کیا سندھ کے نمائندے ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں؟


شمالی سندھ کا نام آتا ہے تو ذہن میں ڈاکو کلچر کا خیال آتا ہے۔ کافی عرصہ پہلے ایک پڑہے لکھے ڈاکو کا انٹرویو چلا تھا۔ پڑہے لکھے لوگ کیسے ڈاکو بنتے ہیں یہ الگ بحث ہے۔ عزتدار انسان جرائم کی دنیا میں کن نا انصافیوں کی وجہ سے دھکیل دیے جاتے ہیں یہ بھی بات بھی کبھی ہونی چاہیے اس میں پولیس کا ایک اہم منفی رول رہا ہے جس پر کبھی بحث کریں گے۔

یہ بات حقیقت ہے لیکن کبہی آپ کو مظلوم سندھ تلاش کرنی ہو تو ان علاقوں میں جائیے آپ کو دل دہلا دینے والے منظر دکھائی دیں گے۔ سندھ کا مظلوم چہرہ تھر نہیں شمالی سندھ ہے۔ تھر میں سندھ مر رہا ہے۔ ان علاقہ جات میں سندھ مارا جاتا ہے۔ ان علاقوں کو عورت کی مقتل گاہ بھی کہتے ہیں، حال ہی میں ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے شمالی علاقہ جات میں 80 قتل ہوئے جن میں 52 عورتیں اور 28 مرد شامل ہیں۔ یہ 2019 کے جنوری سے جون تک 6 ماہ کی رپورٹ تھی۔ اب کہ تازہ رپورٹ ہے کہ 2020 کے شروعاتی دنوں میں سندھ میں دس عورتیں قتل ہوئیں جن میں 6 کاروکاری کے الزام تحت قتل ہوئیں اور تقریباً سب کا تعلق سندھ کے شمالی علاقہ جات سے تھا سندھ کو جہالت کے دور میں دھکیلنے کا سب سے بڑا کریڈٹ ان قبائلی سرداروں اور منتخب نمائندوں کو جاتا ہے۔

شمالی علاقہ جات میں سندھ کے دکھوں کی لمبی داستانیں ہیں، سندھ کاری ہوتا ہے، سندھ ونی ہوتا ہے، سندھ قبائلی تکراروں میں گھرا ہے، سندھ کے ضعیف جسم پر سردار، جاگیردار اور میاں مٹھو بھرچونڈی جیسے گدھ بیٹھے نظر آئیں گے۔ جو اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب اس کمزور جسم کا سانس نکل جائے اور کب ہم اس کو نوچ کھائیں۔ اب اگر آپ کو پیپلزپارٹی کی جمہوریت دیکھنی ہے تو دیکھیں کہ اس پارٹی نے یہ اکثر گدھ ساتھ ملا لیے ہیں اور اب تو مسلسل تیسری مرتبہ برسراقتدار ہے۔

ان علاقہ جات میں شکارپور بھی ہے کل ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد نے ڈی آئی جی لاڑکانہ کو ایک رپورٹ بھیج کر سندھ کی سیاست کا خول نوچ لیا ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سندھ میں شکارپور کچے کے علاقے میں آنے کی وجہ سے ڈاکوؤں کا مرکز رہ ہے۔ قبائلی سردار اور بلوچستان سے سرحدیں ملنے کی وجہ سے حالات انتہائی خطرناک رہتے ہیں۔ جب سے چارج سنبھالا ہے تب سے یہ جان کر حیران ہوا کہ ان سب کاموں میں وہاں کی سیاسی شخصیات شامل ہیں جو کہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

اس نے رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ جب سے چارج سنبھالا تو مقامی با اثر شخصیات قبائلی سردار بالخصوص منتخب نمائندوں کی مزاحمت سامنے آئی۔ جب کچھ وقت گزرا اور حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا تو پتا چلا کہ پیپلزپارٹی کا مقامی نمائندہ اور صوبائی وزیر شکارپور امتیاز شیخ میں جرائم پیشہ افراد کا سرغنہ ہے اور جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان افراد کو بوقت ضرورت سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔

رپورٹ میں ایس ایس پی شکارپور نے ایک اہم دعویٰ کیا ہے کہ امتیاز شیخ نے محض سیاسی مخالفت پر اپنے سیاسی مخالف شاہنواز بروہی کے بیٹے کو قتل کروایا۔ امتیاز شیخ کو پولیس کا کنٹرول چاہیے اور اس نے بارہا کوشش کی کہ اپنی مرضی سے پولیس اہلکار کی تعیناتیاں کروائے جیسے وہ اس کی ایما پر کام کریں اور پولیس کی خفیہ رپورٹس اس تک پہنچائیں۔ رپورٹ میں صوبائی وزیر امتیاز شیخ اور ایس ایس پی شکارپور کے ٹیلیفونک رابطوں کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ پولیو ٹیم سے ڈکیتی میں امتیاز شیخ کے بھائی مقبول احمد شیخ کا گن مین شامل تھا۔ امتیاز شیخ کے ہاتھ پر تعغانی قبیلے کے خطرناک ڈاکو کام کرتے ہیں جو اغوا برائے تاوان جیسی کئی وارداتوں میں مطلوب ہیں۔

رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ حاصل کیے گئے کال رکارڈ کے مطابق صوبائی وزیر امتیاز شیخ اس کے بھائی مقبول احمد شیخ اور امتیاز شیخ کے بیٹے فراز احمد شیخ کے ڈاکوؤں سے رابطے کے ثبوت حاصل کیے گئے ہیں۔ جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ علاقے کے تمام مطلوب ڈاکووں کے ان سے رابطے ہوتے ہیں۔ اور جب بھی ان کے خلاف آپریشن سخت ہوتا ہے تو ان کو یہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد نے صوبائی وزیر امتیاز شیخ پر اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، قتل جیسے سنگین جرائم کروانے میں شامل ہونے کے مبینہ ثبوتوں کے بعد امتیاز شیخ کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی ہے۔ اس کے پیپلزپارٹی سندھ حکومت میں زلزلہ آگیا ہے اور وضاحتوں پر وضاحتیں پیش کر رہی ہیں۔

ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد کے لگائے سنگین الزامات کے جواب میں صوبائی وزیر امتیاز شیخ کا کہنا ہے کہ سب الزام بے بنیاد ہیں اس پر قانونی چارہ جوئی کرونگا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ کہ شکارپور کے عوام نے مسلسل تین مرتبہ منتخب کیا ہے کوئی ایک پولیس افسر ساکھ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ایک جعلی رپورٹ بنا کر جھوٹے الزام لگائے گئے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ حکومتی وزیر پر پولیس کی جانب سے ایسا الزام لگایا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھی ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد نے ایک ایسی پریس کانفرنس کی تھی جس میں بھی اس نے منتخب نمائندوں کے بارے میں کہا تھا کہ حالات خراب کرنے میں شامل ہیں جس پر کافی بحث ہوئی۔ لیکن اس رپورٹ نے تو ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جس کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن نہیں لگتا کہ شکارپور کے لوگ کبھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments