فلسفے کا سب سے بڑا سوال ( دوسرا حصہ )۔


میر تقی میر خدا کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :

ملے جو محرمِ شوخی ترا تو میں پوچھوں

کہ بزمِ عیشِ جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

مگر ان کو کوئی محرمِ خدا نہ ملا اور تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا۔ گرچہ دہلی ہمیشہ مرکزِ اہلِ رمز رہا مگر یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا۔ وہی طاقت کامیاب ٹھہرتی جو دِکھتی تھی، ماورائی طاقت طاقِ نسیاں ہی رہتی۔ بہرحال حالی کے اس کہے پر عمل کرکے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ :

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ

نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہر گِز

مابعدالطبیعات پر یقین رکھنے والے اپنے موقف کے حق میں جو دلائل دیتے ہیں، ان میں سے ایک اہم دلیل یہ ہے کہ اتنی بڑی کائنات خود بخود اتنی خوب صورت اور کامل ترتیب اختیار نہیں کرسکتی۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ بیس سِکے جن پر ایک دو تین بیس تک لکھا ہو، ایک تھیلی میں ڈال دیں اور پھر ایک ایک اس توقع سے نکالنا شروع کردیں، کہ ایک سے لے کر بیس تک ترتیب کے ساتھ نکل آئیں۔ آپ پوری زندگی بھی یہ عمل کرتے رہیں، تو کامیاب نہیں ہوں گے۔

پھر اتنی بڑی کائنات کس طرح خود بخود ترتیب پکڑ سکتی ہے؟ یہ وہی دلیل ہے جسے امام ابوحنیفہ نے ایک مناظرے کے دوران پیش کرکے کہا تھا کہ ایک درخت سے کشتی بن گئی اور پھر انھوں نے اس کے ذریعے دریا پار کیا۔ اس دلیل کو سر فریڈ ہوئل نے ایک اور انداز سے پیش کی تھی۔ ( فریڈ ہوئل وہی متنازعہ انگریز ماہرِفلکیات اور ادیب ہیں جو ”بِگ بینگ“ کی اصطلاح کے خالق بھی ہیں اور اس نظریے کے بڑے ناقد بھی ) انھوں نے کہا تھا کہ کائنات کی خودبخود بننے کی مثال ایسی ہے کہ تیز آندھی آجائے اور ایک کباڑخانے سے سامان اڑاکر لے جائے اور آگے اس سامان سے بوئنگ سات سو سینتالیس بن جائے۔

(فریڈ ہوئل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”دھیر اِز کوہیرینٹ پلان اِن دی یونیورس، دھو آئی ڈونٹ نو وَٹ اِٹس اَ پلان فار“ ) پس یہ کائنات خودبخود نہیں بنی بلکہ خدا نے پیدا کی ہے اور جو لوگ نہیں مانتے، ان کے پاس تردید کے لیے کوئی ثبوت نہیں۔ اس آخری بات کا جواب بر ٹرنڈرسل اس طرح دیتے ہیں کہ ثبوت ایمان رکھنے والوں کو دینا چاہیے، ایمان نہ رکھنے والوں کو نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں دعوا کروں کہ زمین اور مریخ کے درمیان ایک چاے دانی مدار میں سورج کے گرد گھوم رہی ہے جو اتنی چھوٹی ہے کہ کسی بھی دوربین سے نظر نہیں آتی، تو کوئی میرے اس دعوے کو غلط ثابت نہیں کرسکے گا۔

عظیم سائنسدانوں میں نیوٹن، مائکل فیراڈے، جیمز کلرک میکسویل، لارڈ کیلون اور فرانسس کولنز عقیدتاً مذہبی تھے، جبکہ آئن سٹائن، سٹیپن ہاکنگ، ڈارون، تھامس ایڈیسن اور برٹرنڈرسل وغیرہ غیر مذہبی۔ آئن سٹائن ( جن کو اسرائل نے اسرائل کا صدر بننے کی پیشکش کی تھی مگر انھوں نے ٹھکرائی تھی اور کہا تھا ”قومیت ایک بچگانہ بیماری ہے، جیسے انسانیت کا خسرہ“ ) کا ایک خط، جو انھوں نے ایک المانوی فلسفی ایرک کائینڈ کو لکھا تھا، گزشتہ سال نیویارک میں انتیس لاکھ ڈالر میں نیلام ہوا۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں :

” لفظ خدا میرے لیے انسانی کمزوری کے اظہار اور پیداوار کے علاوہ کچھ نہیں۔ بائبل قابلِ قدر مگر دقیانوسی اساطیر کا مجموعہ ہے۔ کوئی تفسیر چاہے وہ کتنی ہی باریک کیوں نہ ہو، اس بارے میں میرے خیالات بدل نہیں سکتی“

نوبل انعام یافتہ سائنسدان فِن مین لکھتے ہیں :

” وَین یو لوک ایٹ دی یونیورس اَینڈ انڈرسٹینڈ اِٹس لاز، دی تھیوری دَیٹ اِٹ اِز آل ارَینجڈ اَیز اَ سٹیج فار گاڈ ٹو واچ مَینز سٹرَگل فار گوڈ اَینڈ اِیوِل سِیمز اِن اِڈیکویٹ۔ “

رچرڈ ڈاکنز لکھتے ہیں :

” آئی ایم اگَینسٹ ریلیجن بیکاز اِٹ ٹیچس اَس ٹو بی سیٹیسفائڈ وِدھ ناٹ انڈرسٹینڈِنگ دی ورلڈ۔ “

برٹرنڈرسل کا کہنا ہے :

” دنیاے علم و ادب کے اکابرین کی اکثریت عیسائی مذہب پر ایمان نہیں رکھتی لیکن روزی چِھن جانے کے خوف سے اس سچ کو عوام سے چھپاکر رکھا جاتا ہے۔ “

ماہرِفلکیات کارل سیگن لکھتے ہیں :

”اگر خدا سے ہماری مراد طبیعاتی قوانین ہیں جو کائنات پر کارفرما ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ایسا خدا جذباتی نقطہ نظر سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ قانونِ کششِ ثقل کی عبادت کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی۔ “

جارج کارلِن امریکہ کے مشہور مزاح نگار اور مزاحیہ اداکار گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

” مذہب نے انسان کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ آسمان میں ایک ان دیکھا کوئی ہے جس کے پاس ان دس چیزوں کی ایک خاص فہرست ہے جو وہ نہیں چاہتا کہ آپ کریں۔ اور اگر آپ ان دس چیزوں میں سے کوئی ایک بھی کریں تو اس کے پاس ایک خاص جگہ ہے جو آگ، دھوئیں، جلن، تشدد اور غم سے بھری ہوئی ہے جہاں وہ آپ کو ہمیشہ کے لیے تکلیف اٹھانے، آگ میں جلنے، دھوئیں میں سانس لینے اور رونے چلانے کے لیے بھیج دے گا۔ لیکن اس کے باوجود وہ آپ سے بہت پیار کرتا ہے“

آخر میں یہ بھی بتا دوں کہ مجھے ذاتی طور پر وہ لوگ پسند ہیں جو اِن بکھیڑوں میں پڑنے کے بجاے بِلا امتیازِ رنگ، نسل، مذہب اور ملک کے مخلوقِ خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر تگ و تاز کرتے ہیں، سب کے لیے خیر و برکت کا باعث بنتے ہیں، ستائش کی تمنا کرتے ہیں اور نہ صلہ کی پروا۔ مخلوقِ خدا کی بھلائی ان کے لیے عبادت بھی ہوتی ہے اور

” شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم“

کے مصداق باعثِ تفریح و مسرت بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں قرآن نے ”محسنین“ کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ:

یَداللہِ فَوق اَیدِیھِم

غالب کا ایک شعر ہے :

خوش بود فارغ ز بندِ کفر و ایماں زیستن

حیف کافر مردن و آوخ مسلماں زیستن

ترجمہ : کفر و ایمان کی بندش سے بے نیاز ہوکر زندہ رہنا ہی اچھا ہے۔ افسوس ہے کافر مرنا اور افسوس ہے مسلمان جینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments