یکساں نصاب تعلیم، خدشات و تاثرات


قومی زندگی میں نصاب تعلیم کی اہمیت محتاج بیان نہیں ہے حالیہ ایام میں قومی سطح پر نصاب تعلیم کی تشکیل کے اوپر بحث جاری ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی سطح پر یکساں نصاب تعلیم کی تشکیل اور اس کے فروغ کا بیڑا اٹھایا ہے اور اسی ضمن میں دینی مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور ان کے نصاب تعلیم کو بھی قومی ذمہ داری قرار دے کر حکومتی سطح پر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کا دعوی کیا جارہا ہے۔

یکساں نصاب تعلیم یقینا ایک بہت بڑی قومی ضرورت ہے اور اگر اس سمت کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو وہ یقینا ایک مبارک قدم قرار دیا جانا چاہیے اور لیکن اس جانب موجودہ حکومت نے اب تک جو اقدامات اٹھائے ہیں ان پر اصحاب فکر و دانش نے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ معاصر روزناموں میں اس سلسلے میں متعدد تحریریں منظر عام پر آچکی ہیں اسی ضمن میں چند نکات کی طرف درج ذیل شور میں توجہ دلانا مقصود ہے۔

یکساں نصاب تعلیم ایک قومی ضرورت ہے اس مقصد کے لیے کام بھی قومی جذبے کے تحت ہی ممکن ہے اب سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق موجودہ حکومت یکساں نصاب تعلیم کے شوشے کے پس پردہ ایک برطانوی (واٹر ایڈ) اور ایک امریکی این جی او (یو ایس کمیشن فار ریلیجئیس فریڈم) کارفرما ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں وضاحت کرے ورنہ اہل علم و دانش اس منصوبے کی ہر صورت مزاحمت کریں گے۔

کسی بھی نصاب تعلیم کی بنیاد اس کا نظریاتی فریم ورک ہوتا ہے اس نظریاتی فریم ورک سے اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ اس نصاب تعلیم سے کس قسم کی شخصیت کی تشکیل مقصود ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نصاب تعلیم کی تشکیل کی ضرورت مشرقی اور اسلامی معیاری شخصیت کی تشکیل کے لیے ہے ناکہ مغرب کی معیاری شخصیت کی تشکیل کے لیے ہے۔ جبکہ حکومت نے اس نصاب کے لیے جو ”نظام اقدار“ متعارف کروایا ہے وہ مغربی شخصیت کی تشکیل کے لیے ذہن سازی مہیا کرتا ہے جس کا ہمارے نظریاتی فریم ورک سے ادبی رشتہ و تعلق بھی نہیں ہے۔ جس سے احساس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی پرانی بوتل میں نئی شراب بیچنا چاہتی ہے۔

اگر موجودہ معاشرے کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے کہ اندریں حالات معاشرے مغرب کے سماجی علوم کے زیر اثر تشکیل دیے جارہے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے اہل حل و عقد صرف اسلامیات اور اس سے متعلقہ نصاب کا جائزہ لینے کے بجائے دیگر مضامین کے ساتھ بالخصوص سوشل سائنسز سے متعلقہ مضامین کا لازمی جائزہ لیا جائے کیونکہ نئے فکری پیراڈائم میں ان کی اہمیت مسلم ہے اور انہی بنیادوں پر وحی کے بجائے انسانی فکر اور سوچ کو حاکم قرار دے کر انسانیت کی فکری ساخت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نصاب و نظام تعلیم سے متعلق حکومت اور دینی اداروں کے درمیان اس سے قبل بھی مذاکرات کے دور چلتے رہے ہیں لہذا ضروری ہے کہ گزشتہ مذاکرات کے دوران طے شدہ معاہدات کی پاسداری کی جائے اور اب تک کی حکومتی روش سے پرہیز کرتے ہوئے دینی طبقات کو کسی قسم کے اضطراب میں مبتلا نہ کیا جائے۔

موجودہ حکومتی روش اور طرز عمل یہ بتا رہا ہے کہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں معاشی، سیاسی اور سماجی محاذ پر بچگانہ اور گھٹیا طرز عمل کے بعد اب حکومت تعلیمی محاذ پر بھی اسی گھٹیا طرز عمل کو اختیار کررہی ہے جس کی مزاحمت ایک قومی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے صف بندی جاری ہے۔

اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ حکومت کی سرگرمیوں کے علاوہ پرائیویٹ سطح پر دینی طبقہ اپنے طور پر ایک جامع قومی نصاب تعلیم تیار کرے اور وفاق المدارس العربیہ یا اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے فورم کو اس مقصد کے لیے متحرک کیا جائے۔

موجودہ حکومت نے طے کردہ نصاب تعلیم کی کمزوریوں کو عوام کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے ہر قسم کے سماجی اداروں کو روبہ عمل لایا جائے اور مغرب کے اداروں کے زیر اثر تیار کردہ اس نصاب کو مکمل مسترد کیاجائے کیونکہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت ناکام معاشی اور سیاسی پالیسیوں کی طرح تعلیمی امور میں بھی روایتی نا اہلی کا اظہار کرکے معاملات ناقابل حل بنانے کی کوشش کررہی ہے جسے روکنا ایک قومی فریضہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments