لندن کی ایک تصویر اور ٹیلی ویژن سکرین پر فوجی بوٹ


پاکستان میں انٹرنیٹ پر شائع ہونے والی ایک تصویر کے بہت چرچے ہیں۔ اس تصویر نے آرمی ایکٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اپوزیشن اور حکومت کےدرمیان بھائی بندی کے مناظر کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ کبھی نواز شریف کو ہاتھ پاؤں باندھ کر پاکستان لانے کی بات کی جاتی ہے اور کبھی ٹاک شو میں فوجی بوٹ پیش کرکےاپوزیشن کو اس کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے۔

حیرت ہے کہ لندن کے کسی کیفے میں بیٹھے نواز شریف کی تصویر پر چیں بچیں حکمران جماعت کے نمائندوں کو اپنی بے بسی اور سبکی دکھائی نہیں دیتی جو اقتدار کے لئے سارے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے عوض عمران خان سمیت تحریک انصاف کے سب انقلابیوں کے حصے میں آئی ہے۔ آرمی چیف کی توسیع کے معاملہ نے بلاشبہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ووٹر کو بے حد مایوس کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر سندھ کی حکومت چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس لئے اس کا سیاسی اسٹیک بہت زیادہ تھا۔ ویسے بھی جون 2015 میں اسٹبلشمنٹ کو للکارنے کی قیمت جلاوطنی کی صورت میں ادا کرنے کے بعد کم از کم آصف زرداری دوبارہ وہی غلطی اپنی زندگی میں کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری ضرور نئے ولولے اور پاکستانی سیاست کی اونچ نیچ سے کم آگاہی کی وجہ سے پرجوش ہو جاتے ہیں لیکن وہ بھی اسی سیاسی حکمت عملی کو مناسب اور قابل عمل سمجھتے ہیں جو ان کے والد متعین کردیں۔ گو کہ اس کم ہمتی کی وجہ سے پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو گئی لیکن اب وہ کسی بھی قیمت پر اپنی طاقت کے اس قلعہ سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا معاملہ پیپلز پارٹی سے مختلف رہا ہے۔ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر نواز شریف تصادم کی راہ اختیار نہ کرتے تو وہ چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن جاتے۔ تصادم کے اسی راستے کی بات اعجاز شاہ کے علاوہ چوہدری نثار علی خان کھلے عام اور شہباز شریف دبے لفظوں میں  تسلسل سے کرتے رہے ہیں۔  نواز شریف کی معزولی کے بعد سے تصادم کی یہ بات ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نام سے مجسم ہوکر ملک کے خاص و عام کی سماعت تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کے ووٹروں کی بڑی تعداد اور دانشوروں کے ایک طبقے نے اس کی تحسین بھی کی تھی۔ ملک کی سیاست میں تصادم کے یہ معنی عام ہوئے تھے کہ جو لیڈر بھی سیاسی معاملات میں ملکی اسٹبلشمنٹ کی دسترس کم کرنے کی بات کرے گا، اسے ملکی مفادات کا دشمن اور ناقابل قبول قرار دیاجائے گا۔ معزولی کے بعد سے ’مجھے کیوں نکالا‘ کی صدا دیتے ہوئے نوازشریف کا مؤقف تھا کہ وہ اب نظریاتی ہوگئے ہیں ، اس لئے انہیں طاقت ور حلقوں سے مفاہمت کرنے کی کوئی حاجت اور چاہ نہیں ہے بلکہ اب وہ امور مملکت میں عوام کی بلا شرکت غیرے بالادستی چاہتے ہیں۔ تاکہ منتخب سیاسی لیڈر عوام سے کئے ہوئے وعدوں کے مطابق پالیسیاں بنا سکیں اور ملک کے سب شعبے جن میں عسکری ادارے بھی شامل ہیں، پارلیمنٹ میں طے ہونے والے فیصلوں کے پابند ہوں اور خوش دلی سے جمہوری حکومت کے فیصلوں کو قبول کیا جائے۔

’تصادم ‘ کی اس صورت حال میں ایک طرف عوامی حاکمیت اور ووٹ کو عزت دو کی بات ہورہی تھی تو دوسری طرف عمران خان کی سرکردگی میں تحریک انصاف کرپشن اور سابقہ سیاسی لیڈروں کی لوٹ مار کے افسانوی قصے مارکیٹ کر رہی تھی۔ جب پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ میں ایک کمزور بنیاد پر ملک کے وزیر اعظم کو معزول کردیا گیا اور ایک سابق جج نے اس فیصلہ میں نواز شریف کو مافیا کا سرغنہ بھی قرار دیا تو یہ واضح ہونے لگا کہ تصادم کا کیا مفہوم ہے اور اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کے باوجود عدالتوں کی آزادی اور ججوں کی خود مختاری کا قصہ سناتے ہوئے کسی نام نہاد محکمہ زراعت یا خلائی مخلوق کے دست شفقت سے عمران خان، ایک رکنی پارٹی سے اقتدار حاصل کرنے والی بڑی پارٹی کے لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس تضاد کے باوجود نئے پاکستان کے نعرے کا سحر کچھ یوں سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ کوئی عقل کے ناخن لینے کو تیار نہیں تھا۔ یہ فقرہ مارکیٹ کا مقبول پراڈکٹ بن چکا تھا کہ ’اگر لیڈر دیانت دار ہو تو سارا نظام درست ہو جاتا ہے‘۔

اس ہنگامے میں دو باتوں پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ایک یہ کہ دیانت داری بھی بدعنوانی کی طرح ایک مبہم اور غیر واضح اصطلاح ہے۔ یہ دونوں اصطلاحات دراصل بے رنگ خاکے ہیں جن میں ہر شخص اپنی خواہشات کے رنگ بھر کر ایک تصویر اپنے ذہن میں جاگزین کر لیتا ہے اور پھر اسی کے آئینے سے پورے ملک کے حالات کو دیکھنا چاہتا ہے اور اس بات پر اصرار بھی کرتا ہے کہ اس تصویر کو ہی درست مانا جائے۔ ایسا ہر شخص اپنی جگہ پر درست ہوتا ہے کیوں کو یہ تصویر اس کے نامکمل خوابوں کا عکس ہوتی ہے جسے وہ کسی ایک لیڈر کی خود ساختہ خوبیوں یا صلاحیتوں کی بنیاد پر حقیقی بنتا محسوس کرتا ہے۔ جیسے نواز شریف کے عوامی حاکمیت کے دعوے میں ملک میں جمہوریت کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا خواب دیکھنے والوں کو ایک نئی امید دکھائی دینے لگی اور وہ سمجھنے لگے کہ نواز شریف نے ماضی کی سیاسی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اب ووٹ کو عزت دو یعنی عرف عام میں تصادم کی سیاست کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ویسے ہی  ملک کے معاشی مسائل سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کے ایک بہت بڑے طبقے نے عمران خان کے ساتھ وابستہ دیانتداری کے تصور سے امیدیں باندھ لیں اور اپنی بے رنگ تصویر میں خواہشوں و امیدوں کے نئے رنگ بھرنے لگے۔

 جس طرح نواز شریف سے عوامی حاکمیت کے لئے ہر قربانی کی توقع کرنے والے یہ فراموش کر بیٹھے کہ ہر انسان کا کوئی کمزور لمحہ ہوتا ہے۔ پھر اس لمحہ میں وہ اپنے ماضی سے پوری طرح فرار حاصل نہیں کرسکتا بلکہ یہ ایک سایے کی مانند اس کا پیچھا کرتا ہے اور کسی مرحلے پر وہ مجبور شخص اپنے ہی سایے سے بغل گیر ہونے پر آمادہ ہوجاتا ہے اور اسے ہی اپنی تکمیل کا مرحلہ سمجھنے لگتا ہے۔ نواز شریف کا یہ سچ آرمی ایکٹ کی غیر مشروط توثیق کی صورت میں سامنے آیا۔ ان سے کسی انقلاب آفرین کردار کی توقع کرنے والے منہ میں انگلیاں دابے حیرت سے یا تو عذر خواہی کر رہے ہیں یا اس کی تاویلات تلاش کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے عمران خان کی دیانت داری سے ذاتی خوشحالی اور ملکی فلاح کی بڑی امیدیں باندھی تھیں، وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ دیانت داری ایک نعرہ ہے۔ کوئی نعرہ کسی ملک اور اس کے عوام کے حالات تبدیل نہیں کرسکتا۔ جس طرح بیشتر سیاست دانوں کی بدعنوانی اسی وقت ثابت ہو پاتی ہے اگر عدالتیں سیاسی مفاد کی عینک لگا کر فیصلے کرنے کی پابند ہوجائیں۔ اسی طرح کسی عمران خان کی دیانت داری بھی اسی وقت رنگ دکھا سکتی تھی اگر ان کا دامن حریص اور مفاد پرست لوگوں سے پاک ہو۔ اس طویل بحث کو مختصراً یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ لیڈر کیسے دیانت داری کا دعویٰ کرسکتا ہے جسے بڑا سرمایہ دار آگے بڑھنے کے لئے اس امید پر سرمایہ فراہم کرتا ہو کہ وقت آنے پر اسے وصول کر لے گا۔

اس معاملہ کا دوسرا پہلو زیادہ قابل غور اور گمبھیر ہے۔ عوامی حاکمیت کی بات ہو یا لیڈرکی دیانت داری موضوع بحث ہو ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاسی نعروں کے چنگل سے نجات پا کر یہ طے کیا جائے کہ اس ملک میں معاشی انحطاط کے بنیادی عوامل کیا ہیں۔ چونکہ کوئی بھی ان وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا لہذا نہ مسائل کی فہرست بندی ہو پاتی ہے اور نہ ہی ان کے حل کے لئے کوئی حکمت عملی تیار کرنے کی نوبت آتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دیانت داری کا علم تھامے ایک لیڈر یہ بتاتا ہے کہ اگر بدعنوانوں سے نجات حاصل کرلی جائے تو ملک کی معیشت سرپٹ بھاگنے لگے گی اور دوسرا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نااہل لیڈر سے گلو خلاصی ہو جائے تو 6 ماہ میں کایا پلٹ جائے گی۔ بدنصیبی سے ملکی لیڈروں نے قوم کو نعروں کے پیچھے بھاگنا سکھایا ہے، مسائل کو سمجھنا اور ان سے نمٹنے کی تیاری کرنے کا شعور دینے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔

اسی ناسمجھی کا نتیجہ ہے کہ لندن کی ایک تصویر پر یہ طوفان اٹھا ہے کہ ملکی عدالتی نظام کی توہین ہوگئی۔ اور ایک وزیر فوجی بوٹ کو طاقت کی علامت کے طور ایک ٹی وی اسٹوڈیو میں لاتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کیوں کر حکومت میں ہیں اور کیوں اسی پارٹی کے نمائندوں کو دیانت داری و صداقت کا تمغہ سینے پر سجانے کی اجازت ہے۔ منہ زوری کرتے ہوئے یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ ایک بوٹ کی طاقت پر ننگے پاؤں چلنے والے کس برتے پر اترا رہے ہیں؟

آئین ایک عدالت کے چند ججوں کی ذاتی تفہیم کا پابند ہوچکا اور حب الوطنی نیم تاریک کمروں میں بیٹھے ہیولوں کے لکھے حرفوں کی قید میں ہے۔ ساری زندگی اس ملک کی حفاظت اور عام شہریوں کے بنیادی حقوق کی جد و جہد کرنے والے شخص کے بارے میں اسی کا لیپ ٹاپ چغلی کھانے لگتا ہے کہ وہ تو ’جاسوس‘ ہے اور انصاف پر تلے ہوئے قاضی کا قلم لڑکھڑانے لگتا ہے۔

ایسے میں ایک تصویر پر ملک کی تقدیر بدلنے کا افسانہ گھڑنے اور بوٹ کی طاقت پر اترانے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ سیلاب بلا کسی ایک گھر کا ہوکر نہیں رہتا۔ یہ گھر بدلنے کا عادی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments