تصوراتی حکمرانی اور حکمرانوں کے اللے تللے


بلوچستان کے ہر گاؤں میں خبر پھیلی ہے کہ کاغذوں کے بجائے بلوچستان اب سوشل میڈیا میں خوبصورت نظر آرہا ہے۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے کہ بلوچستانی مرد و زن بہترین بلوچستان کی تلاش میں سرگرداں کاغذ و قلم کی دنیا سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور سوشل میڈیا پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں کیونکہ یہاں حکومت سوشل میڈیا کی ہے آپ کو ہر نئی چیز اور حکومتی اعلان اور اقدامات سوشل میڈیا پر ملتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت نے ہر منصوبہ نقشے اور تصاویر کے ساتھ ٹوئٹر واٹس ایپ یا فیس بک پر منتقل کردیا ہے۔

آپ اگر سوشل میڈیا کو استعمال کرنا جانتے ہیں۔ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے سوشل میڈیا کو کس طرح سے اپنے پروپیگینڈے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ روزانہ کسی نہ کسی ٹویٹ کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہوتی ہے تو کبھی واٹس ایپ کے ذریعے اپنے سیلیکٹڈ لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہماری وجہ سے بلوچستان کے تمام مسائل حل ہو رہے ہیں۔ اور حقائق کے برعکس بلوچستان کی اس طرح کی منظر کشی کی جا رہی ہوتی ہے کہ جیسے تمام محکمے بہت فعال ہو گئے ہیں۔

صحت، تعلیم، بلدیات، آبپاشی، آبنوشی، لائیو اسٹاک، زراعت، جنگلات، بلڈنگ اور روڈز کے محکموں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور جس طرح سے سالانہ ترقیاتی بجٹ کی منصوبہ بندی ہوئی ہے اس پر محکمہ پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کو تو ایوارڈ سے نوازا جانا چاہیے۔ جبکہ پچھلی حکومتوں نے تو بلوچستان کو تباہ کر دیا تھا۔ اگر ہماری حکومت نہ آتی تو عوام نہ جانے کن کن مصیبتوں سے گزر رہے ہوتے۔

حقائق سے باخبر شخص جانتا ہے کہ یہ سب سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے۔ اور محض خیالی و تصوراتی ہے۔ جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب اسے حکومت کی خوش قسمتی سمجھیں کہ جس صوبے کی بات ہو رہی ہے وہاں کی دو تہائی آبادی بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہے اور بقیہ ایک تہائی آبادی میں سے بھی سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اور ان پانچ فیصد میں سے بھی ٹوئٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد چند سو یا چند ہزار ہی ہوگی جبکہ حکمرانوں کے واٹس ایپ پر تو یقینا چند سو ہی سیلیکٹڈ لوگ ہوں گے۔ جو حکمرانوں کے پروپیگنڈے کے پروگرام کو مزید بڑھائیں گے ان میں سے چند ہی مرد حق ہوں گے جو ان کی خود فریبی کے حصار سے باہر حقیقت کا اظہار کرتے ہوں گے۔

اگر محکمہ صحت سے متعلق حکومت کے پچھلے ٹویٹ نکال کر دیکھیں تو ٹوئٹر ریکارڈ کے مطابق عوام کو صحت کی سہولتیں دور دراز علاقوں تک باآسانی میسر ہیں۔ ژوب، لورالائی، مستونگ اور لسبیلہ میں روزانہ آپریشن ہو رہے ہیں۔ اب کسی کو کوئٹہ یا کراچی پرائیویٹ علاج کرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی ہے۔

بلکہ آدھا کراچی وزیراعلی بلوچستان کے حلقہ و آبائی شہر لسبیلہ بہترین سہولیات کی وجہ علاج کرانے پر مجبور ہے۔ لیکن پھر ایک دن صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی بیمار ہوجاتے ہیں اور اپنی حکومت کی صوبے کے دارالحکومت میں صحت کی دستیاب سہولیات کا پول کھول کر رکھ دیتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیو میں حکومتی ناکامی پر برملا سخت تنقید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور یوں حکومتی ارکان عوامی مسائل کی حل کے بجائے سوشل میڈیا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں آکر ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کردیتے ہیں کہ کو اہل اور کون نا اہل ہے۔

تب خیال آتا ہے کہ حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے ابھی کچھ دن قبل تو سابق سکریڑی صحت کے وزیراعلی بلوچستان کو کیے ہوئے ایک وٹس ایپ مسیج کا اسکرین شاٹ بھی تو وزیراعلی بلوچستان اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر شاباش سے شیئر کیا تھا اور ان کی کارکردگی کو چارچاند لگائے تھے اگرچہ ہم ڈیڑھ سال سے اس کی ناقص کارکردگی پر تنقید کررہے تھے لیکن وزیراعلی کو ہماری بات سنائی نہیں دی۔ پھر سابق وزیر صحت اور سیکرٹری صحت کے ٹوئٹر پر بیان کردہ انتہائی شاندار کارکردگی کے باوجود ان کو عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

اور سیکرٹری موصوف کو تو شوکاز نوٹس کا لطف بھی اٹھانا پڑا ہے۔ اب اگر حکمرانوں میں اخلاقی جرات ہوگی تو ان ٹویٹ کو ضرور ڈیلیٹ کرتے ہوئے ان کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرنے والوں کا شکریہ بذریعہ ایک ٹوئٹ کے ادا کرنا چاہیے۔ لیکن ایسی امید کم ہے۔ محکمہ تعلیم میں بھی حکمرانوں نے جو حشر پرپا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اور آخر کار بادل ناخواستہ ریکروٹمنٹ میں جو عظیم الشان دھاندلیاں ہوئی ہیں ان پر کچھ نوٹس لیا ہے اور بہت کچھ عدلیہ کے زیر سماعت ہے۔

یہ ان دو محکموں کا حال ہے جو سب سے بڑے ہیں جن کا بجٹ سب سے زیادہ ہے اور جن کی کارکردگی کا براہ راست تعلق تمام عوام سے ہے۔ محکمہ زراعت میں جو اربوں کی خرد برد انجینرنگ (بلڈوزروں ) اور مارکیٹ کمیٹی کے شعبوں میں ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اس کے سننے اور سناننے کے لئے مضبوط دل و جگر چاہیے۔ لائیو اسٹاک میں تو ابھی حال ہی میں ایکسپو کے نام پر کروڑوں کا ٹیکہ لگا ہے۔ محکمہ بلدیات جہاں اعلی اور نامور لوگ خاکروبوں کی تنخواہ پر گزر بسر کرتے ہوں وہاں صفائی ستھرائی اور دیگر سہولیات کی توقع رکھنا زیادتی ہے۔

اور کارکردگی کسی کو بتانے کے قابل نہیں۔ وزیراعلی بلوچستان کی اپنی سی ایم آئی ٹی کے مطابق محکمہ بلڈنگ اور روڈز کی غالب اسکیمات میں اوور پیمنٹ اور ناقص میٹیریل کی شکایات ہیں۔ محکمہ آبپاشی میں ڈی سلٹنگ اور آبنوشی میں ناقص پائپوں کی خریداری میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس نے یقینا کھیلنے والوں کو بھی دل ہی دل میں ضرور شرمایا ہوگا۔ محکمہ منصوبہ بندی کا اعزاز یہ ہے کہ اس نے بڑی خوبصورتی سے حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ حکومتی ارکان کو بھی ماموں بنایا ہے۔

یقین نہ آئے تو اعلی عدالت میں زیر سماعت حالیہ کیس پڑھ لیں جس میں بڑی تفصیل کے ساتھ اضلاع کے درمیان ترقیاتی بجٹ کی نامنصفانہ تقسیم کو بیان کیا گیا ہے۔ قانون اور رولز سے روگردانی تو اس حکومت کا روزانہ کا معمول ہے۔ اور حکومت نے نہ جانے کتنے نان کیڈر افسر وں کو رولز پامال کرتے مختلف محکموں میں تعینات کیا ہے۔ غرض ایک طویل فہرست ہے لیکن جب ہمارے حکمرانوں کے بھاشن سنیں تو معلوم ہو گا کہ کس طرح یہ خود فریبی کے حصار میں مقید ہیں۔ شاید انہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی

اب ہمارے حکمرانوں کے اللے تللے ملاحظہ کیجیے اربوں روپے سے عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے خریدے گئے ہیلی کاپٹر پر پکنک اور دعوت ولیمہ میں شرکت اربوں روپے کے جہاز کا ظالمانہ اور بے رحمانہ استعمال۔ شرکت کرنا تھی چیف سیکریٹری کے بیٹے کی شادی میں لیکن خدا اور عوام کو فریب دینے کے لیے وزیراعلی پنجاب سے ملاقات طے کروا لی۔ کسی صوبے نے رولز میں ترمیم کر کے ہیلی کاپڑ استعمال کرنے کا اختیار نہیں دیا ہے۔ لیکن یہ بد بخت اعزاز بھی ہمارے صوبے کو حاصل ہوا ہے۔ اربوں روپے وزیراعلی انیکسی اور ہیلی کاپٹر کے ہینگر پر خرچ کر دیے گئے ہیں۔ ہمارے وزیراعلی کا انٹرٹینمنٹ بجٹ اور خرچ امریکہ بہادر کے صدر سے زیادہ ہے۔ یہ اس صوبے کے حکمران ہیں جہاں غربت کی شرح 60 فیصد سے زیادہ ہے۔ اللہ تعالی ہم پر رحم فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments