بھارتی مسلم خواتین کا سیاسی شعور اور موجودہ صورت حال


ہندوستان میں جس طرح سی اے اے اور این آرسی کے خلاف طلبہ اور خواتین کی احتجاجی مہم جاری ہے وہ ہم سب کے لئے سبق آموز، حوصلہ مند اور خوش آئند ہے۔ ہندوستان میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں خواتین نے سڑکوں پر نکل کر یہ ثابت کردیاکہ سرکاریں اور ہمارے مولوی ملّا ان کے لئے جس طرح کا پروپیگنڈہ کرتے آئے ہیں وہ سراسر غلط ہے۔ وہ فقط خاتون خانہ نہیں ہیں بلکہ انہیں اتنا ہی سیاسی و سماجی شعور ہے جتنا کہ دوسرے مردوں کو ہے۔

بلکہ بعض مسائل کی افہام و تفہیم میں تو وہ مردوں سے بھی دوہاتھ آگے ہیں۔ ہمارے مسلم معاشرے میں مشہور تھاکہ ہماری خواتین کا سیاسی و سماجی شعور بہت گہرا نہیں ہے۔ کیونکہ وہ سماج و معاشرے کی تشکیل میں اپنا کلیدی کردار سمجھنے سے قاصر رہی ہیں۔ بعض وہ خواتین جو مسلم معاشرے میں بہت ابھر کر سامنے آئی ہیں، ان کا پس منظر خالص مسلم معاشرہ سے مربوط نہیں تھا۔ اس لئے ہندوستان میں موجود فاشسٹ طاقتیں جو مسلم خواتین کے حقوق کے نام پر عوام کو ورغلاکر اپنا مفاد پورا کرنا چاہتی ہیں، وہ مسلمان عورتوں کے حقوق کے لئے آوازبلند کرکے ان کا اعتماد جیتنے کی فکر میں تھیں۔

خواہ وہ تین طلاق کا مسئلہ ہو یا پھر ان کی تعلیم و ترقی کا منصوبہ ہو۔ ہر محاذ پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مذہب اسلام میں خواتین کا استحصال ایک عام مسئلہ ہے جس پر کبھی کسی نے سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کسی حدتک اس کے لئے ہمارا کٹھ ملائی نظام بھی ذمہ دارہے جس نے کبھی خواتین کے سیاسی و سماجی شعور کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ مگر گذشتہ کچھ مہینوں میں جس طرح مسلم خواتین نے اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کے لئے صدائے احتجاج بلند کی اس نے ہندوستان میں موجود ہر طبقے کے اندازوں کو غلط ثابت کردیا۔

پہلی بار اجتماعی طورپر مسلم خواتین کا سیاسی و سماجی شعور اتنی گہماگہمی کے ساتھ منظر عام پر آیا کہ ہمارا ملائیت زدہ نظام ہی نہیں بلکہ سرکاراور انتظامیہ بھی سکتے میں آگئی۔ جس بیباکی، سیاسی پختگی اور سلیقے سے مسلم خواتین نے اپنا مؤقف حکومت اور میڈیاکے سامنے رکھاوہ قابل دیدہے اور ہمارے لئے سبق آموز بھی۔

اس سے پہلے ہم نے کبھی مسلم خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو ایک پلیٹ فارم پرنہیں دیکھا تھا۔ جبکہ ان مظاہروں میں ان کے ساتھ ہر مذہب اور ہر طبقے کی خواتین شامل ہیں لیکن شاہین باغ سے لے کر لکھنؤ کے گھنٹہ گھر تک اوردوسرے مقامات پر جس طرح تمام احتجاجی مظاہروں کی رہنمائی خواتین نے کی ہے وہ متحیر کن اور خوش آئند ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ خواتین اس سے پہلے رہنمائی کے لئے سامنے کیوں نہیں آئیں؟ رہبریت اور قیادت کے بحرانی دور میں ان کا اس حوصلے اور جذبے کے ساتھ میدان عمل میں آنا اور اپنے مطالبات کو جرأت اور حوصلہ مندی کے ساتھ سرکار کے سامنے رکھنا آسان نہیں تھا۔

ان مظاہروں میں علماء موجود نہیں تھے۔ مسلم قائدین اور رہبریت کے تمام دعویدار منظر سے غائب رہے اس کے باوجود انہوں نے اپنے احتجاجی مظاہروں کی جہت معین کی اور رہنمائی کے تمام تر اصولوں پر عمل کیا۔ اپنے سیاسی و سماجی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کیے۔ ہندوستانی سیاست میں یہ خوش آئند قدم ہے جس کا پرتپاک استقبال کیاجا رہا ہے۔ ان مظاہروں میں ہم نے دیکھاکہ خواتین کو ہراساں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر انتظامیہ اور سرکار ان کے حوصلے اور جذبے کے سامنے ناکام ہوکر رہ گئی۔

شاہین باغ میں احتجاج کررہی خواتین کے ساتھ کتنا نازیبا سلوک کیا گیا مگر وہ اپنے مؤقف پر ابھی تک قائم ہیں۔ ان کے ساتھ ہر مذہب اور ہر طبقے کے افراد نے آکر یہ ثابت کردیاکہ ہندوستان میں فاشسٹ طاقتوں کا مستقبل خوش آئند نہیں ہے۔ سیکولرازم اس ملک کی روح میں شامل ہے اس کو کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ممکن ہے کچھ عرصے کے لئے فاشسٹ طاقتوں کو عروج حاصل ہوجائے اور سیکولر ڈھانچے کو برباد کرنے کی کوشش کی جائے مگر وہ کبھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

لکھنؤ کے تاریخی مقام گھنٹہ گھر پر خواتین کا احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ شاہین باغ کی خواتین کے جذبے سے متاثر ہوکر یہاں بھی خواتین نے سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاجی دھرنا شروع کردیاہے۔ چونکہ دہلی میں عام آدمی پارٹی اقتدار میں ہے لہذا شاہین باغ کی خواتین کے ساتھ پولیس نے اتنا تشدد آمیز اور شرمناک رویہ اختیار نہیں کیا جتنا کہ لکھنؤ میں اختیار کیاگیا۔ جبکہ دہلی میں پولیس مرکز کے ماتحت ہے۔ اس کے باوجود شاہین باغ میں پولیس کا رویہ اتنا مایوس کن نہیں ہے جتنا کہ لکھنؤ میں دیکھا گیا۔

گھنٹہ گھر پر مظاہرے کا آغاز ہوتے ہی پارک میں موجود بیت الخلاءبند کردیے گئے۔ رات کے وقت خواتین کے لئے ٹینٹ لگانے کی کوشش کی گئی مگر انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی اور ٹینٹ لگانے والوں کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔ حد یہ ہے کہ جو افراد اپنے گھر کی خواتین سے بات چیت کرنے یا انہیں کھانا پانی پہنچانے کے لئے جارہے تھے انہیں بھی حراست میں لینے کی کوشش کی گئی۔ احتجاجی مظاہرے کو پانچ دنوں سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر خواتین کڑاکے کی ٹھنڈ میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھی ہوئی ہیں۔

سرد ہواؤں اور یخ بستہ موسم کی وجہ سے کئی خواتین بیمار پڑ چکی ہیں مگر ان کے حوصلے بلند ہیں۔ بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ کا نعرہ دینے والی سرکار کیا ان بیٹیوں کو نہیں دیکھ رہی ہے جو اپنے حقوق اور آئین کے تحفظ کے لئے یخ بستہ ٹھنڈ میں زیر آسمان بیٹھی ہوئی ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنے کے لئے ان پر مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ پولیس نے اب تک خواتین پر تین مقدمے درج کیے ہیں جن میں سمیہ رانا، صفیہ رانا، رخسانہ، صفی صفیہ سمیت تقریباً 20 نامزد اور 125 نامعلوم خواتین اور بڑی تعداد میں سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کے مالکوں پر بھی مقدمات درج کیے ہیں۔

یہ پہلی بار دیکھاگیاہے کہ جو لوگ مظاہرے میں شامل ہونے کے لئے گاڑیوں سے آرہے ہیں ان پر گاڑیوں کے نمبروں کے ذریعہ مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ ان مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد گھٹ جائے تاکہ خواتین کو ہراساں کرکے دھرنا ختم کرادیاجائے مگر دن بہ دن شرکت کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے حکومت اور انتظامیہ دونوں خوفزدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب خواتین کے لئے لائے گئے کمبلوں، کھانے پینے کا سامان اور دیگر ضروریات کی چیزیں بھی پولیس اپنی گاڑی میں اٹھالے گئی۔

سردی سے بچنے کے لئے انگیٹھی کا انتظام کیا گیا تو پولیس نے آکر آگ میں پانی ڈال دیا۔ رات بھر گھنٹہ گھر کی لائٹ بند کردی جاتی ہے تاکہ خواتین اندھیرے سے وحشت زدہ ہوکر دھرنا ختم کردیں۔ مگر اب تک انتظامیہ اورسرکار اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ پولیس نے سوشل میڈیا پر سرکار اور پولیس کے خلاف لکھنے والوں کے خلاف بھی ایف آئی آردرج کی ہے۔ پولیس کے بقول یہ لوگ انتظامیہ کے خلاف بھڑکاؤ پوسٹ ڈالنے کے مجرم ہیں؟ جبکہ بعض لوگ یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ اگر پولیس مظاہرین کے کمبل، کھانے کا سامان اور دوسری چیزیں اٹھاکر لے جارہی ہے تو کیا اس کے خلاف سوشل میڈیا پر لکھنا اوران کے ویڈیو ز کو شئیر کرنا بھی جرم ہے؟

21 جنوری کو لکھنؤمیں وزیر داخلہ امیت شاہ نے سی اے اے کی حمایت میں ریلی سے خطاب کیا۔ ظاہر ہے ریلی کو کامیاب بنانے کے لئے اترپردیش سرکار نے اپنی پوری طاقت صرف کردی تھی۔ لکھنؤ کے علاوہ ہندوستان بھر میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ مسلسل سی اے اے کی حمایت میں ریلیاں کررہے ہیں۔ ان ریلیوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ اگر حکومت پارلیمنٹ میں ہی ان تمام مسائل پر کھل کر بات کرتی اور نتیجہ خیز بحث ہوتی تو آج بی جے پی کو ان ریلیوں پر پانی کی طرح پیسہ نہ بہانا پڑتا۔ مگر پارلیمنٹ میں دی گئی آدھی ادھوری جانکاری حکومت کے لئے درد سر بن گئی ہے۔ حکومت اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتی کیونکہ اس طرح اس کی ہندوتووادی سوچ کو بڑاجھٹکا لگے گا مگر وہ عوام کو اعتماد میں لینے کی جدوجہد میں مصروف ہے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

اس وقت پورے ہندوستان میں سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاجات ہورہے ہیں۔ ملک میں کئی اہم جگہوں پر شاہین باغ کی طرز پر خواتین کا دھرنا جاری ہے۔ مظاہرین کو ہراساں کرنے کے لئے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں مگر اب یہ احتجاجات ایک تحریک میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ تحریکوں کو کچلنا آسان نہیں ہے۔ تحریک میں شامل لوگوں کو حراست میں لے کر انہیں ٹارچر کرنا، مظاہرین کو زدوکوب کرنا یا پھر گولیاں برساکر انہیں قتل کردینے سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں۔ اس تحریک کی باگ ڈور طلباء اور خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت جنہیں خرید کر اپنا مفاد حاصل کرلیا کرتی تھی ان لیڈروں کو اس تحریک سے دور رکھا گیاہے اس لئے اب حکومت کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور مظاہرین کے مطالبات پر غورکرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments