نیلسن منڈیلا بننا بچوں کا کھیل نہیں


کہتے ہیں کہ شیر کی بادشاہت سے تنگ آئے گیدڑوں کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ بس بہت ہوگیا چیف صاحب! اب یہ غلامی مزید برداشت نہیں، شیر کا علاج کرنا پڑے گا اور علاج کے لئے دو دو ہاتھ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ گیدڑوں کا ٹولہ وقتِ مقررہ پر شیر کے کچھار کے پاس پہنچا اور شیر کو بہ آوازِ بلند پکارا ’ادھر آ بے! ابے او شیر کے بچے‘ ۔ شیر اس انقلابِ زمانہ پر تھوڑا حیران تو ہوا لیکن باہر نکل آیا۔ اب شیر تین چار درجن بپھرے ہوئے گیدڑوں کو دیکھ مزید حیران ہوا لیکن پریشانی کو اپنے سے دور رکھا۔

گیدڑوں کو پریشانی یہ لاحق ہوئی کہ شیر سے پنجہ آزمائی کون کرے؟ کافی سوچ بچار کے بعد جب کسی کی ہمت بندھ نہ سکی تو ایک ہیرو قسم کے گیدڑ کے دل میں لیڈر بننے کی تمنا پیدا ہوئی۔ اس نے شیر پر حملہ آور ہونے کی حامی بھر لی۔ گیدڑوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سب اپنے ہیرو کے گرد جمع ہوکر نعرے لگانے لگے۔ ’گیدڑ تیرے جانثار، بے شمار بے شمار‘ ۔ ہیرو صاحب اپنے آپ کو شیر کی جگہ تصور کرنے لگے تو نہایت بارعب آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے ’میری آنکھوں کو غور سے دیکھو، جب ان میں خون اُتر آئے، پوری طرح سرخ ہوں تو مجھے بتا دیں، یہی حملہ آور ہونے کی گھڑی ہوگی‘ ۔

سب اس کو تھپکی دینے لگے۔ جب آنکھیں سرخ ہوگئیں تو سب نے کہا ’جا بھائی، شیر کو اس کے انجام تک پہنچا‘ ۔ گیدڑ نے ایک جذباتی نعرہ لگایا اور شیر پر ہلہ بول دیا۔ ایک چھلانگ لگا کر شیر کی گردن دبوچنے کو تھا کہ شیر نے جبڑے میں پکڑ لیا اور دو چار دفعہ گھما کر واپس اپنے ساتھیوں کے بیچ زور سے زمین پر پٹخ دیا۔ لیڈر صاحب اٹھے اور لنگڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے پاس چل دیے۔ پھر نہایت ہی دکھ بھرے انداز میں بولے ’حرامیو! آنکھیں ابھی پوری طرح سرخ نہیں ہوئی تھی، ویسے ہی خوار کردیا‘ ۔

میاں نواز شریف کے بے مثال یوٹرن کے بعد یہ لطیفہ مسلسل یاد آرہا ہے۔

اب سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب نواز شریف عین اس وقت ایک سو اسی کے زاوئے پر کیوں گھوم گئے جب جمہوریت پسند سوچ رکھنے والے خاص و عام ان کے گرد جمع ہونے شروع ہوگئے تھے۔ پاکستانی ویسے بھی کافی فیاض لوگ ہیں، یہ جلدی معاف کر دیتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ انہیں اچھا لگنے لگا تھا اور یہ نواز شریف کی پچھلی خطاؤں کو فراموش کرنے کے لئے بھی تیار ہوگئے تھے لیکن میاں صاحب نادان ثابت ہوئے کہ چند کلیوں پر قناعت کر گئے جبکہ لوگ زیادہ دینے کے موڈ میں تھے۔

لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں اور لگتا بھی ایسا ہی ہے کہ میاں صاحب ہمیشہ گر کر اٹھنے ہیں اور چھا جاتے ہیں لیکن میرے خیال میں میاں صاحب سے زیادہ خوش قسمت ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے۔ عمران خان دو دہائیوں تک مصروف عمل رہا لیکن لوگ ان سے بے تحاشا محبت کے باوجود انہیں ووٹ دینے پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ بالآخر جب وقت نے انگڑائی لی اور لوگ عمران خان کو سنجیدگی سے ایک آپشن کے طور پر لینے لگے، خان صاحب کو نہ جانے کیا ہوا کہ سب کچھ بھلا کر پکے ہوئے پھل کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جا گرے۔

اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، اسٹیبلشمنٹ نے خان صاحب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کچھ اس طرح کہ ان کی ساری محنت کو زیرو سے ضرب دے کر سب کچھ اپنے کھاتے میں ڈال دیا۔ اب جب سوشل میڈیا کا دور ہے اور چیزیں زیادہ دیر پوشیدہ نہیں رہتی تو لوگ جب نواز شریف کی طرف دوبارہ مائل ہونا شروع ہوئے تو میاں صاحب نے اسی راستے کا انتخاب کیا جو ماضی قریب میں عمران خان نے چنا تھا اور جس پر چل کر میاں نواز شریف نے اپنی سیاست کی ابتدا کی تھی اور کمال مہارت سے اینٹی بھٹو ووٹ کو اپنا بنا لیا تھا۔

عوام کا میاں نواز شریف کی طرف دوبارہ دیکھنے میں میاں صاحب کے ذاتی کمال سے زیادہ تحریک انصاف حکومت کی ہوش ربا کارکردگی ہے۔ عمران خان نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے ہر دعوے اور ہر وعدے کو توڑنا ہے۔ موجودہ حکومت کی نالائقیاں اتنی زیادہ اور اتنی واضح ہیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت اس سے ہزار درجہ بہتر دکھائی دینے لگی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کے موقف میں اتنی واضح تبدیلی راتوں رات کیونکر پیدا ہو گئی؟ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو عنقریب اقتدار شریف فیملی میں واپس آتا دکھائی دینے لگا ہے۔ شریف خاندان کی پریشانیوں اور مسائل میں بہت کم عرصے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک لحاظ سے موجودہ صورتحال شریف خاندان کے لئے جنرل مشرف کے دور سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ مشرف دور کا وہ عرصہ جب شریف خاندان پاکستان میں تھا، یقینا ان کے لئے بہت پریشان کن تھا لیکن ملک سے چلے جانے کے بعد انہیں ایک طرح سے ریلیف ملا تھا۔ ملکی سیاست میں ان کا کردار تقریبا معدوم ہو گیا تھا اور اچھے دنوں کے انتظار کے سوا ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ موجودہ صورتحال میں پی ایم ایل این ملک کی دوسری اور اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود وہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ خاندان کے افراد کے علاؤہ پی ایم ایل این کے کئی رہنما جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بحیثیت جماعت پی ایم ایل این عوام میں مقبولیت کے باوجود بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس صورتحال میں نواز شریف کے لئے بہتر سودا یہی ہے کہ کچھ لو کچھ دو کے فارمولے سے فی الحال چند قلیل مدت مقاصد حاصل کیے جائیں اور حساب کتاب بے باق کرنے جیسے طویل مدت مقاصد کو فی الحال اچھے وقت کی آمد تک پس پشت ڈال دیا جائے۔

اس انقلابی تبدیلی کے نفسیاتی پہلو بھی ہیں۔ نواز شریف جب اپنی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی سمیت پاکستان آ رہے تھے تو شاید ان کا خیال تھا کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا کر وہ عوام کی ہمدردی حاصل کر پائیں گے۔ لوگ انہیں بیٹی سمیت جیل میں زیادہ دیر برداشت نہیں کر پائیں گے اور اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھے گا اور نواز شریف اپنی شرائط پر معاملات طے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

اسلام آباد کی سڑکوں پر نواز شریف جب عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے تو سڑکوں پر ہو کا عالم دیکھ کر مایوس ہوئے ہوں گے اور یوں بھاڑ میں جائے انقلاب کہہ کر اس راستے پر چلنے پر آمادہ ہوئے جسے عرف عام میں حقیقت پسندانہ کہتے ہیں۔ جیل میں رہ کر عوامی اضطراب کے ذریعے منظر نامہ تبدیل کرنے کی حکمت عملی یقینا اچھی تھی لیکن یہ راستہ نہایت صبر آزما اور پر خار ہے۔ اس راستے کو پر خار دیکھ کر جی خوش ہونا چاہیے تھا کہ پاؤں کے آبلوں سے چھٹکارا پانا آسان ہو جاتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ نیلسن منڈیلا کی شخصیت لاکھ پر کشش سہی، نیلسن منڈیلا بننا بچوں کا کھیل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments