عمان کا قائد اعظم رخصت ہو گیا


آج عمان اداس ہے!

عمان کا قائد اعظم جدا ہو گیا!

عمان کے لاکھوں شہریوں نے اپنے قائد کو سسکیوں اور آنسوؤں کے ساتھ خداحافظ کہا، سلطان قابوس بن سعید اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔

ہمارا اور عمان کا رشتہ گیارہ برس پہلے بنا جب روزگار کی تلاش ہمیں یہاں لے آئی۔ مشرق وسطیٰ کے بارے میں عجیب و غریب داستانوں سے ہم آگاہ تو تھے ہی لیکن رخت سفر سے پہلے احباب نے خطرات سے نمٹنے کیلئے مقدور بھر نسخےعطا کیے۔ مشرق وسطیٰ کے مقامی لوگوں کا براؤن چمڑی رکھنے والے غیر ملکیوں کے لئے گھمنڈ اور حقارت سے بھرا رویہ زبان زد عام تھا۔ مقامی لوگوں کےمقابلے میں حقوق کا سلب ہونا اور کہیں کوئی شنوائی نہ ہونے کے متعلق بھی معلوم تھا۔ ہم سعودی عرب میں دو سال گزار چکے تھے اور کٹھنائیوں سے کماحقہ واقف تھے۔

ہم نے پہلی دفعہ 2008 میں عمان کے دارالحکومت مسقط کی سرزمین پہ قدم رکھا جب ہمیں انٹرویو کی دعوت دے کے مع ٹکٹ اور قیام کے بلوایا گیا۔ اوائل صبح فلائٹ لینڈ ہوئی اور امیگریشن کے مراحل سے گزرتے ہوئے ہی ہم حیرت و پریشانی کا شکار ہو گئے۔ ہر مرحلے پہ نخوت زدہ، بیزار، حقارت سے گھورنےوالے سعودی چہروں کی بجائے انتہائی خوش اخلاق، مودب اور نگاہوں میں عزت و احترام لئے عمانی بیٹھے تھے۔

ہمارے پیشے کا جان کے اس رویے میں مزید گرم جوشی آ گئی۔ استقبال کےلئے وزارت صحت کا ڈرائیور موجود تھا جو ہوٹل پہنچانے آیا تھا۔ جملہ خوبیوں میں وہ بھی اپنے ہم وطنوں جیسا تھا۔

وزارت صحت میں اعلیٰ افسران اور سینیر ڈاکٹروں کے پینل نے انٹرویو لیا۔ قابلیت اور ذاتی کوائف کی بنیاد پہ عزت و احترام کا جو احساس اس دن ہمیں ملا، اس کے لئے وطن عزیز میں اٹھارہ برس سرکاری نوکری کے دوران ہم ترستے ہی رہے۔

اس دن ہم نے عمان کو اور عمان نے ہمیں اپنا بنا لیا۔

 2009 میں ہم نے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور حیرت کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو ہر لحظہ یہ کہنے پہ مجبور کر دیتا، ایسا وطن عزیز میں کیوں نہیں ہوتا؟

مذہبی رواداری کا جو مظاہرہ ہم نے عمان میں پایا وہ فقید المثال ہے۔ عمان کا سرکاری مذہب عبادی اسلام لیکن سنی اور شعیہ کافی تعداد میں ہیں۔ غیر ملکیوں میں مغربی لوگوں کے ساتھ ساتھ انڈین، بنگلہ دیشی، پاکستانی، فلپائنی، نیپالی، صومالی، مصری، سوڈانی، زنجباری، عراقی، ایرانی، یمنی، اردنی اور سری لنکن بھی موجود ہیں اور ہر کوئی اپنی فقہ اور اپنے مذہب پہ عمل کرنے کے لئے آزاد ہے۔

اہل تشیع کے لئے امام بارگاہوں میں محرم پورے احترام سے منایا جاتا ہے۔ وہیں عیسائیوں کی سنڈے سروس کے لئے رومن کیتھولک اور پروٹیسنٹ چرچ موجود ہیں۔ ہندوؤں کے مندر میں پجاری اور سکھوں کا گردوارہ آزادی سے اپنی روایات بجا لاتے ہیں۔

ہمارے قیام کے شروع میں ہمارے صاحب کو ایک عمانی مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جماعت میں وہ واحد تھے جنہوں نے ہاتھ کھول کے نماز پڑھی۔ نہ کسی کے ماتھے پہ تیوری آئی، نہ ہی کوئی اسلام سے خروج کا فتویٰ آیا اور نہ ہی امام مسجد نے انہیں مسجد سے نکلنے کا حکم دیا۔

بادشاہت کے باوجود شخصی آزادی کا جو تصور یہاں ملا اس سے بہت سی جمہوری روایات شرما سکتی ہیں۔ عورت کی آزادی، تعلیم اور عزت ایسی کہ ہر لحظہ دل سے دعا نکلے۔ عمانی عورت ہر شعبے میں جانے کے لئے آزاد اور جوہر قابل کو وظیفہ دے کے مغرب میں مزید تعلیم کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ ہم نے اپنےہسپتال میں عمانی نرس کا وہ وقار دیکھا ہے کہ دل مسوس کر رہ گئے کہ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟

مادی ترقی کا یہ عالم ہے کہ کارپٹڈ سڑکوں اور عالشیان فلائی اوورز کا جال ملک بھر میں پھیلا ہے۔ دور دراز کے دیہات میں رہنے والوں کو وہی سہولیات کی دستیابی جو بڑے شہروں کا نصیب سو کوئی شہروں کی طرف ہجرت نہیں کرتا۔

ہمارے بہت سے دوستوں اور دوسرے غیر ملکیوں کو بیس سال سے زیادہ خدمات انجام دینے پر عمانی نیشینلٹی سے بھی نوازا جا چکا ہے اور یہ بھی مشرق وسطی میں ایک مثال ہے۔

یہ سب آخر کس کی سوچ سے ممکن ہوا؟ عمان کو کس نے امن کا گہوارہ بنا دیا؟ کس نے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں کسی بھی اختلاف کی صورت میں اپنےآپ کو ہر صورت میں غیر جانبدار رکھا ؟

ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کو تو نہیں دیکھا۔ لیکن ہماری خوش قسمتی کہ ہم نے عمان کے قائداعظم کی عملداری میں پچھلے گیارہ سال گزارے۔

سلطان قابوس بن سعید السعید اٹھارہ نومبر انیس سو چالیس میں سلالہ میں پیدا ہوئے۔ خاندان سعید کے وہ چودھویں جانشین تھے۔ ابتدائی تعلیم ملک میں ہی حاصل کرنے کے بعد سولہ سال کی عمر میں انگلستان سدھارے۔ ایک پرائیویٹ ادارے سے بیچلرز کرنے کے بعد مشہور عالم سینڈہرسٹ ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے۔ دو برس کی تربیت کے بعد برٹش آرمی کی رائفلز رجمنٹ میں کمیشن لیا اور کچھ برس خدمات انجام دیں۔

1966  میں جب واپس وطن لوٹے تو آنکھوں میں حب الوطنی کی قندیل روشن تھی اور ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے کرنے کا عزم تھا۔

انیس سو ستر سے قبل کا عمان انتہائی پس ماندہ ملک گنا جاتا تھا۔ مسقط کی واحد شاہراہ کی لمبائی کل چھ کلومیٹر تھی۔ تعلیم کے اسباب نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس وقت علم کے شوقین اپنے بل بوتے پہ کراچی کا رخ کیا کرتے تھے۔ یہاں ابھی بھی ان عمانی باشندوں کی تعداد کم نہیں جو کراچی کو اپنی مادر علمی جانتےہوئے اردو بولنا پسند کرتے ہیں۔ ذرائع روزگار ماہی گیری اور کھجوروں کے باغات تک محدود تھے۔

سلطان قابوس نے انیس سو ستر میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک ایسے خواب کا تعاقب شروع کیا جس نے عمان کو ایک ایسے امن پسند، ترقی یافتہ اور روادارملک میں بدل دیا، جہاں کے باشندوں نے اپنے قائد کے اعلیٰ اوصاف و کردارکی تقلید کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک انتہائی مہذب قوم میں ڈھال لیا۔ تربیت کرنے والے نے اپنے تدبر، اپنے غورو فکر، اپنے عزم و وفا، اپنے فہم وادراک، اپنے استقلال، اپنی ہمت، اپنی تمکنت اور اپنے تحمل کو ضرب المثل بنایا، ساری ملت اسی رنگ میں ڈھلی اور پورے خطے میں عمانی قوم منفرد بن گئی۔

ہم نے عمانی دوستوں کو پرستش کی حد تک سلطان قابوس سے محبت کرتےدیکھا۔ سلطان قابوس نے ان کی بے رونق زندگی کو جینے کے لائق بنا دیا تھا۔ ہم نے ایک مرتبہ سلطان قابوس کے یوم ولادت پہ بے انتہا جوش وخروش دیکھ کے کچھ حیرت کا اظہار کیا تو ہماری ایک ساتھی ڈاکٹر راحیلہ کہنے لکیں ، اگر قائداعظم موجود ہوتے تو کیا ہم سرخوشی کے عالم میں ایسا اظہار نہ کرتے۔

آج مسقط میں چھاجوں مینہ برس رہا ہے! یوں لگتا ہے کہ آسمان بھی رو رہا ہے۔ ہم اداس ہیں کہ ایک عظیم رہنما دنیا سے رخصت ہوا لیکن ہمارے دل میں ایک کیفیت یہ بھی ہے کہ ہمیں موقع ملا کہ ہم نے عمان میں زندگی برت کے یہ جانا کہ امن پسند اور مذہبی رواداری کی حامل مملکت کیسی ہوا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments