منظر اُوچوی منظروں کے دائرے سے باہر نکل گئے


وہ 28 دسمبر 2019 ء کی ایک کہرزدہ اور بے نورصبح تھی۔ شدید سردی نے جیسے اردگرد کے ماحول کو منجمداور سوگوار کر دیا تھا۔ دفتر جاتے ہوئے راستے میں کسی مسجد کے لاؤڈ سپیکرز سے کسی کی وفات کا اعلان ہو رہا تھا جو ٹھیک طرح سے سمجھ نہ آنے کے باوجود اداس کر گیا۔ اوچ شریف ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ کسی واقعہ یا وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے لیکن اعلان شاید محلہ خواجگان کی مسجد سے ہوا تھاجو ہمارے محلہ شمس کالونی سے کافی دور ہے۔

”نامعلوم“ مرنے والے کی مغفرت کی دعا کرتے جب ہم دفتر وارد ہوئے تو شہباز علی خان صاحب رنج و غم کی الم ناک تصویر بنے بیٹھے تھے۔ شہباز علی خان سرائیکی زبان و ادب کے قومی شاعر، صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی حاصل کرنے والے حضرت جانباز جتوئی کے بڑے فرزند ہیں اور ان کا گھر محلہ خواجگان سے کافی قریب پڑتا ہے۔ سلام کے بعد اس سے پیشتر کہ ہم ان سے فوتیدگی کے اعلان کی بابت پوچھتے، انہوں نے پہلے ہی یہ روح فرسا خبر سنا دی کہ ”میڈے اَباّ سائیں دا پیارا شاگرد تے تہاڈا یار منظر اوچوی اج جھوک لڈا گے“۔ دل سے آہ نکلی ”ہائے او موت تجھے موت ہی آئی ہوتی“۔ پھر ادراک ہوا کہ مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر منادی کرنے والا منظراوچوی صاحب کے انتقال کی منادی کر رہا تھا۔

منظر صاحب سے ہماری آشنائی بیس برسوں پر محیط تھی۔ پہلی ملاقات کی بازآفرینی ابھی تک دل و دماغ میں ہمکتی ہے۔ اباجی پندرہ روزہ جریدے ”نوائے اوچ“ کے مدیر تھے اور انہوں نے گھر کا ایک حصہ اخبار کے دفتر کے لئے مختص کر رکھا تھاجس کا دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ دل کے عطر دان میں جاڑے کی وہ شام ابھی تک عود کی طرح سلگ رہی ہے جب گھرکے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ اباجی اس وقت گھر نہیں تھے لہذا ہمیں ہی دروازے پر جانا پڑا۔

باہر گلی میں ایک مرنجان مرنج عمر رسیدہ صاحب اپنی تمام تر کہولت اور ”کھڑتل سائیکل“ کے ہمراہ عاجزی و انکساری کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ ہمیں دیکھ کر اپنے چہرے پر ایک دِل ستاں مسکراہٹ سجائی اور اسی عاجزی و انکساری کے ساتھ دونوں ہاتھ اپنے ماتھے پر لے جا کر سلام کیا۔ پھر وہ گویا ہوئے کہ ”نسیم صاحب سے ملنا ہے۔ اگر وہ گھر پر تشریف رکھتے ہوں تو انہیں کہیے کہ اُن کے دوست استاد جانباز جتوئی صاحب کا 42 سال تک بستہ تھامنے والا ان کا شاگرد فقیر منظر اوچوی ان کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوا ہے“۔

جان پہچان نہ ہونے کے باوجود پہلی ہی نظر میں وہ بزرگ ہمیں اپنے اپنے سے اور بھلے سے لگے۔ بچوں جیسی معصومیت اور سادگی کے ساتھ۔ جیسا ان کے ساتھ ہمارا صدیوں پرانا رشتہ ہو۔ ہمارے جواب پر کہ ابو گھر میں نہیں ہیں تو انہوں نے جیب سے کاغذ کا ایک بوسیدہ ٹکڑا نکالا اور ہمارے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ اسے دھیان سے نسیم صاحب کو دے دیجئے گا اور انہیں کہیے گا کہ وہ اس کلام کو ”نوائے اوچ“ میں شائع کر دیں۔ گھر آ کر ہم نے کاغذ کے اس بوسیدہ سے ٹکڑے کو کھولا تو اس پر ”خط شکستہ“ میں ایک غزل لکھی تھی۔

اپنا قصۂ غم درد کی داستاں، میں سناتا رہا لوگ ہنستے رہے

مَیں تو دیوانہ تھا پاگلوں کی طرح، مَیں چِلاتا رہا لوگ ہنستے رہے

تم نہیں ہو مسیحا مِرے درد کے، میرے زخموں سے نہ چھیڑ خوانی کرو

نہ طبیبوں نے سمجھا میری بات کو، مَیں چِلاتا رہا لوگ ہنستے رہے

میں نے جب بھی کبھی رخ کیا شہر کا، مجھ پہ ہر سمت سے انگلیاں اٹھ گئیں

میں یونہی روز و شب فکر کی موج میں، لڑکھڑاتا رہا لوگ ہنستے رہے

کلام کیا تھا ایک جہان معنی تھا جس میں کنائے، تشبیہات اور دیگر شعری اصناف کے کئی پہلو دلکش اور بھرپور انداز میں عیاں تھے۔ اس میں دکھ کی مہک تھی، تنہائی تھی، انتظار کی لمبی دوپہر تھی اور جدائی کا موسم بھی۔ اس وقت ہماری عمر محض چودہ یا پندرہ سال کی تھی جب لڑکپن کی شفق رنگ کے ساتھ رومانس جذبات کی کارنس پر سجے ہوتے ہیں اور چاند چہروں سے نگار خانہ دل آباد ہوتا ہے۔ ہمیں وہ کلام اتنا اچھالگاکہ اسے اسی سمے سکول کے ہوم ورک کی کاپی پر لکھ لیا۔

رات کو اباجی گھر آئے تو ہم نے بوسیدہ کاغذ ان کے حوالے کرتے ہوئے انہیں منظر صاحب کی آمد کا بتایا۔ ان کے ذکر پر اباجی کے چہرے پر محبت بھری شفیق مسکراہٹ ابھر آئی اور کہنے لگے منظر صاحب ہمارے بے حس معاشرے کا وہ ہیرا ہے، غربت کی دھول نے جس کی روشنی کو کجلا دیا ہے۔ ہم بحیثیت قوم زندگی میں ان ہیروں کی قدر نہیں کرتے، بس ان کی موت کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ان کے جانے کے بعد چاروں طرف سے توصیف کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔

اس پہلی ملاقات کے بعد منظر اوچوی سے کئی بار سرراہے ملاقاتیں ہوئیں۔ چونگی شکرانی کے چائے کے ڈھابے پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کوئلوں پر پکی ہوئی چائے کا حظ اٹھایا اور ان کے کلام سے محظوظ ہوئے۔ ہر بار ہم نے انہیں اسی سائیکل کے ساتھ ہی دیکھا۔ وہی شفیق اور جادوئی مسکراہٹ ہمیشہ ان کے جھریوں بھرے چہرے پر سجی ہوتی۔ ہمارا لڑکپن بیتا، جوانی جھیلی اور زندگی کی دوپہر میں منظر صاحب کی محبت کی چھاؤں ہمیشہ ہم پر تنی رہی۔

ستمبر 2017 ء کی بات ہے۔ احمد پور شرقیہ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر اور ادیب پروفیسر شہزاد عاطر نے رابطہ کیا کہ وہ تحصیل احمد پور شرقیہ میں سرائیکی زبان و ادب کے گم نام شعراء کے کلام اور ان کی شخصیت پر ایم فل کی ڈگری کے لئے کا مقالہ لکھنا چاہتے ہیں اور انہیں اوچ شریف کے سرائیکی شعراء کے حوالے سے معلومات درکار ہیں۔ اس دوران انہوں نے بطور خاص منظر اوچوی سے بھی ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ہم نے ان کی خواہش یوں پوری کی کہ اوچ شریف کی جناح لائبریری میں منظر اوچوی کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کا پروگرام ترتیب دے کر شہزاد عاطر صاحب کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ مہمان خصوصی کے طور پر منظر اوچوی نے اس تقریب میں شرکت کر کے چار چاند لگا دیے اور اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا۔

تقریب کے اختتام پر منظر صاحب نے ہمیں یوں ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کیا کہ انہوں نے اپنی جیب سے ایک مڑا تڑا سا بوسیدہ اخبار نکال کر ہمارے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ ”نوائے اوچ“ کا ”جانباز جتوئی نمبر“ تھا جس کی ہمیں عرصہ دراز سے تلاش تھی۔ کہنے لگے کہ استاد جانباز جتوئی سائیں کے حوالے سے آپ کے والد صاحب نے ”نوائے اوچ“ کا خصوصی ایڈیشن شائع کر کے ان کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ ان کا عطا کیا ہوا ایک شمارہ میرے غریب خانے پر محفوظ تھا۔ لیکن اب طبیعت کچھ خراب رہتی ہے۔ نجانے کب سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے تو بزرگوں کی یہ قیمتی نشانی آپ سنبھال کر رکھیئے۔ یادیں ہیں کہ ہجوم کیے جاتی ہیں۔

اس تقریب میں انہوں نے حاضرین کے سامنے اپنی ذات کے مخفی گوشوں کو عیاں کیا۔ منظر اوچوی نے اپنے بارے میں جو معلومات دیں اس کے مطابق وہ اوچ شریف کے نواحی موضع مخدوم پور میں ہوت محمد خان کے گھر 1939 ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام منظور حسین تھا۔ منظر اوچوی کے آباؤ اجداد کا تعلق ضلع مظفر گڑھ کے علاقے محمود کوٹ کے جگلانی بلوچ خاندان سے تھا۔ انہوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1953 ء میں کیا۔ ان کا پہلا شعر مندرجہ ذیل ہے۔

یہی تو ہے کہانی بس دل مظلوم مضطر کی

مرے ویران گلشن میں بہار آئی تو دم بھر کی

منظر اوچوی خطہ پاک اوچ کی روحانیت میں رچی بسی فضاؤں میں سانس لینے والے ایسے شاعر تھے جنہوں نے اپنے جداگانہ انداز اور شعری حسن سے ایک دنیا کو متاثر کیا۔ اوچ شریف کی دھرتی سے ہی تعلق رکھنے والے پاکستان کے معروف صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر حضرت جانباز جتوئی کے آگے زانوئے تلمذ طے کر کے 42 سال ان کا بستہ اٹھانے کی سعادت حاصل کرنے والے منظر اوچوی وہ شاعر تھے جنہوں نے زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر پھیلتی تلخ حقیقتوں کو خوبصورت لفظوں کی مالا میں پرو کر ایک طرف جمالیاتی ذوق کی تحسین کی تو دوسری طرف اپنے عہد کی سچی تصویر کشی کرتے رہے۔

پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان سمیت کئی سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں اپنے کلام سے اہل ذوق کو محظوظ کرنے والے منظر اوچوی کی شخصیت اور شاعری ایک دوسرے کی آئینہ دار رہی۔ جس طرح ان کے رویے میں حسن سلوک، محبت اور اپنائیت جھلکتی تھی، ان کی شاعری بھی اسی مزاج کی عکاس ہے، دل میں گھر کرنے والی، شعریت میں رچی، روایت اور جدت کے سنگم پر کھڑی، فکر اور احساسات میں گندھی زبان اور سچے جذبات کی آئینہ دار ہے۔ منظر اوچوی کے ہاں غزل کی خاص شگفتگی ملتی ہے جس میں معاشرتی تفریق کا رنگ جھلکتا ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام 1963 ء میں ”مہمان کربلا“ کے نام سے منصہ شہود پر آیا جبکہ دوسرا مجموعہ کلام ”سفینہ ء اہل بیت“ کے نام سے 1991 ء میں جلوہ گر ہوا۔

منظر اوچوی کی ساری زندگی دو کمروں کے ایک خستہ مکان میں گزری، افلاس کا سایہ جس کے آنگن سے کبھی ہٹ ہی نہ سکا۔ بیماری، تنگ دستی، کسمپرسی، کہولت اور غربت میں گھرے منظر اوچوی ہمارے مردہ، بے حس، ادب دشمن اور کتاب دشمن معاشرے میں علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ایسی آخری زندہ نشانی تھے، جن کے بہت سے اشعار دھیان کی انگلی پکڑ کر معنی کے تہہ خانے کی طرف لے جاتے ہیں جہاں قاری کو نئے امکانات سے واسطہ پڑتا ہے۔ 28 دسمبر 2019 ء کی صبح یہ درویش شاعر دل کا دورہ پڑنے کے باعث شہر سخن کوویران کر گیا۔

مرحوم نے پسماندگان میں بیوہ اور جواں سال صاحب زادے کو سوگوار چھوڑا۔ علم و ادب کے فروغ اور شاعروں، ادیبوں کی فلاح و بہبود کے لئے سالانہ کروڑوں روپے کا بجٹ رکھنے والے حکومتی اداروں اور این جی اوز کو چاہیے کہ وہ لمحہ موجود میں منظر اوچوی جیسے نگینوں کی قدر کریں۔ ان کی زندگی میں آسائش لائیں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور ہم ساری عمر پچھتاوے کی اذیت میں سلگتے رہیں۔

ناں کہیں ملک دی میں سفیری تے خوش ہاں

نا ں زر مال دولت امیری تے خوش ہاں

اے دنیا دی شاہی تیکوں ہووے بخشی

میں پنجتن دے در دی فقیری تے خوش ہاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments