پرانا عمران خان اپنے ہی نئے پاکستان میں کہیں کھو گیا


ملائشیا کو غربت کی گہرائیوں سے نکال معاشی ترقی کی اوج پر لے جانے والے مہاتیر محمدوزیر اعظم عمران خان کے رول ماڈل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک صدر رجب طیب اردوان اور چینی قیادت سے بھی عمران خان متاثر ہیں جس کی وجہ ان ممالک کی قلیل مدت میں معاشی ترقی اور عالمی برادری میں منفرد مقام کا حصول ہے۔ لیکن یہ سمجھ لینا کہ ان ممالک کی ترقی کی بنیاد صرف اور صرف وہ معاشی پالیسیاں ہیں جو ان سربراہان نے نافذ کیں تو یہ سراسر غلط ہوگا۔ بلکہ کسی بھی عظیم لیڈر کے لئے سب سے اہم اقدار اور اصول ہوتے ہیں جن کا سودا وہ معاشی فائدوں کے لئے نہیں کرتے۔

ملائشیا نے کچھ عرصہ قبل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو نئی دلی نے وہاں سے پام آئل کی در آمد پر پابندی لگا دی۔ چونکہ ملائشیا پام آئل کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور بھارت کوکنگ آئل کا سب سے بڑا امپورٹر ہے لہذا کوالالمپور کی معیشت کو اچھا خاصہ دھچکا لگا۔ مگر اس بارے میں جب مہاتیر محمد سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ”بھارت کے اقدام پر تشویش ضرور ہے مگر پیسوں کی خاطر سچ بات کہنا ترک نہیں کرسکتے“۔

مہاتیر محمد کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب سوائے ترکی اور ایران کے پوری اسلامی دنیانے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جرائم سے نہ صرف چشم پوشی کی بلکہ فاشسٹ آئیڈیالوجی رکھنے والے بھارتی وزیر اعظم کو اعزاز سے بھی نوازا۔ تقریبا تمام ممالک اس وقت دنیا کی دوسری بڑی ”ابھرتی ہوئی“ معیشت سے بہتر مراسم کا خواہش مند ہے۔

ایسا ہوتا ہے ایک رہنما کا کردارجو اپنے اصولوں اور اقدار پر قائم رہتا ہے اور اسی رویہ میں اس کے ملک کی بہتری کا راز پنہاں ہوتاہے۔

دوسری جانب عمران خان کا اقتدار میں آنے سے قبل جو بے باکانہ اور کھرا رویہ تھا وہ وزارت عظمیٰ میں آنے کے بعد یکسر بدل گیا۔ لہجے کی سختی اور الفاظ کی کاٹ سیاسی حریفوں سے انتقام کے لئے مختص ہو کر رہ گئی۔ اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی وجہ سے شہرت پانے والے کپتان نے ’یوٹرن‘ لینے کی روش کو اپنا خاصہ بنالیا۔ کیے ہوئے وعدوں سے پھر جانے پر اور دی گئی زبان کی خلاف ورزی کرنے پر عذر خواہی کی بجائے اسے بڑے لوگوں کا شیوہ قرار دے دیا۔ حالانکہ عمران خان ورلڈ کپ جیتنے، کینسر ہسپتال کی تعمیر اور نمل یونیورسٹی بنانے کے اقدام کو اپنی ان تھک محنت اور اصول پسندی کا نتیجہ قرار دیتے رہے۔

قومی سیاست سے متعلق بیسیوں ایسی مثالیں موجود ہیں جن پر عمران خان کی پہلے رائے کچھ اور تھی اور وزیر اعظم بننے کے بعد بالکل ہی بدل گئی۔ چاہے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا معاملہ ہو یا مشرف غداری کیس پر موقف، چاہے میٹرو بس بنانے کی بات ہو یاسڑکوں کی تعمیر پر وسائل صرف کرنے کا معاملہ، عمران خان کی رائے میں تبدیلی آتی گئی۔

وزیر اعظم عمران خان کے دل میں اس وقت بڑا لیڈر بننے کی خواہش ہے۔ ایسا لیڈر جسے پاکستان کی نسلیں یاد رکھیں۔ ایسا رہنما جو سنگا پور، ملائشیا، چین اور ترکی کی طرح اپنے ملک کو اقتصادی ترقی کے عروج پر لے جائے۔ وہ اس وقت ”اپنے“ معاشی ویژن کے اجرا کے لئے کہ لئے کوئی رسک لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ا پنی اقتصادی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہیں معاشی وسائل درکار ہیں۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان نے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کی۔

ترک صدر کے انکشاف سے پتا چلا کہ سعودی عرب نے عمران خان کو دھمکی دی تھی کہ اگر کوالالمپور سمٹ میں شرکت کی تو وہ پاکستان کی معاشی مددسے ہاتھ کھینچ لے گا اور اپنے ملک سے پاکستانیوں کو نکال کر بنگہ دیشیوں کو ملازمت پر رکھ لے گا۔ مالی نقصان کے ڈر سے عمران خان نے اپنی دیرینہ خواہش ترک کردی۔ ریاست مدینہ کی طرزپر پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے خواہش مند عمران خان کی یہ دیرینہ آرزو تھی کہ ملائشیا اور ترکی کے ساتھ ملکر یورپ میں اسلامو فوبیا کی لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے فورم اور چینل تشکیل دیا جائے۔ لیکن جب اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو وزیر اعظم معاشی دباؤ کے آگے ڈھیر ہوگئے۔

حال ہی میں جب امریکا کے جنرل قاسم سلیمانی پر قاتلانہ حملے کے بعد خطے میں کشیدگی عروج پر پہنچی تو عمران خان کی حکومت کا ابتدائی رویہ سمجھ سے بالا تر رہا۔ یہ وہی عمران خان ہے جس نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے دو انتہائی حساس موقعوں پر حکومت کی خارجہ پالیسی کو جہت دی۔ اب جب اسی عمران خان کی حکومت ہے تو ان کی وزارت خارجہ ٹھوس موقف اپنانے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کے خلاف بیان دینے سے کتراتی رہی۔

ادھر مائیک پومپیو کی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ کو فون کے بعد سے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ خدشہ پیدا ہوگیا کہ شاید پاکستان دو ہزار کی دہائی کی طرح امریکی جنگ کا حصہ بننے جارہا ہے۔ لیکن اگلے روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح اور دوٹوک پیغام میں کہا کہ پاکستان کی سرزمین ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی جس کے بعد تمام افواہوں اور چہ مہ گوئیاں دم توڑ گئیں۔

یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے نہ صرف پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں اور پاکستانی فوج کو یمن بھیجنے سے متعلق حکومتی پالیسی کو جہت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ ان کی پارٹی نے ان ایشوز سے متعلق رائے عامہ کو بھی ہموار کیا۔ ہمیشہ سے امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والے کپتان نے اسے رکوانے کے لئے متعدد بار احتجاج کیا۔ یہاں تک کہ نیٹو سپلائی کے روٹ پردھرنا دے کر ایک ماہ سے زائد عرصے کے لئے ترسیلات بند کردیں۔ جب سعودی عرب نے یمن میں لڑنے کے لئے پاکستان سے جنگی سامان اور افواج بھیجنے کی درخواست کی تو اس وقت ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت پی ٹی آئی نے جنگ میں کودنے کے خلاف دوٹوک ا اور واضح موقف اپنا یا تھا۔

اپوزیشن میں رہتے ہوئے ملک کی خارجہ پالیسی سے متعلق غیر مبہم رائے رکھنے والے عمران خان بھی اقتدار پرستی کا شکار ہوگئے۔ سیاسی، معاشرتی، معاشی اور سفارتی بحران کے طوفان کے آگے بند باندھنے کی بجائے سر جھکا کر اپنے معاشی منصوبوں کی دنیا میں ہی گم رہتے ہیں۔ مگر وہ اس بات سے غافل ہیں کہ پاکستان کی ترقی کے کے اہم معمار سمجھے جانے والے ڈکٹیٹر ایوب خان کو نئی نسل صرف ”ہائے ہائے“ کے نعروں سے ہی جانتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments