دہشت گردی ختم کرنے کے بعد پاکستان اب آسٹریلیا میں آگ بجھائے گا


کوئٹہ کی ایک مسجد میں بم دھماکہ سے 15 افراد مارے گئے۔ یہ اہم نہیں رہا کہ مارنے والے کون ہیں۔ ضروری ہے کہ جان لیا جائے مرنے والے نہتے شہری اور اس دیار بے اماں کے باسی تھے جسے دہشت گردی سے پاک کرنے کے دعوے چہار دانگ عالم میں گونج رہے ہیں۔

نئے پاکستان کے تصور کی خاک اڑا کر وزیر اعظم عمران خان یہ ظاہر کررہے ہیں کہ انہوں نے اپنے ملک میں سارے مسائل پر قابو پالیا ہے ۔ اب دنیا میں امن قائم کروانا ہی ان کے فرائض منصبی میں سر فہرست رہ گیا ہے۔ اسی لئے دنیا کے سب سے ہولناک اور خطرناک تنازعہ کو حل کرنے کے لئے شاہ محمود قریشی کو روانہ کیا گیاہے۔ جو کام امریکہ کی ساری اپوزیشن، میڈیا، امن پسند متحرک گروہ اور دانشور مل کر نہ کرسکے، اب امید کی جارہی ہے یاپاکستانی عوام کو باور کروایا جاررہا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ وہ کارنامہ انجام دے کر آئیں گے۔

 نیا پاکستان بنانے کا زعم و دعوی ہی کچھ ایسا دلفریب ہے کہ عمران خان دنیا کے کسی بھی معاملہ کو حل کرنے کا حوصلہ کرسکتے ہیں۔ تاہم ایسے ہی مزاج کے لئے اردو میں بزعم خویش کی اصطلاح مستعمل ہے لیکن جب آنکھوں میں سرسوں پھولی ہو تو تصویر کا وہی رخ دکھائی دیتا ہے جو کسی دماغ میں پہلے سے منعکس کرلیا جائے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسے ملک کا وزیر اعظم ویلفئیر ریاست قائم کرنے کی ڈینگیں مارتا ہو جہاں لوگ بھوک سے عاجز آکر خود کشی کرنے پر مجبور ہوچکے ہوں۔ اور وہاں ترقی اور عروج کی باتیں کی جائیں جہاں زوال نے مستقل ڈیرے ڈالے ہوں۔

دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں سول حکمرانی کا حق اپنے ہاتھ سے گزشتہ ستر برس سے ملک پر براہ راست یا بالواسطہ حکومت کرنے والی مقتدرہ کے حوالے کرنے والا وزیر اعظم عوام، ان کی سہولت و خوشحالی کی بات کرنے کا منہ نہیں رکھتا ۔ لیکن جب عکس کو حقیقت اور بے بسی و ناکامی کواختیار کا نام دے لیا جائے تو جو بھی کہا جائے کم ہے۔ یہی سبب ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانا ہی کافی نہیں سمجھا جارہا بلکہ زوال پذیر معیشت کو فلاحی ریاست کا ہم پلہ بنانے کا دعوی کرتے ہوئے یہ صورت پیدا کی جارہی ہے کہ : قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے کہ ہاں/رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔

شاعر کو یہ گمان تو تھا کہ اس نے کوئی کوشش تو نہیں کی لیکن موج مزے کے لئے سمجھ لینے میں کیا حرج ہے کہ دن بدل جائیں گے خواہ قرض کی ہی شراب پر گزارا ہورہا ہو۔ مفہوم اس کا محض اتنا ہی ہے کہ جب تک قرض ملتا ہے، اس وقت تک خواب دیکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔ ہمارا سلسلہ تو اس سے ماورا ہے۔ ہم قرض سے قرض چکاتے ہیں، اور فاقہ مستی ختم ہونے کی امید ہی نہیں کرتے بلکہ اس پر یقین کرنے لگے ہیں۔ سوال اٹھانا چونکہ ممنوع اور گردن زدنی ہے اس لئے وزیر اعظم خواہ شکست کو فتح کہیں، عسرت کو کشادگی بتائیں اور بدامنی کو امن و استحکام کہہ کر ایران اور امریکہ کی صلح کروانے کا اہتمام کریں کوئی چوں کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ جو پوچھے گا وہ میڈیا ہاؤس کے مالک کی نگاہ سے بچ بھی گیا تو پیمرا کو جواب دہ ہو گا ۔ نہیں تو فواد چوہدری کہیں بھی ایسے صحافی کی گردن ناپ کر اسے صحافت اور آزادی کے نام پر کلنک قرار دے سکتے ہیں۔

یہ طفل تسلیاں البتہ ان لوگوں کے دلوں کی آگ نہیں بجھا سکتیں جن کے چہیتے آج کوئٹہ کی مسجد میں مارے گئے یا دو روز پہلے اسی شہر میں ہونے والے ایک دوسرے دھماکہ میں جاں بحق ہوئے تھے۔ پاکستانی فوج کا دعوی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کا خاتمہ کردیا ہے بلکہ آپریشن ردالفساد کے ذریعے ان عوامل کا بھی قلع قمع کردیاگیا ہے جن کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی پروان چڑھتی رہی ہے۔ دیکھا جائے تو ڈان لیکس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت کا جینا حرام کرنے کے بعد 2018 کے انتخابات میں نئے پاکستان کی داعی سیاسی پارٹی کو اقتدار سونپنے کا منصوبہ بھی دراصل دہشت گردی ختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہی کہا جائے گا۔ یہ ساری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ نہیں تھی تو ملک کے سول معاملات میں مداخلت کی ایسی بھیانک مثال پیدا کرنے کا کیا جواز فراہم کیا جاسکتا ہے؟

جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2016 میں آرمی چیف متعین ہونے کے تھوڑے عرصے بعد ہی سے دہشت گردی کے خاتمہ کا اعلان کرنا شروع کردیا تھا۔ تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2017 میں برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کو نشانے پر لیا اور پاکستانی لیڈروں کو جھوٹے اور دھوکے باز قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ لوگ امریکی صدور کو بےوقوف بنا کر کثیر فنڈز وصول کرتے رہے ہیں لیکن ان مقاصد کے حصول کے لئے کوئی کام نہیں کیا جن کا یہ وعدہ کرتے تھے۔ اس شدید اور ہتک آمیز تنقید کے جواب میں جنرل باجوہ کا جواب مختصر اور سادہ تھا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں بلکہ اس نے اپنے وسائل سے ہی دہشت گردی کا قلع قمع کیا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی ختم کرنے والا دنیا کا واحد ملک ہے۔ اس لئے امریکہ خواہ پاکستان کو امداد نہ دے لیکن دہشت گردی کے خلاف ہماری جد و جہد اور قربانیوں کو تسلیم کیا جائے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے شاید جنرل صاحب کی بات کا بھرم رکھتے ہوئے پاکستان کی ہمہ قسم عسکری امداد بند کردی جس میں کولیشن سپورٹ فنڈ کے تحت ملنے والے وسائل بھی شامل تھے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی تحسین البتہ سیاسی ضرورتوں کے تحت ہی کی جاتی ہے ورنہ’ پاکستان کو دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لئے مزید کوششیں کرنی چاہئیں‘ کا مطالبہ دہرایا جاتا ہے۔ یہ مطالبہ اگر امریکہ براہ راست نہ کرے تو بھارتی الزامات کی باالواسطہ تائید کرتے ہوئے اس کا اہتمام کرلیا جاتا ہے یا اب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور عالمی مالیاتی فنڈ کے ذریعے پاکستان سے ’ڈو مور‘ کا اصرار ہوتا رہتا ہے۔

امریکہ حلیف اور دوست ملک ہونے کے باوجود کبھی قابل بھروسہ نہیں رہا، اس لئے پاکستانیوں کو اس کی باتوں اور الزامات کا بھی کوئی اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے لئے آرمی چیف کا یہ اعلان ہی کافی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا قلع قمع کردیا گیا ہے۔ اس لئے کوئٹہ میں چند روز کے اندر دو دہشت گرد حملوں کے بعد یہ سوال بھی آرمی چیف سے ہی کرنا پڑے گا کہ وہ کن دہشت گردوں کو ختم کرنے اور ان کے سہولت کاروں سے نمٹنے کی بات کرتے ہیں۔ اب یہ حملے کون کررہا ہے اور پاک فوج اپنی تمام تر طاقت اور نگرانی کے باوجود ان کا سد باب کرنے میں کیوں ناکام ہے۔ مان لیا فوج کو بھارت سے خطرہ ہے اور لائن آف کنٹرول پر اس کی مصروفیات میں اضافہ ہوگیا ہے لیکن ملک کے جو شہری اپنی جان کی حفاظت کے لئے سیکورٹی فورسز کی باتوں پر یقین کرتے ہیں، انہیں خون ریزی کی مذمت کرنے کے علاوہ کیا تسلی دی جائے گی؟

جنرل قمر جاوید باجوہ ضرور یہ سمجھتے ہوں گے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم کرنے کے بعد معاملات کو درست سمت میں رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ فوجی قیادت میں تبدیلی نہ کی جائے اور وہ مزید تین برس کے لئے فوج کی سربراہی کا بار عظیم اپنے کاندھوں پر اٹھا ئے رکھیں ۔ اس اہم فیصلہ کی نزاکت و اہمیت کو جب سپریم کورٹ کے بنچ نے ماننے سے انکار کردیاتو مجبوراً اسے پارلیمنٹ میں لے جانا پڑا اور سیاسی دشمنوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے ’وسیع تر قومی مفاد‘ کی حفاظت کا ترانہ گانے پر مجبور کیا گیا۔ اس اجتماعی اعتراف اطاعت کا اہتمام کرنے کی ضرور کوئی جامع وجوہات رہی ہوں گی۔

اس حوالے سے چیف صاحب سے ہی سوال کیا جائے گا کیوں کہ ان کے سوا اس ملک میں مکمل اتھارٹی اور یقین سے بات کرنے کا یارا کسی میں نہیں ۔ آج کوئٹہ کے شہیدوں پرنوحہ کرنے والے دہشت گردی کے خاتمہ کے بارے میں توسیع یافتہ آرمی چیف کا دامن تھام کر ہی پوچھیں گے کہ ان کے ساتھ یہ سانحہ کیوں ہؤا۔ آپ نے تو دہشت گردوں کو سر اٹھانے کی مہلت دینے سے انکار کیا ہے۔

ایک طرف وزیر اعظم کے ایلچی کے طور پر شاہ محمود قریشی مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں جہاں سے وہ امریکہ جائیں گے اور ایران اور امریکہ کے درمیان تصادم ختم کروانے کی منصوبہ بندی کریں گے ۔ دوسری طرف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو آنے والے آسٹریلوی فورسز کے نائب چیف وائس ایڈمرل ڈیوڈ جانسن کو پیش کش کی ہے کہ پاکستانی فوج مشرقی آسٹریلیا میں لگی ہوئی آگ بجھانے میں مدد دینے کے لئے تیار ہے۔ یہ عالمی نوعیت کا سانحہ ہے جس کے دنیا کے ماحولیات پر بھیانک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن کیا پاکستان کے پاس اپنے مسائل اور مشکلات سے نمٹنے کے بعد اتنے وسائل اور صلاحیت باقی بچی ہے کہ وہ آسٹریلیا جیسے خوشحال اور فنی لحاظ سے کئی گنا زیادہ صلاحیت رکھنے والے ملک کی مدد کرسکے ؟

سنگین قومی مسائل کے عین بیچ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے عالمی امن اور ماحولیات میں کردار ادا کرنے کی خواہش و کوشش کا کیا مطلب لیا جاسکتا ہے؟ اگر یہ سستی شہرت حاصل کرنے اور اہل پاکستان میں غیر ضروری احساس برتری پیدا کرنے کا ہتھکنڈا نہیں ہے تو شدید مالی مشکلات میں عوام کی توجہ مبذول کروانے کی بھونڈی کوشش ضرور ہے۔ خیر سگالی کا ایسا اظہار کوئٹہ کے شہیدوں کے لہو کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments