ایک پُرانی غلطی


زندگی میں پہلی دفعہ میں پریشان ہوا، زندگی میں پہلی دفعہ جو آدمی مجھے بُرا لگا اور وہ ساجدہ کے ابو تھے۔ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو؟ میرے دل میں کئی وسوسوں نے جنم لیا میں ہر صورت اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ ساجدہ کے بغیر میری زندگی مشکل ہوجائے گی، مجھے وہ اچھی لگی تھی اور مجھے اُس سے ہی شادی کرنی تھی۔

ایک دن وہ میرے ابو سے ملنے اُن کے آفس بھی چلے آئے، نہ جانے بوڑھوں کے درمیان کیا بات چیت ہوئی گھنٹے بھر تک کہ دو دنوں کے بعد ان کے گھر سے رشتے کی قبولی کا پیغام آگیا۔

ہم لوگوں کی خوشی اپنی جگہ فطری تھی میرے گھر والوں نے زور و شور سے شادی کی تیاری شروع کی۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ بڑے میاں نے مجھ سے کوئی بات نہ کی اور نہ ہی مجھ سے ملے، اس میں بھی مجھے کچھ بے عزتی کا سا احساس ہوا، نہ جانے کیوں۔

پھر ہماری شادی ہوگئی۔ ساجدہ کو پہلے دن سے ہی دیوی بنا کر رکھا میں نے۔ اسے چاہا دل سے اور اسے حاصل کرنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی اپنے سے جُدا نہ کرنے کی قسمیں کھائیں۔ وہ تھی بھی ایسی۔

مجھے یاد ہے کہ شادی کے ساتویں آٹھویں دن میں ساجدہ کے ساتھ اس کے گھر گیا تھا۔ رات گئے تک باتیں ہوتی رہیں۔ اس کی بہن سے، اس کے بھائی سے، اس کے ماں باپ سے، وقت تیزی سے نکلتا چلا گیا تھا۔ شادی کے فوراً بعد اس قسم کی ملاقاتوں دعوتوں کا اپنا مزا ہوتا ہے، نئے رشتے بنتے ہیں کہ ان کی بنیادیں رکھی جارہی ہوتی ہیں، نئی امیدیں ہوتی تھیں، نئے چراغ جلتے ہیں، ایک طرح کا لطیف احساس ہوتا ہے۔

شاید رات کے گیارہ بجے تھے جب ہم اُٹھنے لگے تو چلتے چلتے ساجدہ کے ابا نے کہا تھا کہ آج رُک جاؤ بیٹی۔ دونوں ہی رُک جاؤ کل چلے جانا۔ بڑی مشکل سے عادت ہوگی تمہارے بِنا رہنے کی۔ مجھے ان کا دھندلا دھندلا سا مہربان چہرہ یاد ہے اوریہ بھی یاد ہے کہ میں نے کیا سوچا اور کیا کیا تھا۔

ساجدہ نے میری طرف دیکھا اور اس وقت تو جیسے میرے اندر آگ لگ گئی نہ جانے کیوں؟ اور اس سے پہلے کہ کوئی اور بات ہوتی میں نے فوراً ہی کہہ دیا کہ نہیں ہم دونوں کو ابھی گھر جانا ہے۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ بہت سخت اور خشک رویہ تھا میرا۔ میں نے کسی کا کوئی بھی لحاظ نہیں کیا اور ہم گھر چلے آئے تھے۔ پھر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ بڑے میاں نے ہمیں رات کو روکنے کی کوشش کی ہو۔

ہمارے بچے ہوئے دو بیٹے ایک بیٹی۔ وقت نکلتا گیا، سب بڑے ہوتے گئے، میرے ابو کا انتقال ہوگیا، ساجدہ کے ابو بھی دنیا سے چلے گئے لیکن جتنے سالوں بھی وہ زندہ رہے مجھے ان کی آنکھوں میں ساجدہ کی محبت کی شمع جلتی نظر آتی رہی۔ شاید کوئی دن ایسا نہیں ہوتا ہوگا جب وہ فون پر اس سے بات نہیں کرتے ہوں گے۔ ایک خاص قسم کا رشتہ تھا باپ بیٹی کے درمیان۔ ایسا ہی ہوتا ہے ہمارے سماج میں۔ لگتا ہے کہ بیٹیاں ماؤں سے قریب ہوتی ہیں۔ ان سے وہ ہر طرح کی بات کرلیتی ہیں۔ ایک طرح سے دوست رازدار ہوتی ہیں ان کی۔ مگر بیٹیوں کا اپنے باپوں سے بھی ایک رشتہ ہوتا ہے بہت مختلف بالکل الگ۔ شاید انہیں الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ ہو۔ اسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے جیسے ساجدہ اورساجدہ کے ابو کے درمیان تھا۔

ستائیس سالوں کے بعد میری بیٹی کی شادی ہوئی وہ رخصت ہوگئی اور آج شادی کے آٹھویں دن ہمارے گھر آئی تھی۔ میری بیٹی میرے اورساجدہ کی محبت کی پہلی نشانی، خاص طور پر مجھ سے ملنے آئی تھی۔ چار گھنٹے کے گپ شپ کے بعد جب وہ جانے لگی تو بے اختیار میں کہہ بیٹھا کہ بیٹی آج کی رات ٹھہر جاؤ کل چلی جانا۔ میں خود چھوڑدوں گا تمہیں۔

”مگر بابا مجھے جانا ہوگا۔ “ اُس نے راحیل کی طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا تھا۔

ستائیس سال ایک سیکنڈ میں میرے سامنے سے گزرگئے۔ ساجدہ کا وہ پُرامید چہرہ اس کے والد کے محبت بھرے چہرے پر خواہش کی چادر اورمیرا رُکھائی سے منع کردینا۔ ساجدہ کی بے بسی اورساجدہ کے ابا کی خاموشی میرے سینے میں خنجر کی طرح اندر تک گھستی چلی گئی۔ یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ بجلی کی رفتار سے تیز جھماکوں کے ساتھ وہ تصویر میرے ذہن پر گرجتی گونجتی رہی۔
آج وہ میرے سامنے بستر پر بے سدھ سوئی ہوئی تھی، تھکی ہاری مگر چین سے اورمیں بے چین تھا اورمجھ میں ہمت نہیں تھی کہ ستائیس سال پرانے گناہ کی معافی مانگ سکوں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments