بھارتی شر پسندانہ عزائم کا عبرت ناک انجام!


بھارتی آرمی چیف کا بیان کہ بھارتی پارلیمنٹ اگر چاہے تو آزاد کشمیر ہمارا ہوسکتا ہے، سارا جموں وکشمیر بھارت کا حصہ ہے، معمول کی ہرزہ سرائی ہے، وہ اپنے ملک کے اندرونی خلفشار اور حالات سے توجہ ہٹانے اور لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف نے مسلمہ متنازع علاقے کی حیثیت اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے حقِ خود اختیاری کی بین الاقوامی ضمانت کے حامل کشمیر پر اپنے غاصبانہ تسلط کو مکمل کرنے کے لیے جس ڈھٹائی کے ساتھ مذموم ارادوں کا اظہار کیا ہے، اِس پر کارروائی کرنا محض پاکستان کا ہی نہیں، بلکہ اقوامِ متحدہ اور پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔

تاہم اگر مہذب دنیا بین الاقوامی تنازعات میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کے قائل ہو چکی ہے، تب بھی پاکستان بہرصورت کشمیری عوام کے حقوق کے لیے اپنا فرض نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی آرمی چیف کی ہرزہ سرائی کے جواب میں واضح کیا ہے کہ بھارت 27 فروری 2019 کو ہمارے جواب کا مزہ چکھ چکا ہے اور آئندہ اُسے اس سے بھی زیادہ سخت جواب ملے گا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی آرمی چیف کے بیان کو بھارت کے داخلی خلفشار سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فاشسٹ ذہنیت کے مظاہروں اور انسانیت سوز مظالم کے سدِباب میں مؤثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کیا، جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی دنیا کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ آر ایس ایس کے ہندو انتہاپسند نظریات نے ایک ارب آبادی کے ایٹمی ملک پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے، اور یہ صورتحال بھارت اور پورے خطے میں کسی بڑے قتل و غارت کا سبب بن سکتی ہے۔

فی الحقیقت بھارت کے جنگی جنون کی روک تھام خود عالمی امن کے تحفظ کا تقاضا ہے، کیونکہ جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتوں میں جنگ ہوئی تو اس کے تباہ کن اثرات کا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لینا یقینی ہے۔ عالمی دنیا کو آزاد کشمیر پر قبضے کی کھلی بھارتی دھمکی کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور اِس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ پاکستان اپنے خلاف جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لے گا اور اِس کے نتائج جو بھی نکلیں اُن کی ذمہ داری پاکستان پر نہیں، بلکہ جارح فریق اور اسے روکنے میں ناکام رہنے والی عالمی برادری پر ہوگی۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت کے لیے پاکستان شروع دن سے ناقابلِ برداشت رہا ہے۔ اس نے پاکستان کے وجود کو مٹانے کے لیے جارحیت منافقت اور سازش سمیت جو بھی ممکن ہوا ضرور کیاہے۔ موجودہ دور اقتدار میں آنے والے لوگ آر ایس ایس کے پروردہ اور اسی کے نظریات کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے درست کہا ہے کہ بھارت میں آر ایس ایس کے انتہا پسند نظریے نے ایک جوہری طاقت کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، آج آر ایس ایس کے جراثیم بھارتی فوجی افسروں کے رگ و پے میں پھیل چکے ہیں جس کا اظہار بھارتی جرنیلوں کے بیانات سے ہوتا ہے۔

وہ پاکستان کے خلاف نفرت کا اظہار اپنی سیاسی قیادت کی خوشامد کے لیے کچھ زیادہ ہی جوش مگر ماورائے ہوش کرتے ہیں۔ ہر نیا آنے والا آرمی چیف پاکستان کو جنگ بالخصوص آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکیاں دینا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے، شاید اس کے پس منظر میں حکومت اور عوام کو خوش کرنا اور اپنی برتری ثابت کرنا مقصود ہو تا ہے۔ گزشتہ بھارتی آرمی چیف بپن راوت بھی پاکستان بالخصوص آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکیاں دینا نہیں بھولتے تھے، مگر جب 27 فروری کو بھارتی طیارے آزاد کشمیر میں گھس آئے جس کا پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور ان کے ایک طیارے کو مارا گرایا اور اس کے پائلٹ کو گرفتار کر کے پوری دنیا کے سامنے اپنی برتری ثابت کرتے ہوئے بھارت پر واضح کر دیا کہ پاکستان مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کو دھمکیاں محض اپنی شکست خوردہ فوج کو تسلی دینے کے لئے ہیں، انڈیا کو پاکستان کی طرف میلی نگاہ ڈالنے کا انجام اچھی طرح معلوم ہے۔ کنٹرول لائن پر چھیڑ چھاڑ کے علاوہ بھارت پاکستان کے خلاف کوئی قد م نہیں اٹھا سکتا۔ کشمیریوں نے لازوال قربا نیوں سے آٹھ لاکھ ہندوستانی فوج کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی قوت اور میزائل ٹیکنالوجی کی دنیا معترف ہے، بھارتی دھمکیوں پر پاکستانی عسکری قیادت کا جرأتمندانہ بیان لائق تحسین ہے۔

اس وقت بھارت اندونی طور پر باہمی انتشار کا شکار ہے، متنازعہ شہریت قانون کے خلاف مظاہرے جاری اور ہزاروں افراد حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ مودی سر کار کے شر پسندانہ اقدامات نے بھارت کو انتشار کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا تعلق بھی آر ایس ایس سے تھا، لیکن انھوں نے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف کوئی متعصبانہ پالیسی نہیں اپنائی، بلکہ سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ انھوں نے دوستانہ تعلقارت کا آغاز کیا اور پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی دعوت پر لاہور تشریف لائے جس سے یہ امید بندھی کہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر سمیت دیگر متنازعہ امور باہمی بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، بعدازاں صدر جنرل پرویز مشرف بھی واجپائی سے مذاکرات کرنے نئی دہلی گئے جہاں دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی تھی۔

نریندر مودی کا تعلق بھی آر ایس ایس سے ہے، لیکن انھوں نے متعصبانہ رویے کا انتہائی مظاہرہ کرتے ہوئے ناصرف پاکستان سے تعلقات بگاڑے، بلکہ داخلی سطح پر بھی ایسے قوانین کا اعلان کیا جس سے مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں میں بھی غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ بھارت کی موجودہ متعصبانہ قیادت ہی کے اثرات ہیں کہ ہر بھارتی آرمی چیف پاکستان کو دھمکیاں دینے پر اتر آتا ہے۔ نئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج موکنڈ نراوانے بھی بھارتی حکومت اور پارلیمنٹ کے سامنے پوائنٹ اسکورنگ کرتے ہوئے آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔

بلاشبہ بھارتی سر کار نے مسلمان دشمنی میں داخلی امن کے ساتھ ساتھ خطے کا امن بھی داؤ پر لگا دیا ہے۔ بھارت کے نئے آرمی چیف اس ماحول میں وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جو مودی حکومت اور آر ایس ایس کی پہچان رہی ہے۔ تر جمان پاک فوج نے واضح طور پر باور کروادیا ہے کہ بھارتی شر پسندانہ عزائم کا عبرت ناک انجام ہو گا، بھارتی عسکری قیادت بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان سے جنگ کی صورت میں اس کا بڑے پیمانے پر نقصان ہو سکتا ہے، کیونکہ دونوں ممالک ایٹم سمیت دیگر جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کسی بھی کارروائی یا حملے کی صورت میں انتہائی خوفناک تباہی پھیلے گی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ بھارتی آرمی چیف سرجیکل اسٹرائیکس کی دھمکیوں ہی پر اکتفا کرتے اور قوم کے سامنے خود کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اب تک کیے گئے شرپسندانی اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی صورت پاکستان سے بہتر تعلقات قائم کرنے کے خواہاں نہیں، بلکہ وہ خطے میں جنگی ماحول پیدا کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔ بھارتی جاریحانہ طرز عمل کا جہاں عالمی دنیا کو سخت نوٹس لینا ہو گا، وہاں ملک کے تمام سیاسی رہنما ؤں کواس نازک موڑ پراپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا، تاکہ بھارت کے شر پسندانہ عزائم کا مضبوط اور مُنہ توڑ جواب دیا جا سکے، ہماری مسلح افواج ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لئے تیار اور پوری قوم فوج کی پشت پر کھڑی ہے۔ پاک وطن سے محبت پا کستانی عوام کے دِلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے اور مُلک کا بچہ بچہ وطن عزیز کی حفاظت اور جانثار ہونے کے لیے بے قرار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments