شفقت محمود اور فواد چودھری سے مکالمہ


یہ دو روزہ ”تھنک فیسٹ“ کے نام سے اپنی نوعیت کا ایک منفرد فیسٹول تھا جس کا ٹائٹل ”آئیں، سوچیں اور سوال اٹھائیں“ تھا۔ میں اس دوروزہ فیسٹیول میں بطور مندوب شریک تھا اور بہت سارے سیشنز کو سننے کا موقع ملا۔ ان دو دونوں میں اگرچہ درجنوں سیشنز تھے مگر دو سیشن ایسے تھے جنہوں نے مجھے بہت متاثر بھی کیا اور یوں سمجھ لیں کہ یہ دونوں موضوعات میرے پسندیدہ ہیں لہٰذا ان دونوں سیشن میں ’میں موجود رہا۔ پہلا سیشن فواد چودھری دوسرا سیشن وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود سے مکالمہ تھایہ دونوں سیشن پاکستانی تعلیمی نظام کے حوالے انتہائی اہم تھے جس میں عوام سے درجنوں سوال لیے گئے۔

وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود اور وفاقی وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری نے ان کے جوابات دیے ’یہ ایک الگ بحث ہے کہ وہ جوابات کتنے متاثر کن تھے۔ میں پہلے یہاں کچھ سوالات کا خاص طور پر ذکر کروں گا جو محترم شفقت محمود سے کیے گئے۔ جیسا کہ ایک سوال ہمارے دوست نے اٹھایا کہ جناب وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی کب بن رہی ہے‘ جس پر جناب شفقت محمود نے جواب دیا کہ ”ان ہاؤس والی جگہ پہ تو نہیں بنے گی لیکن وزیر اعظم ہاؤس کے پچھلی طرف پچاس ایکڑ زمین ہے جس پر کام جاری ہے“۔

ایک نوجوان نے سوال اٹھا یا کہ جناب آپ صرف تعلیمی نظام کو ہی ٹھیک کرنا چاہتے ہیں یا موجودہ ایگزامینشن سسٹم کو بھی ریفائن کیا جائے گا۔ اس پر بھی وزیر تعلیم کوئی واضح مؤقف پیش نہ کر سکے ’بس اتنا ہی کہا کہ میں کوئی ایجوکسٹ تو نہیں لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی ایسا نظام بنایا جائے جس کے ذریعے صرف نمبرز نہیں بلکہ آئی کیو لیول دیکھا جائے۔ مادری زبانوں کے حوالے سے سوال پہ بھی وزیر تعلیم بولے کہ ”ہمارے ہاں مادری زبان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تھوڑے سے خطے کے بعد زبان کا لہجہ بد ل جاتا ہے‘ سو ایسے میں یہ فیصلہ کرنا کہ تعلیم مادری زبان میں دی جائے تو پھر کون سی مادری زبان میں ’یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ہال میں بیٹھے ایک سرائیکی نوجوان نے مظفر گڑھ میں یونیورسٹی نہ ہونے کا بھی شکوہ کیا جس پر شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانا ناممکن ہے کیونکہ یونیورسٹی بنانے کے بعد اس میں فیکلٹی رکھنا اوراسے چلانا بھی ہوتا ہے جو بڑا ایشو ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ابھی تک سکولنگ نظام ہی بہتر نہیں ہوسکاتو یونیورسٹی کا سوال تو بہت بعد میں آتا ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم پر بات ہوئی تو محترم وزیر تعلیم بولے کہ اس پر کام تیزی سے جاری ہے۔

نصابِ تعلیم پر بھی ایک متاثر کن مکالمہ تھا کیونکہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا پیپر مافیا تعلیمی نظام کی ترقی میں اہم ترین رکاوٹ ہے۔ ہمارے ایک محترم دوست نے یونیورسٹی میں اساتذہ کی وائس چانسلر کی من مرضی سے ہائرنگ کے حوالے سے بھی انتہائی اہم ایشو کی جانب توجہ مبذول کروائی۔ سوال یوں تھا کہ جناب یونیورسٹی انتظامیہ اپنی مرضی سے بندے بھرتی کرتی ہے اور علمی اختلاف کے باعث کئی اہم لوگوں کو پیچھے دھکیل دیتی ہے جس پر وزیر تعلیم نے کافی تفصیلی گفتگو کی۔

یہ سچ ہے کہ شفقت محمود اسٹیج پر بیٹھے بار بار اس جانب توجہ کرواتے رہے کہ ستر سالوں میں ہم کوئی واضح نہ تو تعلیمی پالیسی دے سکے اور نہ ہی ان ستر سالوں میں ان دو کروڑ بچوں کو سکول لا سکے جو آج بھی سکولنگ سسٹم سے دور ہیں اور اس کی وجہ پاکستان میں تعلیمی اسٹرکچر نہ ہونا ہے۔ میں نے بھی محترم شفقت محمود سے یہی سوال کیا کہ جناب آج پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی اس بات پر واویلا کرتی رہے گی کہ پاکستان میں تعلیمی اسٹرکچر بہتر نہیں ہوا یا اس حوالے سے کوئی واضح تبدیلی ممکن ہوگی۔ کیونکہ یہ بات تو ہم پچھلے تیس سالوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ فلاں فلاں حکومت تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے کوئی واضح کام نہ کر سکی ’آج تحریک انصاف بھی یہی کیوں کر رہی ہے۔ آج تو حکومت عمران خان کے ہاتھ میں ہے‘ کیا عمران خان بھی یہی کہتے رہیں گے کہ ستر سال یہ یہ ظلم ہوا۔ یہ تو ہم مان گئے کہ ستر سال ظلم ہوا اور ہم تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ گئے سو آج ہمیں کوئی واضح روڈ میپ ملے گا یا وہی پرانا لولی پاپ ہی دیا جائے گا۔

وزیر تعلیم شفقت محمود نے اس جانب اشارہ کیا کہ مدارس کلچر میں تبدیلی ہم نے لائی ’انھوں نے کہا مدارس میں موجود ایسے طلبا جو مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کو قومی تعلیمی دھارے میں لانے کے لیے تحریک انصاف کی حکومت نے بہت اہم کام کیا جس کی تفصیل بھی بتائی اور یہ کام واقعی سراہاں جانا چاہیے۔ افکارِ تازہ فیسٹول میں یہ سیشن یقینا انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس سیشن میں ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اورپاکستانی نوجوانوں نے جس طرح بڑھ چڑھ کر اس سیشن میں سوالات اٹھائے اس سے اس بات کا تو اندازہ ہو گیا کہ پاکستانی نوجوان تعلیمی حوالے سے انتہائی پریشان اور مایوس ہیں۔

ایسا ہی ایک سوال اس فیسٹول میں ایک لڑکی نے وفاقی وزیر فواد چودھری سے کیا۔ اس طالبہ کا سوال تھا کہ ”پاکستانی گورنمنٹ سائنس دانوں کے لیے کیا کر رہی ہے ’وہ نوجوان جو آئی ٹی اور سائنس میں کوئی کام کرنا چاہتے ہیں اور جن کے پاس علم اور تعلیم ہے‘ ان کے لیے حکومتی لائحہ عمل کیا ہے؟ “ فواد چودھری نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں ’آپ آئیں‘ ہم سے شیئر کریں اور ہم آپ کے آئیڈیاز کو اہمیت دیں گے۔ اس بات کا اعتراف تو فواد چودھری نے بھی اپنی گفتگو میں کیا کہ پاکستان کو اگلے دس سالوں میں جو تین بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں سب سے بڑا چیلنج سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہے۔

یعنی ہم سائنس اور آئی ٹی کے میدان میں کون سا کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں کہ ہم دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن سکیں۔ میں ان دوسیشن میں شریک ہو کر ’دو وزراء سے مکالمہ کر کے اس نتیجے پہ پہنچا کہ اس بات سے ہمارے دو بنیادی وزیر تو واقف ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج تعلیم اور تعلیمی نظام ہے۔ وہ تعلیم کی کوئی بھی جہت ہو۔ سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا پھر آرٹس اور دیگر موضوعات ہوں‘ پاکستان تعلیمی میدان میں انتہائی پس ماندہ ہے جس پر حکومت کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

اب عوام کو یہ کہہ کہہ کر لولی پاپ نہیں دیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپٹ سیاست دان ہیں ’کیونکہ اب عمران خان کے پاس وہ ٹیم ہے جو اس نے خود منتخب کی ہے سو انھوں نے اس ٹیم سے کیسے کام لینا ہے‘ یہ انہیں سوچنا ہوگا۔ پاکستانی حکومت تعلیم پر بجٹ کتنا دیتی ہے اور وہ جو دو کروڑ بچہ سکولوں سے باہر ہے (جس کا ذکر بار بار وزیر تعلیم نے کیا) اسے واپس سکولوں تک کیسے لانا ہے۔ ایک نوجوان نے یہ سوال بھی اٹھا یا کہ جناب ہمیں واضح بتایا جائے کہ آپ کے پاس بجٹ ہے بھی یا کہ نہیں ’کیونکہ ہمیں صرف بتایا نہ جائے کہ اتنے کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں بلکہ انہیں سکولوں تک لانے کا اہتمام کیا جائے۔

یہ دو سیشن انتہائی پرمغز رہے اور اس میں جس انداز سے عوامی سوالات کا سامنا ہمارے لاڈلے وزراء نے کیا ’انتہائی مثبت قدم تھا جس پر ہمارے دوست ڈاکٹر یعقوب بنگش داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ختم ہوتی ہوئی مکالمے کی فضا کو بحال کیا۔ جب تک حکومت اور عوام کے درمیان مکالمے کی فضا بحال نہیں ہوگی اس وقت تک دونوں ایک دوسرے کے مسائل سے واقف نہیں ہو سکتے اور ایسے میں غلط فہمیاں بڑھتی رہیں گے جیسا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہو رہا ہے۔

عمران خان نے حکومت میں آنے سے قبل اس عوام سے اتنے وعدے کر لیے تھے کہ اب پورا کرنا ناممکن ہو گیا ہے اور عوام اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سرکار کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں تبھی وعدے پورے نہیں ہو رہے۔ سو افکارِ تازہ جیسے فیسٹیول جس میں ایک خوبصورت مکالمے کی فضا کو بحال کیا جائے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments