اِس مکان میں کون رہتا ہے؟


کچھ عرصے سے مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میرے مکان میں کوئی نا معلوم شخص رہتا ہے، پہلے پہل تو میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی مگر پھر کچھ واقعات ایسے ہوئے کہ مجھے اپنا شک یقین میں بدلنا پڑا۔ میں کوئی توہم پرست آدمی نہیں، بھوت پریت پر یقین نہیں رکھتا اور محیر العقول باتوں کو ہنسی میں اڑانے کا قائل ہوں مگر اب شاید مجھے اپنی رائے تبدیل کرنا پڑے۔

اس مکان میں رہتے ہوئے مجھے زیادہ وقت نہیں گذرا، ایک سال پہلے اِس شہر میں تبادلہ ہوا تو یہ مکان کرائے پر لینا پڑا، اُس وقت بھی مجھے یہ کچھ عجیب سا لگا تھا، شہر سے ذرا پرے ہٹ کے ویران سے علاقے میں جہاں ارد گرد اکا دکا مکانات تعمیر ہو رہے تھے۔ قریبی بس سٹاپ تک پہنچنے کے لیے آدھ گھنٹہ تک چلنا پڑتا تھا، آس پاس کوئی دکان بھی نہیں تھی۔ کچھ دور ایک کھوکھا تھا جو سر شام ہی بند ہو جاتا تھا۔ پراپرٹی ڈیلر نے مکان کی چابیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ اِس کرائے میں اتنا مناسب مکان کسی اور جگہ نہیں مل سکتا، ساتھ ہی اُس نے یہ تسلی بھی دی تھی کہ ہائی وے کی ذیلی سڑک منظور ہو چکی ہے بس جونہی وہ مکمل ہوئی اِس علاقے میں رونق ہو جائے گی اور آپ اکیلے آدمی ہیں، شام کو سونے ہی آئیں گے، آپ کے لیے اِس سے بہتر جگہ بھلا اور کیا ہو سکتی ہے۔ بات معقول تھی سو میں نے زیادہ بحث نہیں کی۔

شروع شروع میں مجھے زیر تعمیر مکانوں میں کوئی مزدور نظر آجایا کرتا تھا مگر اب کافی عرصے سے اِن مکانات کی تعمیر بھی سست روی کا شکار ہے، شام کو جب میںدفتر سے واپس لوٹتا ہوںتو یہاں بالکل ہی سناٹا چھایا ہوتاہے، کھوکھے والے سے کبھی کبھار سلام دعا ہو جاتی ہے، میں کھڑے کھڑے اُس سے سگریٹ لیتا ہوں، کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرتا ہوں، زیادہ دیر نہیں رکتا کیونکہ مجھے بس پکڑناہ وتی ہے۔ یہ کھوکھے والا پرے ایک گاؤں میں رہتا ہے اِس لیے جلدی چلا جاتا ہے۔

کوئی چار ہفتے پہلے کی بات ہے، مجھے دفتر سے لوٹتے ہوئے ذرا دیر ہوگئی۔ جب میں بس سے اترا تو رات ہو چکی تھی۔ مکان میں داخل ہوا تو مجھے یوں لگا جیسے پہلے سے کوئی دروازے کی اوٹ میں کھڑا ہے جو یکدم میری آہٹ سن کر غائب ہو گیا۔ میں نے زیادہ توجہ نہیں دی اور باورچی خانے میں چائے بنانے چلا گیا۔ وہاں ایسی خوشبو آرہی تھی جیسے ابھی ابھی کسی نے کھانا گرم کیا ہو۔ میں نے ذہن کو ایک جھٹکا سا دیا اور چولہا جلانے کے لیے ماچس ڈھونڈنے لگا۔ ماچس اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی مگر تھوڑی تلاش کے بعد مل گئی۔ میں نے کیتلی میں چائے گرم کی اور کپ پکڑ کر سونے کے کمرے میں آگیا۔

میری عادت ہے کہ صبح تیار ہونے کے بعدہر چیز کو ترتیب سے رکھ کر جاتا ہوں۔ کپڑے الماری میں لٹکا دیتا ہوں، برتن صاف کرکے رکھتا ہوں اور بستربھی جھاڑ کر چادر دوبارہ سے بچھاتا ہوں۔ لیکن اس وقت بستر کی حالت یوں تھی جیسے ابھی ابھی کوئی اٹھ کر گیا ہو۔ چادر پلنگ سے نیچے لٹک رہی تھی اور تکیے ایک دوسرے کے اوپر ایسے رکھے تھے جیسے اکثر لوگ سونے کی غرض سے رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات ایک ماہ پہلے کی ہے۔ اس وقت میں نے دل کو یہ سوچ کر تسلی دی تھی کہ شائد میں بستر ایسے ہی چھوڑ کر گیا تھا۔ مگر اس کے بعد ہر روزیہی ہونے لگا۔

میں مکان کی بتی گل کرکے جاتا تو واپسی پرتمام کمرے روشن ملتے۔ ایک دن میں جان بوجھ کر بیرونی پھاٹک کھلا چھوڑ گیا۔ مگر اسی شام جب میں واپس لوٹا تو دیکھا کہ پھاٹک کے کواڑ بند ہیں۔ اس دن مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ کوئی ہے جو میری عدم موجودگی میں یہاں رہتا ہے۔ میں شاید ان واقعات کی بھی کوئی نہ کوئی توجیح تلاش کرلیتا مگر اب کچھ دنوں سے تو اس نامعلوم مکین نے حد ہی کر دی ہے۔ میرے کھانے پینے کی چیزیں کم پڑنے لگی ہیں۔ وہ کپڑے جو میں نے کئی ہفتوں سے نہیں پہنے، ان کی حالت ایسی ہوگئی ہے جیسے روزانہ کوئی انہیں پہنتا ہے۔

ابھی دس دن پہلے کی بات ہے میں کھانا کھا رہا تھا کہ یکدم مجھے دھم سے کوئی آواز سنائی دی۔ یوں لگا جیسے کوئی وزنی چیز صحن میں گری ہے۔ پہلی دفعہ مجھے شدید خوف محسوس ہوا۔ میں نے کھانا وہیں چھوڑا اور کمرے سے باہر نکل کر صحن میں جھانکنے کی کوشش کی، وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ برآمدے کا بلب میں ہمیشہ روشن رکھتا ہوں لیکن اس وقت وہ بجھا ہوا تھا۔ بدقت تمام میں نے دیوار کو ٹٹول ٹٹول کر بجلی کا بٹن تلاش کیا اور دبایا۔ ایک جھپاکے سے پورا صحن روشن ہوگیا۔ لیکن وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔

میں نے اب یہ سوچا ہے کہ جلد از جلد اس مکان کو چھوڑ دوں اور کوئی دوسرا مکان تلاش کروں جو کسی جدید اور بارونق علاقے میں ہواور جہاں آنے جانے میں کوئی خوف محسوس نہ ہو۔ مگر نجانے کیوں مجھے لگتا ہے جیسے میری یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی کیونکہ اس محدود آمدنی میں میرے لیے کوئی مہنگا مکان لینا ممکن نہیں۔ مجھے شائد اب اس نامعلوم مکین کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اصل مکین ہے اور میں اس مکان میں کوئی غیر ضروری فرد ہوں جو اپنی مرضی سے نہ کمرے میں روشنی کر سکتا ہے نہ سکون سے سو سکتا ہے۔

اب میں صبح دفتر جانے سے پہلے دو بندوں کا کھانا بنا کر جاتا ہوں۔ ایک اپنے لیے اور ایک اس نامعلوم مکین کے لیے۔ شائد کچھ دنوں تک مجھے مہینے کے راشن میں بھی اضافہ کرنا پڑے۔ آج جب مالک مکان کرایہ لینے آیا تو میں نے پہلی مرتبہ جھجکتے ہوئے اسے بتایا کہ اس مکان میں کوئی نامعلوم مکین بھی براجمان ہے جس کی وجہ سے میں شدید خوف میں مبتلا ہوچکا ہوں۔ مالک مکان نے بڑے غور سے میری باتیں سنیں اور سر ہلاتا رہا۔ تاہم میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ پراسرار مکین کا ذکر سن کر اس نے کسی تعجب یا پریشانی کا اظہار نہیں کیا، شائد وہ اس نامعلوم مکین کے بارے میں پہلے سے کوئی علم رکھتا تھا۔ میرے لیے یہ بات مزید تشویشناک تھی۔

تاہم مالک مکان نے مجھے تسلی دی اور کہا کہ آپ بے فکر رہیں، آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ میں نے غصے سے پوچھا ایک نامعلوم شخص یہاں رہتا ہے، میرا کھانا کھا جاتا ہے، میرے کپڑے استعمال کرتا ہے، عجیب و غریب آوازیں مجھے ڈراتی ہیں اور آپ کہتے ہیں بے فکر رہوں۔ مالک مکان میری بات سن کرپہلی مرتبہ مسکرا یا اور بولا میں آ پ کی پریشانی حل کیے دیتا ہوں۔ آئندہ سے آپ نے مکان کا کرایہ اسی نامعلوم مکین کو ادا کرنا ہے پھر آپ کے ساتھ کچھ نہیں ہو گا۔ میں ہڑبڑا گیا۔ لیکن وہ تو نظر ہی نہیں آتا۔ مالک مکان کی طمانیت بھری آواز آئی۔ آپ نے بس ایک لفافے میں کرایہ ڈال کر کمرے میں رکھ دینا ہے۔ وہ خود ہی لے جائے گا۔

(ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کیا گیا مکمل کالم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments