ذیابیطس اور سوتے میں دم گھٹنے کی بیماری


چونکہ ذیابیطس کے مریضوں میں مٹاپے کی بیماری عام ہے، ہمارے بہت سے مریضوں کو سلیپ ایپنیا یا سوتے میں دم گھٹنے کی بیماری لاحق ہے۔ اکثر لوگ سوتے میں خراٹے لیتے ہیں۔ عموماً اس کو ایک مزا حیہ بات سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جو لوگ سوتے میں خراٹے لیتے ہیں کبھی کبھار وہ سانس نہیں لے رہے ہوتے۔ یہ اصل میں ایک خطرناک بات ہے۔ اس بیماری سے اموات ہوتی ہیں۔

مو ٹاپے کی وجہ سے سانس کی نالی پتلی ہو جاتی ہے۔ جب کمر کے بل سوئیں تو گردن کے پٹھوں کے آرام میں ہونے سے یہ اور بھی کم آکسیجن کو گزرنے دیتی ہے۔ جب آکسیجن کی سپلائی بند ہوتی ہے تو یہ مریض ہلکا سا جاگتے ہیں تاکہ سانس لے سکیں۔ یہ ہر گھنٹے میں بہت بار ہوتا ہے۔ چونکہ مریض پوری طرح سے نہیں جاگتے ہیں اس لیے وہ ان کی موجودگی سے لاعلم ہوتے ہیں۔ جو لوگ درد یا نیند کی دوا لے کر سوئیں تو ان کا دماغ ان کو آکسیجن کی کمی کی صورت میں جگانے میں ناکام ہو سکتا ہے۔

جن لوگوں ‌ نے سونے سے پہلے شراب پی ہوئی ہو تو وہ بھی سلیپ ایپنیا کے ساتھ سوتے میں ‌ مر سکتے ہیں۔ سوتے میں دم گھٹنے کی بیماری کی وجہ سے ان مریضوں کی نیند پوری نہیں ہوتی اور ان کو دن میں زیادہ نیند آتی ہے۔ اگر یہ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہوں تو نیند آ جاتی ہے۔ یہ بات ڈرائیونگ میں بھی نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے سو جائیں تو ٹریفک کا حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ سوتے میں دم گھٹنے کی بیماری سے مریضوں میں بلڈ پریشر کی بیماری، انسولین کے خلاف مزاحمت، دل کی بیماری اور یہاں تک کہ پری ذیابیطس اور ذیابیطس تک کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

یہ مریض ذہنی یک سوئی سے کام نہیں کر سکتے اور ان کی طبعیت میں چڑچڑا پن اور جھنجلاہٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ خراب موڈ کی وجہ سے ان کے دیگر افراد کے ساتھ تعلقات بھی بگڑ سکتے ہیں۔ کتنے لوگ انٹرنیٹ پر دوسرے لوگوں ‌ سے اس لیے الجھ رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی نیند ٹھیک نہیں ‌ ہوئی۔ اس بیماری کو نیند کی اسٹڈی سے تشخیص کیا جاتا ہے اور اس کا علاج وزن میں کمی کے علاوہ سی پیپ مشین سے کیا جاتا ہے جو مریض کو سانس لینے میں مدد دیتی ہے۔ آپ کسی کو زور سے خراٹے بھرتا دیکھیں تو ان کو مناسب چیک اپ کروانے کا مشورہ دیں۔

سلیپ ایپنیا صرف بالغ افراد کو ہی نہیں بلکہ بچوں کو بھی ہو سکتا ہے۔ جب میر ی بیٹی 5 سال کی تھی تب ہماری انٹرنل میڈیسن کی ریذیڈنسی چل رہی تھی۔ جب بچوں کو صبح جگاتے تو وہ بہت چڑچڑی ہوتی اور اپنے بھائی سے بلا وجہ الجھتی تھی۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اس کے ٹانسلز بڑھے ہوئے تھے اور وہ سوتے میں خراٹے اور بہت کروٹیں لیتی تھی۔ مجھے فکر تھی کہ اگر اس کی نیند اچھی نہ ہوئی تو اس کا ذہن اسکول میں ٹھیک سے کام نہیں کرے گا جس سے اس کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

میں اس کو کان، ناک اور حلق کے ماہر کے پاس دکھانے لے گئی جنہوں نے سلیپ اسٹڈی کرنے کا مشورہ دیا۔ ہم دونوں رات میں سلیپ سینٹر گئے جہاں اس کے سر پر الیکٹراینسیفیلوگرام کے الیکٹروڈ لگائے گئے اور انگلی پر آکسیجن ناپنے والا آلہ لگا دیا گیا۔ اس کے علاوہ اس کی سوتے میں و ڈیو بھی بنائی گئی جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس کو واقعی سلیپ ایپنیا کی بیماری تھی۔ اس کے بعد اس کی ٹانسلیکٹومی کروائی جس کے بعد اس کا سلیپ ایپنیا ٹھیک ہو گیا۔

ایک تجربے میں محققین نے مشاہدہ کیا کہ جن چوہوں کو سونے سے روکا گیا وہ ان چوہوں کے مقابلے میں جلدی مر گئے جن کو کھانے یا پانی سے محروم رکھا گیا۔ نیند جسم پر ایک قرضہ ہے۔ دنیا کا بغیر نیند کا سب سے طویل ریکارڈ سان ڈیاگو کے ایک شہری رینڈی گارڈنر نے قائم کیا۔ ان کی عمر اب ستر کی دہائی میں ہے۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ رات میں دیر تک جاگنا اچھا نہیں ہے۔ 2017 میں این پی آر یعنی کہ نیشنل پبلک ریڈیو پر ان کا ایک دلچسپ انٹرویو پیش کیا گیا۔

1963 میں رینڈی گارڈنر سان ڈیاگو کیلیفورنیا منتقل ہوئے جہاں انہوں نے 11 راتیں جاگ کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 17 سال تھی، ان کو سائنس میں بہت دلچسپی تھی اور وہ جس شہر میں بھی رہتے وہاں سائنس کے میلے میں شرکت کرتے تھے۔ اس تجربے سے سائنسی میدان میں نیند کی کمی سے ہونے والے مسائل کے بارے میں آگاہی بڑھی۔ اکیلے جاگتے رہنا بہت مشکل کام ہے اس لیے انہوں نے دو دوستوں کی مدد حاصل کی جو باری باری جاگ کر ان کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔

اس دوران انہوں نے جاگتے رہنے کے لیے گھنٹوں کھڑے رہنے کی بھی کوشش کی۔ دو دن کے بعد ان کو شدید متلی کی شکایت ہوئی۔ اورنج اور لیموں کھانے سے کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ رینڈی گارڈنر نے کہا کہ نیند کے بغیر کچھ دنوں کے بعد میری یادداشت اتنی کمزور ہوگئی جیسے کسی الزہائمر کے مریض کی ہوجاتی ہے۔ کچھ دن گزرنے کے بعد اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایک نیند کے میدان میں تحقیق دان ڈاکٹر ڈیمنٹ پہنچ گئے، انہوں نے ایک کنورٹیبل گاڑی کرائے پر لی اور ہم اس میں باہر گھومنے گئے۔

اس سے مجھے جاگتے رہنے میں بہت مدد ملی۔ جنوری کی 8 تاریخ پر 1964 میں رینڈی گارڈنر نے دنیا کا جاگتے رہنے کا ریکارڈ توڑ دیا تھا۔ وہ 11 دن، یعنی 264 گھنٹے تک نہیں سوئے۔ اس کے بعد وہ 14 گھنٹے تک سوتے رہے اور جب جاگے تو تھوڑے سے چڑچڑے تھے لیکن پھر جلد ہی بہتر ہوگئے۔ اس تجربے کی وجہ سے ان کو سائنس کے میلے میں پہلا انعام دیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ تمام دنیا میں مشہور بھی ہوگئے۔

11 دن تو کافی لمبے ہوتے ہیں، اگر نیند میں کچھ گھنٹے بھی کمی کی جائے تو انسانی ذہن اور جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کی وجہ سے امریکہ میں سال میں دو بار وقت ایک گھنٹہ آگے اور پیچھے کیا جاتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک گھنٹہ کم ہوجانے سے دل کے دوروں اور ٹریفک کے حادثوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب خزاں کے موسم میں لوگوں کو ایک گھنٹہ مزید سونے کو ملتا ہے تو دل کے دورے کا خطرہ 21 فیصد کم ہوجاتا ہے۔ اچھی نیند اچھی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔

بہتر نیند کے لیے چند مشورے

ہفتے کے تمام سات دن، سونے اور جاگنے کا ایک ہی شیڈول بنائیں۔

بستر میں ‌ لیٹ کر ٹی وی دیکھنے یا پڑھنے سے گریز کیا جائے۔

کیفین والے مشروبات صبح ہی پیے جائیں ‌ تو مناسب ہے۔ شام میں ‌ چائے یا کافی پینے سے نیند خراب ہوسکتی ہے۔

باقاعدگی سے ورزش کرنے سے اچھی نیند آتی ہے۔ لیکن سونے سے پہلے ورزش سے پرہیز ضروری ہے ورنہ نیند بھاگ جائے گی۔

سونے کا کمرا آرام دہ اور پرسکون ہونا چاہیے۔

اگر آپ کی ایک بلی ہے تو اس کو سونے سے پہلے کھانا دے کر سوئیں ‌ ورنہ اس کو آدھی رات میں ‌ بھوک لگے گی اور وہ آپ کو منہ پر پنجہ مار کر جگا دے گی۔

اگر آپ کو آدھی رات میں ‌ گھڑی دیکھنے کی عادت ہے تو گھڑی چھپا دیں۔ آج کل تو ہر کسی کے پاس سیل فون ہے۔ اس کو دوسرے کمرے میں ‌ چارجر پر لگائیں ‌ تاکہ صبح‌ الارم کی آواز بھی آئے اور وہ بازو کی دسترس سے دور رہے۔

بھیڑیں گننے کی کوشش کرسکتے ہیں۔

شب بخیر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments