کو یقین ہے کہ ایران نے جان بوجھ کر ان سے دور دور حملہ کیا ہے۔ مقصد امریکی جانیں لینا نہیں بلکہ صرف یہ تھا کہ پیغام پہنچانا ہے کہ ہم بہت خطرناک لوگ ہیں، ہم سے مستی مت کرو۔

اب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامینائی نے اعلان کر دیا ہے کہ یہ امریکہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ایرانی میڈیا دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچانے کا اعلان کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں غصے سے بھنائے ہوئے ایرانی اب سڑکوں پر رقص کر رہے ہیں کہ شیطان بزرگ کو خوب مزا چکھایا۔ امریکی مطمئن ہیں کہ ہمارے بندے نہیں مرے۔

یوں وہ تیسری جنگ عظیم جو جنرل قاسم سلیمانی پر قاتلانہ حملے سے شروع ہوئی تھی، ففتھ جنریشن وار نکلی جس میں ظاہر ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے عوام کے لئے فاتح ہوتے ہیں۔ جب بھی دشمن کو شدید نقصان پہنچانے کا موڈ ہوا ایک ٹویٹ داغ دی۔

ایرانی سیانے لوگ ہیں۔ خود بھی سپر پاور رہے ہیں اور یونانی، رومی، عرب، ترک اور روسی سپر پاوروں کو بطور ہمسایہ بھگت چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اب تک قائم دائم ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ کہاں اصلی مکا مارنا ہے اور کہاں خوجی میاں کی طرح خوب مار کھا کر بھی ہوا میں قرولی بھونکنی ہے اور بڑے دشمن پر عظیم فتح کا اعلان کر دینا ہے۔ امریکہ سے بھی وہ ٹویٹر پر جنگ میں فتح حاصل کریں گے اور اصل وار اپنی حمایت یافتہ تنظیموں کے ذریعے کریں گے۔ پھر معصوم بن کر کھڑے ہو جائیں گے کہ ہمیں کیا پتہ یہ کیا ہو رہا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments