طاقت اور شعور کا مقابلہ


محترم وجاہت مسعود صاحب کی تحریر انسانی ذہن و جسم کے غیر متحرک حصوں میں بھی ارتعاش پیدا کر دیتی ہے۔ لکھنے والا الفاظ اور تحریر کی ترتیب اور پیش کرنے کا انداز سمجھتا ہے۔ وجاہت صاحب کے کالم ‘’22 کروڑ کے لئے پیر و مرشد کی بشارت” پڑھنے کے بعد منتشر خیالات کے چند منتشر ٹکڑے پیش خدمت ہیں۔

پڑھنے والے ذہین ہی نہیں فطین بھی ہو چکے ہیں۔ وہ صرف تحریر کردہ الفاظ ہی نہیں بلکہ صورتوں کا احوال اور زمانے کی چال بھی آسانی سے پڑھ لیتے ہیں۔ موسم ،حالات اور ضروریات کی شرائط بھی پڑھ لیتے ہیں۔ وہ سب کا نہیں صرف اپنا احساس رکھتے ہیں۔ وہ اچھے انسانی معاشر ے کی تعمیر نہیں بلکہ انسانی معاشرے میں ایسے راستے تلاش کرنے میں یقین رکھتے ہیں جو انہیں آگے سے آگے لے جائے۔

دماغ اور معدے کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ دماغ میں تنائو ہو تو معدے پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ جو انسان اب تک سوچنے اور فیصلے کرنے کے لئے ذہن کو ہی بروئے کار لانے پہ یقین رکھتے ہیں، وہ اجتماعی فائدے میں انفرادی حقوق قربان کر دیتے ہیں۔ جو سوچنے کے لئے دماغ کے ساتھ پیٹ کو بھی استعمال کر تے ہیں، وہ پھلتے پھولتے نظر آتے ہیں۔ یہ کسی ایک زمانے کی داستان نہیں، ہر دور کی یہی کہانیاں ہیں ۔ اب تو دنیا میں جینے کے لئے پیسہ بنیادی شرط بن چکی ہے کہ معاشرتی زندگی میں پیسہ ہر شے اور ہر رشتے پہ بالادستی اختیار کر چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غیروں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے یا اپنوں سے اپنے وجود کا احترام؟

ظالم اور ظلم کا کسی سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ یہ طاقت کے پیمانے ہیں۔ حقیقت کے انصاف کا پیمانہ یہی ہوتا ہے کہ اختیار چلانے کے لئے کتنی طاقت ہے۔ وہ وقت گیا کہ جب جانور سے طاقت اور انسان سے الفاظ کو سمجھنے کی توقع رکھی جاتی تھی۔ اب کا ذہین پڑھنے والا الفاظ کے جال میں نہیں پھنستا۔ کسی حسین کے حسن کی طرح اچھی تحریر سے صرف لطف اندوز ہی ہوتا ہے، ان الفاظ کے خیالات کو زمانے کے حالات و واقعات پر حاوی نہیں کرتا۔ طاقت چیز ہی ایسی ہے کہ سب اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ بلاشبہ کسی کو مجبور تو کیا جا سکتا ہے لیکن ظلم اور ناانصافی کے احساس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نسل درنسل طاقت کی اطاعت کا چلن انسان کی فطرت کا خاصہ بن جاتا ہے۔

یہ دیکھا جاتا ہے کہ دنیا میں غیر معمولی بلکہ جادوئی ترقی نے انسانی درندگی کو مہذب طریقہ کار کا نام دے دیا ہے۔ پہلے مخالف کے لئے دشمن کا لفظ استعمال ہوتا تھا،اب ناقابل برداشت وجود کے طور پر دہشت گرد کا نام تخلیق کر لیا گیا ہے۔ جو آپ کو مخالف محسوس ہو، چاہے وہ حملہ آور ہو یا اپنے حق کے حصول کا داعی، اسے دہشت گرد نامی دشمن قرار دے کر صفحہ ہستی سے مٹانا ہی انسانیت کا پہلا فرض قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ فارمولہ عالمی سطح پہ ہی نہیں بلکہ ہر ملک کا آزمودہ ہتھیار بن چکا ہے۔

انسانیت کی بہتری اور تقدیس کی دنیا کا قیام عقل و دانش کا ایک خواب ہی رہے گی۔ نا معلوم کتنے اس خواب کی تاریک راہوں میں مارے گئے اور کتنے اس نیم تاریک راستے میں مر جائیں گے۔ طاقت دوسری طاقت کے وجود کو ہی تسلیم کرتی ہے، برتر طاقت کا احترام اور اطاعت کرتی ہے۔ برابری کی بنیاد پرانسانی حقوق کی خود کار طریقے سے فراہمی کا مستحکم نظام انسانی شعور کی ایسی ایجاد ہے جس سے مستفید ہونا نہ جانے انسانی نسلوں کی نصیب میں ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments