اپنے عہد کی گواہی


اردو کے کرشماتی افسانہ نگار انتظار حسین نے یاداشتوں کو ٹٹول کر کہانی بنا دیا تو ان پر پر ناسٹیلجیا کی پھبتی کسی گئی، خاص طور پر اُن حلقوں کی طرف سے جنھوں نے اپنی روایت سے کنارہ کشی اختیار کر کے مغربی تجربے کی روشنی میں اپنے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی۔ یہ بحث ہمارے ہاں عشروں چلی۔ جس پر ایسے ایسے خیالات ظہور میں آئے کہ حیرت ہوتی ہے، حالانکہ یہ ماضی کے واقعات ہی ہوتے ہیں جن کی کشش انسان کو کو متوجہ کرتی ہے۔ صاحبان ذوق ماضی کے دریچوں میں جھانک ان سے لطف ہی نہیں لیتے، کچھ دیر خوابوں کی فضا میں ہی نہیں رہتے بلکہ گزرے ہوئے ان واقعات سے سبق بھی کشید کرتے ہیں۔ اس نصیحت کی بنیاد ادب بھی بنتا ہے اور ایسی تحریریں بھی جو ادب کی ذیل میں گاہے آتی ہیں، گاہے نہیں آتیں۔ یہی سبب رہا ہوگا کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے لوگ جب اپنی ذمہ داری ادا کرکے سبکدوش ہوجاتے ہیں تو اپنے اپنے تجربات کو سپرد قلم کر دیتے ہیں۔ یہ اپنے تجربات کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے ایک باپ اپنی اولاد کو ترکہ اور اپنی روایات منتقل کرتا ہے۔ تحریری یاداشتیں ایک بڑی سطح پر ایک عہد کی کی اجتماعی یادداشت کو نسل نوتک منتقل کرنے کی ایک شعوری اور سنجیدہ کوشش ہوتی ہے۔

 اردو صحافت کا دامن اس باب میں مفلسی کا شکار نہیں رہا۔ ہمارے بزرگوں کی روایات اس باب میں شاندار ہیں، جیسے ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے ”رومیں ہے رخشِ عمر “کے عنوان سے ایک شاندار خود نوشت سپرد قلم کی جس کے مطالعے کے بغیر ان کے عہد کو سمجھنا مشکل ہے۔ ان کے بعد کی نسل میں سے محمد سعید اس میدان میں اترے اور ”آہنگ بازگشت “کے عنوان سے تحریک خلافت سے لے کر فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے تک کے مشاہدات قلم بند کر دیئے۔ یہ کتاب ایسے حیران کن واقعات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے کہ یقین نہیں آتا کہ ہمارے ملک میں کیسے کیسے کھیل کھیلے گئے ہیں۔

ان کتابوں کے مطالعہ سے قاری کے سامنے نہ صرف تاریخی حالات کی ایک مختلف تصویر سامنے آتی ہے بلکہ نہایت آسانی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے ہے کہ وطن عزیز مختلف حادثات سے کیسے دوچار ہوا؟ مثلاً متفقہ آئین کیوں نہ بن پایا۔ سویلین بالادستی کا مسئلہ کیسے پیدا ہوا۔ آئین شکنی کی روایت کے پسِ پشت کیا عوامل کا ر فرما تھے اور اس ملک پر جنگیں کیسے مسلط ہوئیں؟ ان معاملات میں تاریخ کی کتابیں اگر ایک نکتہ نظر پیش کرتی ہیں تو اس کے مقا بلے میں اس نوعیت کی یادداشتیں تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہیں۔ اگر معاملات کو سمجھنے کی نیّت ہو نیز ان تجربات کے استفادے پر طبیعت آمادہ ہو، تو نہایت اعتماد کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کہ یہ تحریر یں ہی ہمارے دکھ کی شافی دوا بن سکتی ہیں۔

یادداشتیں قلم بند کرنے کی یہ روایت ہمارے ہاں ایک زمانے تک توانا رہی لیکن گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران میں صحافی برادری میں یہ روایت کمزور ہوئی ہے حالانکہ ہمارا ملک اس عرصے کے دوران میں جن بہت سے مسائل سے دو چار ہوا ہے اس زمانے کے بہت سے واقعات نے اُسے بنیا د فراہم کی ہے جیسے افغانستان کا تنازع، جنرل ضیاءالحق کا مارشل لا، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، جنرل ضیا کے بعد جنرل پرویز مشرف تک کے حالات جن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے ادوار بھی شامل ہیں اور کارگل کی مہم جوئی بھی۔ اس اعتبار سے یہ ایک بھر پور دور ہے۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف اور اس زمانے کے واقعات ہیں۔ یہ واقعات ایسے ہیں جن کے بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی وجہ سے صرف پاکستان ہی نہیں، پورا خطہ متاثر ہوا۔ اس پس منظر میں شدید ضرورت تھی کہ کوئی صحافی اس عہد کو قلم بند کرنے پر توجہ دے۔ بد قسمتی سے ہماری صحافت اس عہد میں جو مزاج اختیار کر چکی ہے، اس کے پیش نظر بہ ظاہر یہی لگتا تھا کہ یہ عہد اپنے زمانے کی گواہی دیے بغیر ہی گزر جائے گا لیکن برادر محترم حنیف خالد کا بھلا ہو کہ انہوں نے ہمت کر کے اپنے زمانہ صحافت کی بہت سی تفصیلات قلم بند کر ڈالیں۔

حنیف خالد ایک سیلف میڈ شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی محنت اور جدوجہد سے اپنی دنیا آپ بنائی ہے۔ خواب دیکھنے والا ایک محنت کش زندگی کے کن مراحل سے گزرتا ہے اور جب وہ ان دیکھی دنیاؤں سے گزرتا ہے تو وہ کیا سوچتا اور محسوس کرتا ہے؟ یہ کہانی انھوں نے جس خوبی اور سادگی سے بیان کی سے بیان کی ہے، وہ قابل داد ہے۔ جامعہ پنجاب حنیف خالد کی مادر علمی ہے۔ خاموش، محنتی اور کسی قدر شرمیلے حنیف خالد نے جب نیو کیمپس کی نہر میں کشتی رانی کرتے ہوئے لڑکے لڑکیوں کو دیکھا تو انھیں لگا کہ جیسے جنت تو یہی ہے۔ خودنوشتیں لکھنے والے لوگ اکثر اپنی اس طرح کی حیرتوں کو نہ صرف چھپا جاتے ہیں بلکہ اپنے فن افسانہ نگاری سے خود کو ہیرو کی حیثیت سے بھی پیش کرتے ہیں لیکن سچ لکھنے والے حنیف خالد کی طرح سے ہوتے ہیں۔

یہ کتاب مصنف کی ذاتی جدو جہد کی کہانی ہی بیان نہیں کرتی بلکہ بہت سے قومی رازوں کو بھی منکشف کرتی ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن ہماری قومی زندگی کا ایک اہم اور افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس واقعے کے بارے میں عالمی طاقتوں نے پروپیگنڈے کی جو گرد اٹھائی، اس میں بہت سے حقائق دب کر رہ گئے۔ حنیف خالد سوال اٹھاتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے گردے تو فیل ہوچکے تھے اور ڈائلیسز کے بغیران کا زندہ رہنا ممکن ہی نہ تھا۔ ایک ایسے شخص کا ایبٹ آباد میں برسوں قیام کرنا کیسے ممکن ہے جہاں ڈائلیسز کی سہولت ہی میسر نہ ہو؟ یہ سوال ایک جوابی منظر نامہ پیش کرتا ہے جو زمانہ ہوا عالمی ریشہ دوانیوں کے بوجھ تلے دب چکا لیکن حنیف خالد نے یہ سوال اٹھا کر مورخ کے سامنے ایک نئی حقیقت پیش کر دی ہے۔

آبی ذخائر اور توانائی کے وسائل پاکستان کا ایک نہایت ہی حساس مسئلہ ہیں۔ ان معاملات کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں بہت کچھ شائع ہوتا رہتا ہے اور ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقائی اور مفاداتی سیاست کے شاخسانے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ تھر کول پراجیکٹ کی ناکامی اورکالاباغ ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر میں اصل رکاوٹ وہ مافیا ہے جس کا دھندا بیرون ملک سے خام تیل کی درآمد ہے۔ آج کل ہمیں شکایت ہے کہ متعلقہ اداروں نے جامعات کی امداد میں کمی کیوں کر دی؟ درست شکایت ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اس کا آغاز کب ہوا اور اس کا اصل سبب کیا ہے اور یہ کس نے کب کہا تھا کہ میں نہیں چاہتا کہ ملک میں سرکاری سطح پر کوئی ایک یونیورسٹی بھی ہو۔ ایک طاقت ور وزیر نے ایسا کیوں کہا، اس کے پس پردہ کیا سازش کارفرما تھی؟ حنیف خالد نے ایسی بے شمار کہانیاں لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کردی ہیں۔ وہ نوجوان جو صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے پر کمر بستہ ہیں اور وہ محقق جو اس گزشتہ نصف صدی کی پرپیچ کہانیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، اس جہان حیرت سے گزرے بغیر اپنے کام کا حق نہیں ادا کر پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments