کیا مختلف شعبہ جات کے لوگ ایک ہی کام کر رہے ہیں؟


انسان کا بھوک کی تسکین کے لیے نئے نئے جتن کرنا ہی کائنات کی تسخیر اور معاشروں کی افزائش کا سبب بنا۔ ابتدائے کائنات سے، ابن آدم بھوک کی تسکین کے لیے طرح طرح کے پیشے اپناتا رہا ہے اور معاشرے کی بقا اور اور اس کے ارتقا میں برابر اپنے مدار میں رہ کر کردار ادا کرتا ہے۔ وسائل تک رسائی کے غیر منصفانہ نظام نے انسانوں کو مختلف طبقوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک طبقہ وسائل کی وافر فراہمی کے باعث زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے مستفید ہوتا ہے تو دوسرا طبقہ بنیادی حقوق سے بھی محروم نظر آتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں ذریعہ معاش کے مختلف ذرائع جنم لیتے ہیں۔

زندگی کی مسافت میں ہر انسان تشنہ لب ہے۔ کسی کو تھوڑی سی محنت سے بہت کچھ مل جاتا ہے اور کسی کو بہت محنت کے باوجود بھی کچھ نہیں ملتا لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ خدا باری تعالی محنت کا صلہ نہیں دیتا لیکن کچھ کاموں کی حکمت صرف خدا تعالیٰ جانتا ہے۔ انسان کے اختیار میں صرف محنت اور دعا ہے اور ایک انسان صرف اپنے اختیار میں دی ہوئی چیزوں میں زیادتی و کمی کر سکتا ہے۔ محنت کا صلہ دینا اور قسمت کا سکہ گھمانا خدا کا اختیار ہے اس لیے انسان کو صرف محنت ہی کرنی چائیے۔ کتنا پیارا رب ہے کہ جس کے ہاں بڑائی کا معیار دولت، رنگ، نسل اور ذات پات نہیں بلکہ تقوی سے انسان کی بڑائی کو جانچا جاتا ہے۔ ہم سب کا خدا ایک ہے اور ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر سوائے تقوی کے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔

ہمارے معاشرے میں انسان کی برتری کا معیار اس کے رتبے سے ہے جس کی اساس معاشرے میں وسائل کی غیر منصفانہ دستیابی ہے۔ یعنی انسان اپنے ہی خدا کے لاگو کیے گئے تقاضوں کو چیلنج کرتا ہے اور در حقیقت مردہ معاشروں کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خدا کے بنائے ہوئے قوانین سے منحرف ہیں۔ میں اپنی بات کو مثال سے ثابت کرنا چاہتا ہوں۔

یہ مثال ان دو شخصیات کی ہے جن کا کام کر نے کا مقصد صرف چیز کو ٹھیک کرنا ہے ڈاکٹر انسان کو ٹھیک کرتا اور مکینک مشین کو۔ ایک ڈاکٹر ساری زندگی مریضوں کا علاج کرتا ہے جبکہ ایک موٹر سائیکل ٹھیک کر نے والا بھی اپنی زندگی لوگوں کے ناکارہ موٹر سائیکل صحیح کر نے میں گزار دیتا۔ جیسے ایک ڈاکٹر پہلے ہاؤس جاب کے دور سے گزر کے ڈاکٹر کہلایا جاتا ہے بالکل اسی طرح ایک موٹر سائیکل ٹھیک کرنے والا بھی کام سمجھنے کے بعد ہی ماہر مکینک مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اپنی الگ دکان کھولتا ہے جبکہ مکینک اپنی الگ دکان کھولتا ہے۔ دونوں شخصیات کے بغیر انسانی معاشرے کی بقا ناگریز ہے۔ دونوں شخصیات اگر اپنا کام چھوڑ دیں تو کیا وہ اس زندگی کی جنگ لڑ سکیں گے؟

کیا وہ اپنی بھوک کی جبلت کی تسکین کر سکیں گے؟

جب دونوں انسان بلکہ ہر انسان معاشرے کی بقا میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے ہر ہنر مند انسان کے بغیر معاشرے کا نظام چلنا مشکل ہے تو کیوں اس معاشرے میں ایک ڈاکٹر اور ایک مکینک کو الگ الگ رتبے دیے گئے ہیں۔ معاشرے کے نزدیک جو کچھ نہیں پڑ ہتا اس کو مکینک بنا دو۔ ہر انسان اپنے فن میں کمال رکھتا ہے۔ ڈاکٹر کو مکینک کے کام کا علم نہیں اور مکینک کو ڈاکٹر کے کام کو نہیں جانتا۔

یہاں پر ایک بات بہت غور طلب ہے کہ آج کل کے دور میں اہل علم وہی لوگ سمجھے جاتے ہیں جو کسی ادارے میں داخل ہو کر بھاری فیس ادا کر کے کاغذ کا ایک ٹکڑا لیے پھرتے ہیں کہ ہاں میں اہل علم ہوں جبکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے پھر یہی لوگ آگے نوکری کے دوران دوبارہ کام سیکھتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ کسی کام کو کرنے کے لیے بھی علم ہونا ضروری ہے۔ ایک مکینک جس کو یہ معاشرہ ان پڑھ کہتا ہے۔ کیا وہ بغیر کسی علم کے آپ کا موٹر سائیکل صیح کر سکتا؟

بلا شبہ نہیں۔ جا ہل وہ ہے جس کو کسی چیز کا علم نہ ہو اور قابلیت کا اندازہ تعلیمی ادارے میں فیس دے کر اور ایک کاغذ کا ٹکڑا حاصل کرنے سے قطعاً نہیں لگایا جا سکتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک مکینک ان پڑھ ہے کیونکہ اس کو اس ڈاکٹر جیسا علم نہیں لیکن کیا اس معاشرے کو مکینک کے کام کا علم ہے؟ شاید نہیں۔ ہر ہنر مند شخص اپنے پیشے کے متعلق ہی علم رکھتا ہے۔

معاشرے کو اپنی سوچ کا معیار بدلنا ہو گا۔ انسان کا درجہ اشرف المخلوقات ہے اور انسان کا حق ہے کہ اس کے کام سے زیادہ انسان سے محبت کی جائے اور عزت کا معیار ہنر ہونا چاہیے۔ انسان کو بجائے ڈاکٹر اور مکینک کے طبقاتی درجوں میں تقسیم کرنے کے، انسان سمجھا جائے اور ہنر اور علم والے کی عزت کی جائے، تو مثالی معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments